وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے ہیلتھ اور بارکونسل کیلئے انڈومنٹ فنڈز کے حوالے سے منعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے گلگت بلتستان کے مستحق مریضوں کا وزیر اعلی انڈومنٹ فنڈ سے مفت علاج کو متاثر نہیں ہونے دینگے۔ انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے سے جن مریضوں کا علاج چل رہا ہے ان کا مکمل علاج کرایا جائے گا۔ وزیر اعلی نے ا س موقع پر صوبائی سیکرٹری خزانہ کو ہدایت کی کہ جون 2025 تک ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے علاج کروانے والے مریضوں کیلئے درکار فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کیلئے صوبائی سیکرٹری صحت اور پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کی مشاورت سے فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنائیں۔ جون 2025 کے بعد وزیر اعلی ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کو وسعت دینے کے حوالے سے جامع پالیسی بنائی جائے گی اور فنڈز میں اضافہ کیا جائے گا۔ وزیر اعلی نے اس موقع پر صوبائی سیکرٹری قانون اور سیکرٹری خزانہ کو بھی ہدایت کی کہ گلگت بلتستان بار کونسل کیلئے انڈومنٹ فنڈ کے قیام اور صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 30 لاکھ گرانٹ کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ اس موقع پر وزیر اعلی کو صوبائی سیکرٹری صحت نے ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے مریضوں کے علاج و معالجے کے حوالے سے درپیش مشکلات پر تفصیلی بریفنگ دی۔چند روز قبل گورنر سید مہدی شاہ نے کہا تھا کہ ہیلتھ انڈوومنٹ فنڈ کی بحالی کیلئے وزیراعلی سے بات کریں گے کوئی شک نہیں کہ ہیلتھ انڈوومنٹ فنڈ کی بندش سے مریضوں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے وزیراعلی سے مل کر فنڈ کو بحال کرائیں گے اس سلسلے میں مجھ سے جو ہوسکتا ہے کروں گا مریضوں اور ان کے لواحقین سے گزارش ہے کہ وہ میرے حق میں دعا کریں انڈوومنٹ فنڈ کی بندش کی شکایات موصول ہوچکی ہیں ان شا اللہ وزیراعلی سے ملکر مسئلے کا حل نکالوں گا ہیلتھ انڈوومنٹ فنڈ سے سینکڑوں مریضوں کو پریشانی کا سامنا ہے اس حوالے سے اپیلیں آرہی ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ فنڈ کی فراہمی کیوں بند ہوئی ہے مریضوں کو مشکلات پیش آنے نہیں دیں گے۔ صحت اللہ پاک کی ایک انمول نعمت ہے۔صحت کی سہولیات کی فراہمی ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔ایک صحت مندانسان ہی صحت مندزندگی گزارسکتاہے۔عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے دعوے نہیں حقیقی معنوں میں یقینی بناناہوگا۔عوام کو صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنے کیلئے ہمیں اپنے انفراسٹرکچرکوبہترکرناہوگا۔ہمیں صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھنے کیلئے صحت مندلائف سٹائل اپناناہوگا۔ہماری نوجوان نسل میں دل کی بیماریاں،کینسراور دوسری مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ حکومت ہر سرکاری میڈیکل یونیورسٹی کے ہرطالب علم کی تعلیم پر ایک کروڑروپے سے زائد کی رقم خرچ کررہی ہے۔بیماریوں سے لڑنے کی بجائے بیماریوں کی روک تھام پرکام کرنازیادہ اہم ہے۔ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیراور عوام کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کیلئے تمام تروسائل بروئے کارلانے چاہیں ۔ڈبلیو ایچ اوکی جاری کردہ رپورٹ وبا کے بعد صحت پر عالمگیر اخراجات میں بتایا گیا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے اپنے شہریوں پر کیے جانے والے اوسط فی کس اخراجات میں کمی آئی ہے۔ وبا کے دوران ان میں بڑے پیمانے پر اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ حکومتیں طبی تحفظ کے لیے مالی وسائل خرچ کرنے کو اپنی ترجیح بنائیں اور تمام لوگوں کو صحت کی ضروری خدمات تک یقینی رسائی فراہم کرنے کے اقدامات کریں۔رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ساڑھے چار ارب لوگوں کو بنیادی طبی خدمات تک رسائی نہیں ہے اور دو ارب لوگوں کو طبی اخراجات کے ضمن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کی بہت بڑی آبادی کو یہ انتخاب درپیش رہتا ہے کہ وہ ضروری علاج معالجے پر اخراجات کرے یا خوراک اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات کو ترجیح دے۔یہ مسائل کمزور لوگوں بشمول خواتین، بچوں اور طبی رسائی میں سنگین مشکلات کا سامنا کرنے والے بالغوں کو غیرمتناسب طور سے متاثر کرتے ہیں۔اگرچہ دنیا بھر میں طبی خدمات تک رسائی بہتر ہو رہی ہے لیکن یہ خدمات اس قدر مہنگی ہیں کہ ان سے کام لینے والے لوگ مالی مشکلات اور غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔تمام انسانوں کو کسی طرح کی مالی مشکلات کا سامنا کیے بغیر صحت کی سہولیات تک مساوی رسائی ہونی چاہیے۔حکومتوں کی جانب سے صحت پر سرمایہ کاری میں کمی کے طویل مدتی نتائج ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے حسب ضرورت مالی وسائل خرچ نہ کیے جانے اور ارزاں نرخوں پر طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث لوگوں کو معمول کی طبی ضروریات پوری کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے جبکہ بحرانی حالات میں ان کی مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے۔کووڈ کی وبا نے تمام لوگوں کی طبی سہولیات تک رسائی اور طبی تحفط کے مابین ربط کو واضح کر دیا ہے اور اس سے ایسے مستحکم نظام ہائے صحت کی ضرورت سامنے آئی ہے جن سے ہر جگہ ہر فرد کی صحت کو تحفط مل سکے۔صحت پر سرمایہ کاری محض اخلاقی لازمہ نہیں بلکہ اہم معاشی ضرورت بھی ہے۔ ارزاں طبی نگہداشت تک رسائی سے افرادی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور سماجی ہم آہنگی تقویت پاتی ہے۔اس سے برعکس جب صحت عامہ پر اخراجات سے لوگ غربت کا شکار ہونے لگیں تو معیشت پر بھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔صحت حکومت کی ذمہ داری ہے ۔طبی حقوق کے لیے کام کرنے والے لوگ اور اداروں نے عالمی رہنمائوں پر زور دیا ہے کہ وہ غریب ترین اور کمزور لوگوں کو بڑھتے ہوئے طبی اخراجات سے تحفظ دیں اور یقینی بنائیں کہ کسی کو صحت اور بنیادی ضروریات میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔وزیراعظم شہبازشریف کاکہنا ہے کہ صحت عامہ کی سہولیات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے،صحت سہولیات کی رسائی کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، ہر صوبے میں میڈیکل سٹی کا قیام اولین ترجیح ہے۔ حکومت پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ تمام شہریوں تک صحت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی، صحت عامہ کی سہولیات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہماری توجہ پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری ہیلتھ کیئر، طبی نگہداشت ، طبی تعلیم اور گورننس کو بہتر بنانے پر رہے گی ہم عام آدمی تک صحت کی سہولیات کی رسائی کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ہم موبائل ہیلتھ کلینک شروع کرنے اور حفاظتی ٹیکوں کے نظام کو مزید متحرک کرنے اور ذہنی صحت کے حوالے سے خدمات کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں کی مدد اور حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہر صوبے میں میڈیکل سٹی کا قیام اور آپریشنلائزیشن، کینسر کیئر ہسپتال کا قیام اور ہر صوبے میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کی سہولیات کا قیام ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم اپنے شہریوں کے لیے یونیورسل ہیلتھ کوریج اور یونیورسل ہیلتھ انشورنس کے لیے پرعزم ہیں اور خاص کر کم آمدن افراد کے لیے صحت کی سہولیات کی مفت فراہمی کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔ میں صحت کے پیشہ ور افراد، پیرا میڈیکل اسٹاف، نرسوں اور دیگر ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو سراہتا ہوں جو قوم کو صحت کی خدمات فراہم کرنے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر پاکستانی کو معیاری صحت کی خدمات تک رسائی حاصل ہو۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر شخص کو بیماری یا معذوری کے باعث طبی معائنے اور تحفظ کا حق حاصل ہے۔ یونیورسل ہیلتھ کوریج نے تمام افراد کو صحت کی مساوی سہولیات سے مستفید ہونے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔پہلی گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق چارسو ملین افراد کو بنیادی صحت کی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ اس لئے یونیورسل ہیلتھ کوریج نے تین بنیادی مقاصد اجاگر کئے ہیں۔ پہلے طبی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جائے جو عام افراد کو بھی فراہم ہوں۔ دوسرے فراہم کی گئی سہولیات کے معیار کو مزید اچھے سے اچھا کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں جبکہ لوگوں کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لئے اقدام کئے جائیں۔ اس کی ضرورت اس لئے پیدا ہوئی جب صحت سے متعلق کوریج کو دن بدن روکا گیا اور پوری دنیا میں حکومت کی طرف سے دیئے جانے والے صحت کے لئے فنڈ کو نظرانداز کیا گیا۔ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا اور دفاتر کی نجکاری کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سہولیات کی ترسیل میں فرق پیدا ہو گیا۔ صرف اور صرف امیر طبقہ کے لوگ یا متوسط طبقہ کے افراد اس سے فائدہ اٹھانے لگے اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نظام صحت دوہرے راستے پر گامزن ہو گیا۔ ایک نظام فنڈ سے چلنے والا اور دوسرا نظام پرائیویٹ سیکٹر کا۔ ذاتی مفادات کو فنڈ سسٹم پر فوقیت دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معیار صحت روز بروز روبہ تنزل ہو گیا۔غریب طبقہ کسی وجہ سے پرائیویٹ علاج کی طرف آمادہ ہو بھی تو علاج کے اخراجات اس کی قوت سے باہر ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کو گورنمنٹ ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے کہ وہ غریب اور مستحق مریضوں سے منافع نہ لیں بلکہ مفت طبی سہولیات فراہم کرے۔ بجٹ کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں قومی سطح پر ہیلتھ انشورنس سکیم مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور ان سکیموں کو نان پرافٹ بنیادوں پر چلنا چاہیے۔صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے لوگوں کو تعلیم دی جائے اور گھریلو صفائی ستھرائی کے حوالے سے شعور فراہم کرنے کے لئے آگاہی مہم چلائی جائے۔ ایسا سسٹم بنایا جائے کہ وہ لوگوں کی بیماریوں تک پہنچے۔ اس ضمن میں سماجی مسائل کو صرف اجاگر کرنے سے کام نہیں بن سکتا بلکہ اس کے لئے پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد بھی لازمی امر ہے۔
