اسلامو فوبیا کے ممکنہ خطرات

وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ اسلامو فوبیا عالمی امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے خطرہ ہے۔انسداد اسلاموفوبیا کے عالمی دن پر اپنے ایک پیغام میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے کہا  کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش امتیازی سلوک، نفرت اور تعصب قابل مذمت ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد پیش کرکے پاکستان نے آواز اٹھائی۔انہوں نے کہا کہ اسلام دینِ رحمت ہے جو امن، محبت، برداشت اور انسانی عظمت کا درس دیتا ہے، بدقسمتی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا کا رجحان پنپ رہا ہے، اسلاموفوبیا عالمی امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک خطرہ ہے، اسلاموفوبیا کے خاتمے کی ہر کاوش کو سراہتے ہیں، اقوام متحدہ اور تمام عالمی ادارے نفرت انگیز رویوں کے خلاف موثراور یقینی اقدامات کریں۔ پنجاب حکومت مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے احترام کو فروغ دینے کے لئے  ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے، ایسا پنجاب چاہتے ہیں جہاں ہر مذہب اور مسلک کو مساوی حقوق اور عزت حاصل ہو۔وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کیلئے دنیا کو اسلام کے حقیقی تشخص سے روشناس کرایا جائے ، ہر قسم کی منافرت کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے ، پائیدار عالمی امن کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور نفرت بڑھ رہی ہے۔اسلامو فو بیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ بطور اصطلاح سب سے پہلے بر طانیہ میں استعمال کیا گیا ۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ: یہ اصطلاح  میں امریکی رسالہ ان سائٹ میں معرض وجود میں آئی۔کسی بھی چیز یا عمل سے خوف کھانے کو فوبیا کہا جاتا ہے ۔اس کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال ہو تی ہیں، مثلا وہ شخص جس کو پانی سے ڈر لگتا ہو،اس کے لیے ہائیڈروفوبیا کی اصطلاح استعمال ہو تی ہے۔اسی طرح سے ایک اصطلاح فوبوفوبیا ہے۔ فوبیا خوف، ڈر اور نفرت رکھنے کو کہتے ہیں۔یہ ذہن کی اس مریضانہ کیفیت کا نام ہے، جو کسی کی طرف سے خوف یا نفرت کی صورت میں ظاہر ہو تی ہے۔فوبیا غیر منطقی اور مریضانہ ذہنیت کا نام ہے، جو خوف ،بے رغبتی اور نفرت پر مبنی ہے۔ جب لفظ فوبیا کو اسلام کے ساتھ جوڑا جائے تو اس کے معنی و مفہوم: اسلام سے خوف،ڈر یا نفرت کے ہوتے ہیں، جو مخالفین اسلام اور معترضین کے دل و دماغ میں رچ بس گیا ہے ۔اسلام کی حقیقی تصویر کو بگاڑنا، مسلمانوں کو بدنام کرنا ،انہیں جاہل اور خوف ناک روپ میں پیش کرنا،اور انہیں ذہنی و جسمانی طور سے پریشان کرنا،تشددکا نشانہ بنانا،مساجد اور اسلامی شعائر پر حملے کرنا،مسلمانوں کے مخصوص لباس پر طعنے دینا اور ان کے تہذیبی تشخص' جائز اور بنیادی حقوق سے محروم کرنا وغیرہ، اسلامو فوبیا کی مختلف شکلیں اور حر بے ہیں۔ اگر جامع الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ صورت سامنے آتی ہے:اسلامو فوبیا سے مراد، اسلام، مسلمان اور اسلامی تہذ یب و ثقافت سے نفرت اور خوف کا اظہار اور عمل ہے۔اسلامو فوبیا ایک ایسا نظر یہ ہے جس کے مطابق دنیا کے تمام یا اکثر مسلمان جنونی ہو تے ہیں جو غیر مسلموں کے بارے میں متشددانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔اسلام کے خلاف غیر منطقی، جارحانہ اور سخت نا پسند یدگی کے اظہار کا نام اسلامو فوبیا ہے۔اسی طرح اسلامو فوبیا میں مسلمانوں کو نفسیاتی ،سماجی اور تہذیبی طور پر ہراساں کر نا اور اسلام کے ماننے والوں کو ملک و قوم کے اقتصادی ،سماجی ،سیاسی اور روز مرہ زندگی سے بے دخل کر نا بھی شامل ہے۔دنیا میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ عملا ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے۔مخالفینِ اسلام کی طرف سے یہ مبنی بر جاہلیت بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ: اسلام میں کو ئی تہذیب ہی نہیں ہے اوراگر ہے بھی تو وہ مغربی تہذیب سے ہر اعتبار سے کم تر ہے۔ علاوہ ازیںوہ اپنے آپ کو اعلی اور مسلمانوں کو کم تر باور کر تے ہیں۔بر طانیہ کا ایک تحقیقی ادارہ نے ایک دستاویز میں اسلامو فوبیا کی تعریف کے درج ذیل آٹھ نکات بیان کیے ہیں:اسلام ایک توحید پرست، جامد اور ناقابلِ تغیر مذہب ہے۔اسلام ایسا منفرد مذہب ہے، جس میں دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے مختلف اقدار ہیں۔یہ غیر معقول،قدامت پرست، جنسی تفریق پر مبنی، خطرناک، دہشت گردی اور تہذیبی تصادم کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔مغر بی فکر و تہذیب سے کم تر مذہب ہے۔ اسلام ایک سیاسی نظر یہ ہے۔ اسلام مغر بی فکر و اقدار پر غیر معمولی تنقید کر تا ہے۔ اسلام کے خلاف بغض و عناد ،نفرت اور خوف بعثت نبویۖ سے ہی شروع ہوگیا تھا۔جب اللہ کے رسول ۖ نے لو گوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو دشمنان اسلام نے اسلام کے خلاف زبردست محاذ سنبھالا۔وہ ہر اس جگہ پہنچ جاتے ،جہاں اللہ کے رسول پیغام پہنچاتے تھے۔ وہ اللہ کے رسول پر بے جا الزامات و اعتراضات عائد کر تے تھے کہ یہ نعوذ باللہ کاہن اور شاعر وغیرہ ہیں، اور لوگوں سے کہتے تھے کہ ان کی باتوں میں نہ آئیں ۔اسلامو فوبیا منظم طر یقے سے صلیبی جنگوں سے شروع ہوا، کیوںکہ عیسا ئی دنیا کو فوج کی کثرت اور بے شمار وسائل کے باوجود کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو ا۔مشہور مصنفہ اور راہبہ کیرن آرم سٹرانگ نے اعتراف کیا کہ:اسلامو فوبیا کی تاریخ صلیبی جنگوں سے ہی جاملتی ہے۔ یعنی عیسائی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور خوف رکھنے کی تاریخ محفوظ  ومدون ہے۔مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مخالفانہ رویہ نائن الیون کے بعد اپنے عروج پر پہنچ گیا۔اسلامی تعلیمات اور اقدار کو مغرب نے اپنی پیش کردہ لبرل جمہوریت کے نظریے سے متصادم قرار دیتے ہو ئے کہا کہ اسلام اور مسلم دنیا مغر بی فکر و اقدار اور تہذ یب کے ہم پایہ نہیں ہے۔اس نظریے کے تحت مغرب اور یورپ اپنی تہذ یبی بالادستی قائم رکھنے کے لیے اسلام کو برا نام دینے اور مسلمانوں کے خلاف نت نئے حر بے استعمال کر رہے ہیں۔جب کچھ مہم جوئوں نے امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا جو کسی بھی اعتبار سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا کے بعد مغرب اور مغرب کے زیراثر قوتوں کے ہاں اسلام کی تعلیمات، تہذیب اور تاریخ کو نشانہ بنانے میں کسی قاعدے، کلیے،عدل اور اخلاق کا لحاظ نہ کیا گیا۔ تب سے اب تک مسلمانوں کے تہذ یبی اور ثقافتی اداروں کے ساتھ مساجد، اسکولوں اور اسلامی مراکز پر بھی حملے کیے جارہے ہیں۔ مغرب میں ایک ہی بات بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اسلام انتہا پسندی کا ذریعہ ہے۔ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اسلاموفوبیا کی تحر یک کو فروغ مل رہا ہے اور مغر ب ایک نئی صلیبی جنگ کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ مغرب اور یورپ میں اسلام اور پیغمبر اسلامۖ کی تضحیک کی جاتی اور مذاق اڑایا جاتا ہے، کیو ںکہ انةیں معلوم ہے کہ مسلمان رسول پاک اور ان کی تعلیمات سے بے حد عقید ت رکھتے ہیں۔ اسی لیے مغرب اور یو رپ میں ہرزمانے اور ہر وقت اللہ کے رسول ۖ پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں۔  اس معاملے میں وہاں کا ہر طبقہ پیش پیش ہے۔چاہے وہ حکمرانوں یا پالیسی سازوں کا طبقہ ہویا  دانش وروں، مصنفوں،فن کاروں اور ادبیوں کا، غرض کہ ان میں ہر گروہ یا طبقے کے سرگرم افراد اسلام اور نبی  کریم کی ذاتِ اقدس پر حملہ کرنے کی کو شش میں مصروف عمل ہیں۔مغر ب میں اسی فضا کو پروان چڑھایا جارہا ہے، گویا اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہرچیز کا دوسرا نام انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے۔دنیا میں جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں  ان کی شہریت پر سوالات ،پاسپورٹ مشکوک،نقاب و حجاب میں ملبوس عورتیں شکوک و شبہات کی شکار ہیں۔ جس مذ ہب کو سب سے زیادہ ہدف تنقید و ملامت بنایا جارہا ہے وہ اسلام ہی ہے۔ نفرت اور عداوت کے شکار سب سے زیادہ مسلمان ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر تشدد کے بھی بے شمار واقعات رونما ہو ئے ہیں۔مغر ب میں نائن الیون کے بعد جب کسی مسلمان سے کوئی جر م یا خطا سرزد ہو جاتی ہے تو اس کو نہ صر ف شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ قانون کے دائرے میں بھی لیا جاتا اور اسلام پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اس کے بر عکس کسی دوسرے مذ ہب سے تعلق رکھنے والے شخص سے جر م یا قتل سرزد ہو جاتا ہے تو صرف اس کی ذات کو تنقید کی زد میں لایا جاتا ہے مغربی میڈیا اسلامو فوبیاکی جڑ مضبوط کر نے اور پھیلانے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست کردار ادا کر رہا ہے۔مسلمانوں کو متشدد، گمراہ ،جاہل ،انتہا پسند اور جنو نی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مغرب اور یورپ کا کو ئی ایسا اخبار اور رسالہ نہ ہو گا، جس میں آئے روز اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف زہر افشانی نہ کی گئی ہو۔برطانیہ کے قومی اخبارات ہر ماہ اوسطا پانچ سو سے زیادہ تحریریں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق شائع کرتے ہیں ۔ اسلام کو مسیحی اور مغر بی دنیا کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور زبان بھی اس کے لیے بازاری قسم کی استعمال کی جاتی ہے۔مغر بی میڈ یا کی یہ سب زہر افشانیاں،جنہیں وہ آزادیِ رائے کہتے ہیں ،صرف اسلام، پیغمبراسلامۖ اور مسلمانوں تک ہی محدود ہیں۔لیکن جب بھی کوئی ان کی فکر و تہذیب، ثقافت، سیاست اور اخلاقیات پر کسی قسم کی تنقید کرتا ہے،تو اسے وہ آزادیِ اظہارِ رائے پر حملہ قرار دیتے ہیں۔