دہشت گری کی ہولناک لہر

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ بنوں میں ہونے والے گھنائونے حملے کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو کٹہرے میں لایا جائے گا جب کہ مسلح افواج پاکستان کے عوام کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چار مارچ کو فتنہ الخوارج کے دہشتگرد حملے کے بعد بنوں کا دورہ کیا، جہاں پاک فوج کے سربراہ کو سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کنٹونمنٹ پر دہشت گرد حملے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا، آرمی چیف کو جاری آپریشنز اور علاقے کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف نے سی ایم ایچ بنوں میں زخمی اہلکاروں کی عیادت کی اور ان کی مستقل مزاجی اور غیر متزلزل عزم کو سراہا، پاک فوج کے سربراہ نے زخمی اہلکاروں کے بلند حوصلے اور عزم کی تعریف کی۔اس موقع پر، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاک فوج ریاست کی سلامتی، استحکام یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرتی رہے گی اور ملکی استحکام کے لیے دہشت گردی کے خلاف دفاع کا فریفہ ادا کرتی رہے گی جب کہ کسی کو بھی ملکی امن اور استحکام میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔جنرل عاصم منیر نے مقامی برادری کے کلیدی کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قومی اتحاد ناگزیر ہے، انہوں نے یقین دلایا کہ مسلح افواج پاکستان کے عوام کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔آرمی چیف نے دہشت گردی کے اس گھنائونے اور بزدلانہ واقعے میں اپنی جانیں گنوانے والے بے گناہ شہریوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔انہوں نے یقین دلایا کہ اگرچہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو بہادر فوجیوں نے فوری طور پر ہلاک کردیا تاہم اس بزدلانہ حملے کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو بھی جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔پاک فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بچوں، خواتین اور بزرگوں سمیت شہریوں کو وحشیانہ طور پر نشانہ بنانے سے خوارج کے اسلام دشمن ہونے کے حقیقی عزائم بے نقاب ہو گئے ہیں۔آرمی چیف نے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کی جرات مندانہ کارروائیوں کو سراہتے ہوئے حملہ آوروں کو کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے میں فوری اور فیصلہ کن رد عمل کی تعریف کی۔ان کا کہنا تھا کہ دشمن عناصر کی ایما پر کارروائی کرنے والے خوارج اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گی۔ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ فتنہ الخوارج سمیت دہشت گرد گروہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔جنرل عاصم منیر نے کہا کہ حالیہ دہشت گرد حملوں میں غیر ملکی ہتھیاروں کا استعمال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افغانستان ایسے عناصر کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز نے فتن الخوارج کے حملہ آوروں کی بنوں چھانی میں دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے تمام 16 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں سے جھڑپ کے دوران پانچ جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جب کہ حملے میں تیرہ معصوم شہری شہید اور بتیس زخمی بھی ہوئے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خطرہ ایک روزمرہ کا چیلنج ہے جو ہمارے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ہمارے خطے کی سلامتی اور استحکام کو نشانہ بناتا ہے۔یہ ایک عالمی رجحان ہے جو سرحدوں، ثقافتوں اور مذاہب سے بالاتر ہے اور اس سے لڑنے کے لئے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ صرف فوجی نوعیت کی نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی ایک پیچیدہ اور ہمہ جہت مصیبت ہے جس کے پھیلائو سے نمٹنے کے لئے خصوصی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ لہذا انتہا پسندی اور دہشت گردی کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں بنیاد پرستی کی جڑوں سے نمٹنے سے لے کر دہشت گرد بھرتیوں سے نمٹنے اور معاشرے میں افراد کی فعال شرکت کی حوصلہ افزائی تک ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کو مدنظر رکھنا چاہیے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہہ چکے ہیں  کہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے گا، اس ناسور کا خاتمہ کیا جائے گا، ایسی قبر کھو دیں گے کہ دوبارہ اس ناسور کا نکلنا ممکن نہیں ہوگا، ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس ناسور کو دفن نہیں کر دیتے۔اکوڑہ خٹک میں خودکش دھماکے میں مولانا حامد الحق کی شہادت اور دیگر پاکستانیوں کی شہادت المناک واقعہ ہے، یہ قدیم جامعہ ہے جہاں اسلامی و عصری تعلیم فراہم کی جاتی ہے، یہ سچے پاکستانی ہیں، اس واقعے پر قوم افسردہ ہے، اس دھماکے کی مذمت کرتے ہیں، امید ہے خیبرپختونخوا حکومت ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے گی۔2018  میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا تھا، اس امن کے لیے اسّی ہزار پاکستانیوں نے جانوں کی قربانیاں دیں، امن لانے کے لیے افواج پاکستان کے افسران و جوانوں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا، تاہم ایک بار پھر دہشت گردی سر اٹھا چکی ہے، اس کی وجوہات ہم سب جانتے ہیں لیکن اس وقت میں اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور عمران خان نے طالبان کو پاکستان میں بسانے کا فیصلہ کیا، یہ تینوں کا مشترکہ فیصلہ تھا، اسمبلی کی کارروائی میں اسے اچھا اقدام قرار دیا گیا تھا، فیض حمید تو گرفتار ہیں لیکن قمر باجوہ تو باہر ہیں ان سے پوچھا جائے۔ ہم نے 80 اور 90 کی دہائی میں کوئی جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑی، یہ اس وقت کے حکمرانوں کے مفادات کی جنگیں تھیں۔ امریکا نے عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں دہشت گردی کے خلاف نہیں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جنگیں لڑیں، یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی، ان تمام جنگوں میں امریکا کبھی کسی کے ساتھ تھا اور کبھی کسی کے ساتھ تھا۔ ہم خود دہشت گردی کے سب سے بڑے شکار ہیں، اگر ہم نے دہشت گرد کو امریکا کے حوالے کیا ہے، اگر دنیا اور امریکا اس کی تعریف کر رہے ہیں تو یہ ایک مشترکہ جنگ ہے، اس میں سب کو حصہ ڈالنا چاہیے، پاکستان فرنٹ لائن پر دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور اس کا شکار بھی ہے۔پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کی وجہ امریکا کی جانب سے افغانستان میں چھوڑا گیا ہائی ٹیک اسلحہ ہے، امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں وہاں اسلحہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، اگر امریکی اپنی غلطی کا احساس کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلحہ واپس منگوا رہے ہیں تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔ خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ملبہ خود بھی اٹھائے، پاراچنار کے حالات سب کے سامنے ہیں وہ تو ہمارے زیرانتظام نہیں۔جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان میں مشترکہ مفادات کا سمجھوتا تھا، یہ لوگ ان تینوں نے ہی لاکر بسائے ہیں۔دریں اثناء پی ٹی آئی کے رہنما جنید اکبر نے دعوی کیا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف کارروائی کی ہمت ہی نہیں ہے، کیوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی وجہ سے ہی پی ٹی آئی کی حکومت گری تھی۔جنید اکبر کا کہنا تھا کہ قمرباجوہ یا فیض حمید نے کچھ غلط کیا ہے تو خواجہ آصف اس پر کارروائی کریں، ہم انہیں سپورٹ کریں گے، تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت میں کارروائی کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔ملک میں گزشتہ دو برس کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پولیس اہلکاروں سمیت سیکیورٹی اداروں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جب کہ کچھ حملوں میں داعش کی افغانستان اور پاکستان شاخ داعش خراسان کے ساتھ ساتھ حافظ گل بہادر کا شدت پسند گروہ بھی ملوث ہے۔ تین برس قبل تک ٹی ٹی پی اپنے اندرونی اختلافات اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے کافی کمزور ہوگئی تھی اور وہ نئے شدت پسند بھرتی کرنے میں کافی حد تک ناکام رہی تھی، لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی ہے۔شدت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ریموٹ کنٹرول دھماکے، آئی ای ڈیز، خود کش جیکٹس، کلاشنکوف سے فائرنگ اور بعض واقعات میں راکٹس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، مگر خیبر پختونخوا کے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے رات کے وقت پولیس اہلکاروں پر حملوں میں جدید اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے جن میں تھرمل امیجنگ اسکوپز کے ساتھ ساتھ نائٹ ویژن کے آلات شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کے ہاتھوں یہ جدید ہتھیار افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد لگے ہیں۔ صوبے کے کچھ جنوبی اضلاع میں پولیس کو بھی تھرمل اسکوپز جیسا جدید اسلحہ فراہم کردیا گیا ہے مگر یہ تعداد کافی کم ہے۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے دہشت گردی کے ناسور جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے تاکہ امن کا قیام ممکن ہو سکے۔