نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحق ڈار نے مسلم امہ پر زور دیا ہے کہ فلسطینی عوام کی غزہ یا مغربی کنارے سے زبردستی نقل مکانی کو نسلی تعصب کی بنیاد پر بے دخلی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرم قرار دیا جائے۔ اسحق ڈار نے جدہ، سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کی جانب سے فوری سفارشات بھی پیش کیں جن میں جنگ بندی معاہدے پر تین مراحل میں مکمل اور فوری عمل درآمد شامل ہے، دشمنی کا مستقل خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، غیر محدود انسانی امداد تک رسائی اور تعمیر نو کا ایک جامع منصوبہ بھی پاکستان کی تجاویز کا حصہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2735(2024) پر عمل درآمد کے مطالبے کی مکمل حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت ختم ہونی چاہیے، جنین، تلکرم، نور الشمس اور الفارع میں پناہ گزین کیمپوں کی تباہی نے غزہ کی تباہی کی عکاسی کرتے ہیں۔جبری نقل مکانی، غیر قانونی قبضے اور آباد کاروں پر تشدد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تبدیل کیا جانا چاہیے اور الحر م الشریف مسجد اقصی کی قانونی اور تاریخی حیثیت کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ فلسطینیوں کو وسیع اور بلا روک ٹوک انسانی امداد ملنی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کو بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 (5) کے تحت اسرائیل کا قانونی فرض تھا کہ وہ اس کام میں آسانی پیدا کرے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد اس ذمہ داری کو تقویت دیتی اور انسانی امداد میں رکاوٹ ڈالنے کی تمام کوششوں کی مذمت کرتی ہے۔امدادی اداروں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ایک غیر اخلاقی عمل اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، انسانی امداد کو کبھی بھی ہتھیار نہیں بنانا چاہیے، جبکہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو سرخ لکیر کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ او آئی سی کو اجتماعی طور پر فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے منتقل کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت اور روکنا چاہیے، چاہے وہ براہ راست جبر کے ذریعے ہو یا انسانی امداد اور تعمیر نو کی آڑ میں ہو، اس طرح کا کوئی بھی اقدام نسلی تعصب کی بنیاد پر بے گھر کرنے کا عمل اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔دو ریاستی حل کی جانب ایک قابل اعتماد اور ناقابل واپسی سیاسی عمل کی بحالی اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، یہی پائیدار امن کا واحد قابل عمل حل ہے۔او آئی سی کو فلسطین کی ریاست کو اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر تسلیم کرانے کے لیے بھی اپنے اجتماعی اثر و رسوخ کو متحرک کرنا چاہیے۔فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں جون میں ہونے والی آئندہ کانفرنس کے حوالے سے اسحق ڈار نے کہا کہ یہ کانفرنس مسئلہ فلسطین کے پرامن اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے ایک اہم موقع ہوگا۔ او آئی سی کو غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کو اس کے جرائم کا جوابدہ ٹھہرانے کے لیے فیصلہ کن سفارتی اور اقتصادی اقدامات کرنے چاہئیں، اس میں تجارتی پابندیاں، مسلسل سفارتی دبا اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی شامل ہونی چاہیے۔پاکستان نے مصر کی طرف سے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ منصوبہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک متوازن، عملی اور موثر طریقہ کار پیش کرتا ہے، یہ حقیقت کہ فلسطینیوں کو اس منصوبے کو حتمی شکل دینے میں شامل کیا گیا ہے اور ان کے مستقبل کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے کا تصور کیا گیا ہے، اس سے اس منصوبے کو مزید تقویت ملتی ہے۔او آئی سی وہ پورے خطے میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ایک ناگزیر پیشگی شرط کے طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سعودی اقدام کی توثیق کرے۔ پاکستان او آئی سی کو اپنا بنیادی حلقہ سمجھتا ہے اور فلسطین کا مسئلہ پاکستان اور مسلم دنیا دونوں کے لیے اولین ترجیح ہے۔ اسرائیل کو مغربی کنارے کے الحاق سے روکنے اور فلسطین کو اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر تسلیم کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی کارروائی پر زور دیا گیا۔ ہمیں اسرائیلی انتہا پسندوں کے مغربی کنارے کو ضم کرنے کے منصوبوں کی مخالفت میں اپنی مشترکہ پوزیشن لینی چاہیے، ہمیں دو ریاستی حل حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کرنے چاہئیں۔وزیر خارجہ نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ انسانی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور اس کے اگلے مراحل کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھنے پر زور دیا۔ ہمیں اسرائیل اور اس کے حامیوں کو غزہ میں جنگ کے دوبارہ آغاز سے روکنا چاہیے اور یو این آر ڈبلیو اے کے ضروری کردار کو برقرار رکھتے ہوئے غزہ کے لوگوں کے لیے مناسب انسانی امداد کو یقینی بنانا چاہیے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبوں کے خلاف بھی خبردار کیا۔مغربی کنارے میں اسرائیلی تشدد کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی جائے جہاں بستیوں کی تعمیر اور جبری نقل مکانی جاری ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل کے تشدد اور نقل مکانی کی مہم کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔لبنان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے فرانس اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا، لیکن جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔جنوبی لبنان میں اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائیاں معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور ان سے تنازع دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے لبنانی سرزمین سے اسرائیل کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا۔فلسطین اور کشمیر کے درمیان مشابہت قائم کرتے ہوئے اسحق ڈار نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اجاگر کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہا کہ خودارادیت کے اصول اور طاقت کے استعمال یا دھمکی کے ذریعے علاقے کا عدم حصول عالمی نظام کی بحالی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوجی موجودگی، آبادی کی تبدیلیوں اور کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سنگین ہے اور نو لاکھ بھارتی قابض افواج کے ذریعہ یہاں کے عوام پر مسلسل ظلم و ستم جاری ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کی طرح، بھارت کشمیریوں کو وحشیانہ طریقے سے دبانے اور مقبوضہ کشمیر کو مسلم اکثریت سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کے لیے بھارت بھر سے آباد کاروں کو لانا چاہتا ہے۔ افغان سرزمین سے سرگرم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سرحد پار حملوں پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے خدشات کو اجاگر کیا گیا کہ ہمیں افغانستان میں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں سے روزانہ حملوں کا سامنا ہے، پاکستان خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ انہیں ان کے ملک واپس بھیجے۔ساتھ ہی اسحق ڈار نے افغان عوام کی حمایت، انسانی امداد کی سہولت فراہم کرنے اور علاقائی اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کو عالمی نظام میں ضم کرنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے سمیت جامع حکمت عملی اپنائے۔سعودی عرب نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے کسی بھی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلقات نہیں کریں گے۔سعودی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب، فلسطینی ریاست کے قیام کی غیر متزلزل حمایت کرتا ہے اور وہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتا ہے۔فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں ہوں گے۔ مسئلہ فلسطین مملکت سعودی عرب کے لیے سرفہرست ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق سعودی عرب کا موقف مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں سے متعلق سعودی عرب کے موقف پر گفت و شنید نہیں ہوسکتی۔سعودی عرب خود مختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، کے قیام کے لیے انتھک کوششیں جاری رکھے گا اور اس کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے۔ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی، چاہے وہ اسرائیلی آبادکاری کی پالیسیوں کے ذریعے ہو، فلسطینی علاقوں کے الحاق کے ذریعے، یا فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کی کوششوں کے ذریعے ہو، مملکت سعودی عرب اس کو واضح طور پر مسترد کرتی ہے جس کا اعلان پہلے بھی کر چکی ہے۔یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ایک نیوز کانفرنس کے بعد سامنے آیا تھا جس میں امریکی رہنما نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں منتقل کیے جانے کے بعد امریکا غزہ پر قبضہ کرکے اور علاقے کو دوبارہ تعمیر کرے گا۔
