وفاقی حکومت نے آئی ٹی ٹریننگ منصوبوں میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ٹی کے تربیتی منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہواوے ٹیکنالوجیز کے ساتھ پاکستان کے تین لاکھ نوجوانوں کو آئی سی ٹی ٹریننگ کی فراہمی کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا۔اجلاس میں ہواوے ٹیکنالوجیز کے وفد کے ارکان نے شرکت کی۔ اس موقع پر نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتوں سے آراستہ کرنے اور آئی ٹی کے شعبے میں عالمی معیار کی تربیت فراہم کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس میں گزشتہ برس چین میں ہواوے ٹیکنالوجیز کے ساتھ طے کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ ٹیکنالوجی کے فروغ اور ڈیجیٹل انقلاب میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ہے، حکومت نوجوانوں کو جدید مہارتوں سے لیس کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کررہی ہے۔ ہواوے کے آئی سی ٹی ٹریننگ پروگرام سے آئی ٹی برآمدات میں اضافے سمیت نوجوانوں کو روزگار کے حصول میں مدد ملے گی۔اس موقع پر ہواوے ٹیکنالوجیز کے نمائندوں نے پاکستان میں جدید تربیتی پروگرام کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ہواوے ٹیکنالوجیز اس اقدام کے تحت نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت اے آئی، سائبر سیکیورٹی، کلاڈ کمپیوٹنگ اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز میں تربیت فراہم کرے گی۔وزیراعظم کو بتایا گیا کہ تین لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو آن لائن تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے آئی سی ٹی ٹریننگ پورٹل کا باقاعدہ افتتاح وزیراعظم شہباز شریف کریں گے۔حکام کے مطابق ہواوے ٹیکنالوجیز کی جانب سے اس وقت تک بیس ہزار 315 طلبہ کو تربیت فراہم کی جا چکی ہے۔ پروگرام کے تحت طلبہ، ٹرینرز اور آئی سی ٹی ٹیکنالوجیز میں کام کرنے والوں کی اپ سکلنگ کی جا رہی ہے۔ہواوے ٹیکنالوجیز جن ماسٹر ٹریننرز کو تربیت فراہم کرے گا وہ مقامی سطح پر نوجوانوں کو تربیت فراہم کریں گے۔وزیراعظم نے آئی ٹی ٹریننگ کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی اور آئی سی ٹی ٹریننگ پورٹل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے احکامات بھی دیے۔وزیراعظم نے تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان تک اس منصوبے کو وسعت دینے کی ہدایت کی۔ آئی ٹی کی تعلیم ٹریننگ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے گزشتہ سال آئی ٹی خدمات کی برآمدات ڈھائی ارب ڈالر تک محدود رہیں جبکہ اس دوران بھارت کی آئی ٹی برآمدات کا حجم دو سوارب ڈالر سے زائد رہا۔ موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا بھر میں آئی ٹی سے منسلک سروسز اور اشیا کی مانگ بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں عدم توجہی کی وجہ سے اس شعبے سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کیے جا رہے۔ آئی ٹی سکیٹر کے ذمہ داران اور وزارتِ ٹیکنالوجی کو چاہیے کہ آئی ٹی کو ایک بڑی برآمدی صنعت بنانے کیلئے مل کر کام کریں۔ حکومت اس شعبے اور فری لانسرز کو مراعات اور ٹیکس چھوٹ دے۔ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے برآمدات کو بڑھانا ناگزیر ہے اس ضمن میں آئی ٹی کی صنعت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ شعبہ جات اس جانب توجہ دیں تو آئی ٹی کی ملکی برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں سے سالانہ تقریبا پچیس ہزار گریجویٹ ہونے والے طلبامیں سے صرف دس فیصد گریجویٹس ایسے ہیںجو مارکیٹ میں روزگار حاصل کرنے کی ضروری مہارتوں کے حامل ہیں۔ ان گریجویٹس میںسے باقی نوے فیصد وہ ہیں جو آئی ٹی کے شعبے میں ملازمت کے لئے قابل نہیںہیں ۔یہ ہوش ربا انکشافات ہیں جنہیں سننے کے بعد تو ذمہ داران کی راتوں کی نیند اڑ جانی چاہیے تھی لیکن روز مرہ ملکی معاملات میں تبدیلی کی ہوا میں کوئی واضح فرق نظر آتا دکھائی نہیںدے رہا ہے ۔تعلیمی میدان میں آئی ٹی کے شعبے میں پیچھے رہ جانے سے ملکی ترقی کی راہ میںایک اہم رکاوٹ حائل ہے ۔ انڈیا آئی ٹی کی سالانہ ایکسپورٹ دو سو بلین ڈالرہے جبکہ پاکستان کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ کا حجم شرمناک حد تک کم ہے ۔پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی ممالک سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ آئی ٹی کے شعبے میں سب سے عوامل کارفرما ہیں جسکی وجہ سے یہ شعبہ آگے نہیں بڑھ رہا اور نہ ہی ملکی ترقی میں کوئی خاطر خواہ حصہ ڈال رہا ہے ۔ اگر ہم انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سب سے سست انٹرنیٹ کی سپیڈ رکھنے والا ملک ہے۔پاکستان میں گوگل اوراقتصادیاتی حکمت عملی کی مشترکہ کوششوں سے رپورٹ مرتب کی گئی جو یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں تقربیا چون فیصد لوگوں کے پاس اینڈرائیڈسیل فون ہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی استعداد کار کو اگر اسے رئیل ٹائم وسعت دے دی جائے یا بھر پور فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان کی سالانہ آمدن میں تقریباساٹھ بلین ڈالر تک دوہزار تیں تک اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح باہر کے ممالک سے آئی ٹی کے شعبے میں انویسٹ کرنے والی کمپنیوں یا دیگر لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر نافذ العمل پالیسی اورقوانین کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو آئی ٹی کے شعبے کو دوام بخشا جا سکتا ہے ۔ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ہمارا کارگر نہیں ہے ہم فرسودہ تعلیمی نصاب کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ دنیا کے کئی ممالک نئی جدتوں کو اپنا کر ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں شاید ہم ابھی بھی حالات سے سبق نہیں سیکھنا چاہتے ۔آئی ٹی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانیوالا نصاب فرسودہ ہو چکا ہے جو پاکستان کی صنعتوں کے موجودہ معیارات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔ کاشف اشفاق کے مطابق گزشتہ چند سال کے اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے کی ترقی کی شرح میں تسلسل نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ عالمی سیاسی و معاشی حالات اور پاکستانی حکومتوں کی پالیسیاں ہیں جو آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کے کام کرنے کے ماحول اور مالیاتی معاملات کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو درپیش بنیادی مسائل حل ہو جائیں تو مختصر عرصے میں آئی ٹی ایکسپورٹس کو ڈھائی ارب ڈالر سالانہ سے بڑھا کر پندرہ سے بیس ارب ڈالر سالانہ تک لے جایا جا سکتا ہے۔آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کیلئے جدید آئی ٹی پارکس اور انکیوبیشن سینٹرز کے قیام کے ساتھ ساتھ ٹیلی کام سروسز کی خدمات میں بہتری اورانٹرنیٹ بینڈوتھ میں اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ غیر ملکی آئی ٹی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے جدید تقاضوں اور عالمی معیار کے مطابق ہنر مند افرادی قوت کی تیاری اور بنیادی ڈھانچے کی مسلسل ترقی اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی میں بہتری بھی ناگزیر ہے۔اس شعبے میں پائیدار ترقی کیلئے ضروری ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے والے اداروں کو بین الاقوامی سرٹیفیکیشن کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ پاکستان میں ٹیکنالوجی پر مبنی مضامین اور خصوصی آئی ٹی مہارت میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ طویل المدت بنیادوں پر آئی ٹی سیکٹر کو ترقی کے سفر پر گامزن رکھنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ سکولوں کی سطح پر طلبہ کو اس اہم شعبے سے روشناس کروایا جائے۔ اس طرح ہمارے پاس نئی نسل کی شکل میں کم عمری سے ہی مضبوط بنیادوں پر استوار افرادی قوت مستقبل کیلئے درکار ٹیلنٹ کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے تیار ہو گی۔پاکستان کے جغرافیائی حالات اور سماجی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ٹی کا شعبہ خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر طالبات کی ابتدائی کلاسز سے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو فوکس کر کے تعلیم وتربیت کی جائے تو مستقبل میں پاکستان کے پاس نہ صرف بہترین آئی ٹی ماہرین کی ایک بڑی کھیپ تیار ہو سکتی ہے بلکہ بہت سی خواتین گھر بیٹھے ہی باعزت روزگار کما کر ملک کی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے گھرانوں کا معیار زندگی بہتر بنانے میں بھی اہم کر دار ادا کر سکیں گی۔ اس طرح نہ صرف اس انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے سافٹ امیج میں بھی بہتری آئے گی۔خواتین پر مبنی ٹیک پروگرامز کو ترجیحی بنیادوں پر مالی وسائل فراہم کئے جائیں تاکہ آئی ٹی سیکٹر میں خواتین ورک فورس کی نمائندگی میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کمپنیوں کو صنفی شمولیت کی پالیسیوں، محفوظ نقل و حمل، ڈے کیئر اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع بہتر بنا کر اس شعبے میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان ایک جدید ترین آئی ٹی اور ڈیجیٹل خدمات کی فراہمی کے مرکز کے طور پر اپنی ساکھ کو مستحکم کر رہا ہے۔ اس لئے اگر حکومت اس شعبے کے بنیادی ڈھانچے، تعلیم، اور پالیسی سپورٹ پر توجہ مرکوز کرے تو اس شعبے کی عالمی مسابقت کی صلاحیت اور استعداد کو بہتر بنا کر پاکستان کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کی جانب اہم پیشرفت کی جا سکتی ہے۔گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں آئی ٹی کی ٹریننگ کے لیے کوششیں قابل تحسین ہیں اس صمن میں تیزی سے پیشرفت کی ضرورت ہے ۔
