ٹیکس چوری اور سزائیں

آئی ایم ایف کا وفد جائزے کے لیے پاکستان پہنچ گیا اور دونوں کے مابین جائزہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔آئی ایم ایف نے رئیل سٹیٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے اور پاکستان نے رئیل سٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو فعال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔پراپرٹی کی غلط مالیت ظاہر کرنے پر قید اور جرمانے کی سزائیں ہوں گی' رجسٹریشن نہ کرانے والے ایجنٹس پر پانچ لاکھ تک جرمانہ عائد ہو سکے گا۔  رئیل سٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو تین سال قید کی سزا کا اختیار مل سکتا ہے۔چند روز قبل محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے پراپرٹی ٹیکس نظام میں تبدیلی کے بعد ٹیکس چوری کی روک تھام کیلئے بھی اہم فیصلہ کیا تھا۔ نئے نظام کے تحت جہاں اب ٹیکس کی وصولی اینوئل کے بجائے کیپٹل ویلیو پر کی جانی ہے وہاں شہریوں کو ان کی پراپرٹیز کی سیلف اسیسمنٹ کی اجازت ہوگی۔ سیلف اسیسمنٹ میں گھپلوں کے خدشہ کو دیکھتے ہوئے محکمہ ایکسائز نے پراپرٹی ٹیکس میں چوری پکڑنے والوں کو خصوصی انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترمیمی قانون کے مطابق چوری شدہ ٹیکس کا بیس فیصد نشان دہی کرنے والے ملازمین کو دیا جائے گا۔ محکمہ ایکسائز نے ترمیمی قانون نافذ کیا ہے۔وفاقی حکومت نے ٹیکس فراڈ اور ٹیکس چوروں کو بھاری جرمانے اور دس سال تک قید کی سزائیں دینے کے قانون متعارف کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس فراڈ کرنے والوں اور ٹیکس چوروں پر پچیس ہزار روپے یا چوری شدہ ٹیکس کی مالیت کے برابر سو فیصد جرمانہ عائد کرنے اور اس کے لیے فنانس بل کے ذریعے سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کی تجویز دی ۔تجویز میں بتایا گیا جو لوگ ٹیکس چوری یا ٹیکس فراڈ میں ملوث ہونگے ان پر پچیس ہزار روپے یا چوری کردہ ٹیکس کی رقم کے سو فیصد کے برابر میں سے جو زیادہ رقم بنے گی وہ جرمانہ عائد ہوگا اور انکے خلاف اسپیشل جج پراسیکیوشن کرے گا۔حکومت کی تجویز ہے کہ پچاس کروڑ روپے مالیت تک کی ٹیکس چوری یا ٹیکس فراڈ کا جرم ثابت ہونے پر ملزم کو پانچ سال تک قید کی سزا دی جائے گی اور اگر ٹیکس فراڈ یا ٹیکس چوری کی مالیت ایک ارب یا پھر اس سے زائد ہوگی تو اس صورت میں دس سال قید کی سزا دی جاسکے گی۔حکومت چاہتی ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی چوری روکی جا سکے ۔ حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکس چوری روکنے اور ڈاکیومنٹیشن کے فروغ کیلئے ود ہولڈنگ ایجنٹس کی جانب سے اشیا و خدمات کے سپلائرز سے کٹوتی کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس براہ راست سرکاری خزانے میں جمع کروانے کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس کیلئے ایف بی آر نے سویپ پیمنٹ رسید سسٹم تیار کرلیا ہے۔اس نظام کے لاگو کرنے سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں ٹیکس وصولیاں اور ڈاکیومنٹیشن بھی بڑھے گی۔ سپلائرز کی جانب سے کی جانیوالی سپلائی اور وینڈرز کی خریدا ر ی اور سیل کی تفصیلات بھی ایف بی آر کو معلوم ہو سکے گی۔مجوزہ رولز کے مطابق جو سویپ ایجنٹس خلاف ورزی کے مرتکب پائے جائیں گے انکے خلاف انکم ٹیکس آرڈیننس2001کے تحت جرمانوں و سزائوں کیلئے کارروائی کی جائیگی۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کہہ چکے ہیں کہ ملک میں 3400  ارب روپے کی ٹیکس چوری اور فراڈ ہے سیلز ٹیکس چوری کے خلاف بڑا کریک ڈائون کیا جائے گا، سیلز ٹیکس چوری میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے گا۔ کمپنیاں اربوں روپے کے ٹیکس فراڈ میں ملوث ہیں۔ ٹیکس جمع کرانے کی بڑی گنجائش موجود ہے' سیمنٹ سیکٹر سے اٹھارہ ارب روپے کا اضافی ٹیکس جمع ہوسکتا ہے، بیٹری سیکٹر سے گیارہ ارب روپے کا اضافی ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے اسی طرح بیوریجز سیکٹر میں گیارہ ارب روپے کا ٹیکس شارٹ فال ہے۔ تین لاکھ مینوفیکچررز میں سے صرف چودہ فیصد رجسٹرڈ ہیں، ٹیکسٹائل ویونگ میں 18 ارب روپے کا ٹیکس شارٹ فال ہے، آئرن اور اسٹیل سیکٹر میں اضافی ان پٹ ٹیکس کلیم کی مد میں 29ارب روپے کی ٹیکس چوری ہورہی ہے، ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ سسٹم کے ذریعے بہت بڑا فراڈ ہورہا ہے۔ ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور ایک ارب روپے تک ٹیکس چوری پر پانچ سال اور اس سے زائد کی ٹیکس چوری پر دس سال تک قید ہوسکتی ہے۔کمپنیوں نے اپنی سیل میں بڑے پیمانے پر ٹیکس فراڈ کیا ہے، پیش کیے گئے ٹیکس گوشوارے مکمل فراڈ اور جھوٹ ہیں، ہم ابھی ان کمپنیوں کا نام ظاہر نہیں کررہے لیکن ٹیکس چوری میں ملوث ان لوگوں کو جب گرفتار کریں گے تو تمام تر شواہد کے تحت کریں گے اور نام بھی ظاہر کریں گے۔ کمپنیوں کے سی ایف او ان ٹیکس چوری کے بینفشری نہیں ہیں، سی ایف او دستخط کرتے ہیں یہ کریمنل اقدام ہے اگر غلط سیلز ٹیکس ریٹرنز ہیں تو سیٹھ کے کہنے پر سی ایف او دستخط نہ کریں،کمپنیوں کے سی ایف او سیلز ٹیکس ریٹرنز پر دستخط کرنے سے پہلے وکیل اور فیملی سے مشورہ ضرور کرلیں۔ یہ ہمارے سسٹم کا ڈیٹا ہے لیکن ہم نے اپنے اسیسنگ افسر کو جو سپورٹ چاہیے تھی وہ نہیں دے سکے، ہم اسیسنگ افسران کو سپورٹ بھی دیں گے اور بھرپور کارروائی بھی کریں گے۔سیلز ٹیکس چوری میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے گا، بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ایف اوز سے گزارش ہے کہ غلط سیلز ٹیکس ان پٹ داخل نہ کریں، اس ملک میں سیلز ٹیکس ان پٹ ایڈجسٹمنٹ سے بڑا کوئی فراڈ نہیں ہے۔ایسے پنتالیس لاکھ افراد کی نشاندہی ہوگئی ہے جو استعداد کے باوجود ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں۔ ٹیکس دینے کی استعداد رکھنے والے نان فائلر کو فوری ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ جعلی سیلز ٹیکس ریفنڈز کرنے والی چار ہزار کمپنیوں کے ریفنڈز روکے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکس چوری میں ملوث افسران و اہلکاروں کو سزا دی جائے گی۔ عوام کے پیسوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ بروقت ٹیکس دینے والوں کی پذیرائی کی جائے گی۔ اربوں روپے کی ٹیکس چوری روکنے کے لئے جدید ٹیکسیشن نظام اولین ترجیح ہے۔ ٹیکس کے حوالے سے عالمی سطح پر رائج بہترین نظام پاکستان میں رائج کیا جائے گا۔  وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ان کے سامنے چیلنجز بہت بڑے ہیں، جمود کا شکار معیشت ، امن و امان کی صورتحال،  انتخابات کے انعقاد کے بعد ایک طرح کی سیاسی بے چینی کے  اس ماحول میں کسی بھی حکومت کے لیے پالیسیوں پر عملدرآمد آسان کام نہیں ہوگا۔ بے روزگاری کے مسائل الگ سے موجود ہیں،  صورتحال  کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے  کہ رمضان المبارک کے دوران مہنگائی کی صورتحال دگرگوں ہو چکی ہے،  افواہ سازی کا عمل  بنا روک ٹوک جاری ہے  جس نے لوگوں کی نفسیات پر برا اثر مرتب کیا ہے ،اس ماحول کے اندر حکومتوں کو اب  فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنا ہوگا،تساہل کی گنجائش باقی نہیں رہی،مسائل اور ایشوز کے حل کی جانب  کام کرنا پڑے گا  اکستان کی سرحدیں دہشت گردی کے خلاف ریڈلائن ہیں۔خطے میں امن کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، دہشتگردی کے خاتمے کے لیے قوم نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کی ضرورت ہے کیونکہ قرضوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں، معیشت کو پائوں پر کھڑا کر کے ملک کو قرضوں سے نجات دلانی ہے۔ کوشش کریں گے کم سے کم قرض لیں، پچھلی حکومت میں ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ اقتصادی کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے جاری پالیسی اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف کے اعلامیے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نگراں حکومت کے حالیہ مہینوں میں  اقدامات کو سراہا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان نے نئے قرض پروگرام کے حصول میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس کیلئے میڈیم ٹرم فنڈ سپورٹڈ پروگرام پر مذاکرات ہوںگے۔ملک کے مختلف شعبہ جات میں مجموعی طور پر پانچ ہزار آٹھ سوارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف بھی لمحہ فکریہ ہے، ایف بی آر نے ٹیکس چوری روکنے کیلئے جامع حکمت عملی متعارف کروادی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کا کہنا ہے کہ صرف سیلز ٹیکس کی مد میں سالانہ تقریبا دوہزار نو سو ارب روپے کی چوری ہورہی ہے، اسی طرح اسمگلنگ کے باعث پٹرولیم سیکٹر میں 996  ارب روپے کی ٹیکس چوری، ریٹیل سیکٹر میں 888  ارب اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں 562 ارب کا ریونیو گیپ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے بھی 498  ارب روپے کم ٹیکس وصولی کا انکشاف ہوا ہے اور برآمدی شعبے میں 342 ارب کی ٹیکس چوری جبکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بھی سالانہ ایک سو اڑتالیس ارب کم ٹیکس وصول ہورہا ہے جبکہ دیگر مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر 1600 ارب سے زائد کے ٹیکس گیپ کا تخمینہ ہے وفاق اور صوبوں کے اخراجات کا حجم جی ڈی پی کے 19فیصد کے مساوی، تاہم ٹیکس وصولی گیارہ اعشاریہ چار فیصد ہے۔حکومت بلا شبہ ان اہم سیاسی وانتظامی امور کو نمٹانے کی ذمہ دار ہے۔ ٹیکس چوری کے تدارک کے لیے اگرچہ ایف بی آر نے جامع حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ریونیو جنریشن پلان پر عمل درآمد تیز کیا جائے گا اور آٹومیشن کو فروغ دیا جائے گا۔ مگر اصل امتحان ہماری سیاسی قیادت کا ہے جو محض اپنے  اپنے  قابل قبول حل کے بجائے مشترکہ حکمت عملی کے تحت  انتظامی سطح پر  فیصلوں کی  بلا تفریق  قوت نافذہ بن کر عمل کرے ۔