:گلگت بلتستان اسکاٹس کے 16ویں بیچ کی شاندار پاسنگ آئوٹ پریڈ ہوئی، 436 جوانوں نے کامیابی کے ساتھ تربیت مکمل کی۔ تقریب میں چار پریڈ کنٹیجنٹس نے شرکت کی، جبکہ تربیتی مدت 14 ستمبر سے یکم مارچ تک جاری رہی۔تقریب کے مہمانِ خصوصی کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز، میجر جنرل سید امتیاز گیلانی تھے۔ انہوں نے پاس آئوٹ ہونے والے جوانوں کو مبارکباد دی اور ان کی محنت و لگن کو سراہا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ گلگت بلتستان اسکائوٹس، جی بی کے بہادر محافظ ہیں، جو ہر لمحہ مادرِ وطن کے دفاع کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تقریب کے آخر میں مہمانِ خصوصی نے نمایاں کارکردگی دکھانے والے جوانوں میں انعامات بھی تقسیم کیے۔ سیاچن بارڈر پر سکائوٹس غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، گلگت بلتستان میں امن و امان کے حوالے سی جی بی سکائوٹس کا کردار قابل تحسین ہے۔سی پیک منصوبوں ، شاہراہ قراقرم سمیت سیکیورٹی پر جی بی سکائوٹس نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا کی ہیں۔سید بہادر علی سالک کے مطابق پہلے تو روایتی دشمن مشرقی محاذ پرموجو د تھا پھر مغربی محاذ بھی کھلا اور امن بحال کرنے کے لئے فوج کو کتنی قربانی دینی پڑی ہے ان تمام حقائق کے باوجود ہماری بہادر افواج قوم اور وطن عزیز پاکستان کیلئے یہ سب کچھ برداشت کر رہی ہے ۔جب بھی ملک میں آفت اور قدرتی حادثات پیش آتے ہیں تو آئین کے آرٹیکل 245کا سہارا لے کر فوج کو امدادی کاروائیوں اور بحالی کے لئے بلانے میں دیر نہیں کی جاتی ہے۔ مردم شماری ہو، ووٹوں کا اندراج، الیکشن ہوں،سیلاب، زلزلے ہوں ، ٹریفک حادثات، وبا پھوٹ پڑے کہ دہشت گردی اور تو اور جہاں پولیس ناکام ہوتی ہے وہاں فوج کو امن و امان کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن جب سارے معاملات ٹھیک ہوتے ہیں تو ہماری سیاسی پارٹیوں کے باولے اپنے سر فروشوںاور غازیوں کے خلاف بولنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ عیاشی کی زندگی گزارنے والے یہ سیاست دان، نام نہاد عوامی نمائندے اسمبلیوں میں کیاکیا تماشا نہیںلگاتے ہیں۔ ایسے ایسے الزام لگاتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں فوج کے خلاف کرتے ہیں جیسے یہ فوج پاکستان کی نہیں بھارت کی فوج ہے نام نہاد جمہوریت کے چیمپین اور کچھ مٹھی بھر گمراہ عناصر یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ فوج کا کام سرحدیں سنبھالنے والے چوکیدار ہیں ملکی امورسے ان کا کوئی تعلق نہیں یہ تو ہمارا کام ہے کہ جس طرح ممکن ہو املاک کو لوٹ کے کھائیںاور آئی ایس آئی کو تو سیدھا سیدھا اپنا دشمن قرار دیتے ہیں یہ نام نہاد سیاست دان اور جمہوریت کے ٹھیکیدار تہہ خانوں سے باہر نہ نکلیں۔ ہماری مسلح افواج کے یہ آفیسر اور جوان جب فوج میں بھرتی کے لئے آتے ہیں تو وہ بہت سوچ سمجھ کر آتے ہیں کہ کل ان کو اپنی جانوں کی قربانی دینی ہے، والدین اور بہن بھائیوں کو بے سہارا بھی بننا ہے، معذور بننا ہے، بیویوں کی سہاگ اجڑنے کا بھی ان کو پتہ ہوتا ہے، بچوں کے بے سہارا ہونے کا بھی ان کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور تو اور ان کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ شہید ہونے کے بعد ان کی میت بھی دفنانے کے لئے ملے گی کہ نہیں۔ کیا اس سے بڑھ کرکوئی اور قربانی اسلام اور پاکستان کے لئے ہوسکتی ہے۔ عیاشی کی زندگی گزارنے والے سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں ائیر کنڈیشن کے سامنے بیٹھ کر قوم کو دھوکا دینے والوں کو ان غازیوں اور سر فروشوں کی تھوڑی بہت بھی قدر نہیں ہے۔ ان کے نزدیک شرم اور حیا کوئی نام کی چیز نہیں ہے ۔ اگر اس ملک میں کوئی ترقی اور خوشحالی ہوئی ہے تو فوجی حکومتوں کے ادوار میں ہوئی۔ پاکستان میں نوے فیصد ترقی فوجی ادوار میں ہوئی ۔ تمام ڈیم، بیراج اور ایٹمی بجلی گھر فوجی حکومتوں میں بنے۔ سیاسی حکومتوں نے تو نام نہاد جمہوریت کے نام اپنی اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیئے سارا بجٹ خرچ کیا۔اس اہم قومی ادارے کے سربراہ کی مدت ملازمت کو مذاق بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ کے کرم سے بھارتی بیانیے پر چلنے والے اور بھونکنے والے ناکام ہوگئے۔جب دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کرونا کی وبا پھیلی تو تمام اداروں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ پھر پاک فوج سے مدد کی بھیک مانگنا پڑی اور فوج ہسپتالوں ، سڑکوں، بازاروں، ریلوے سٹیشن، ائیر پورٹس، کیمپس اور قرنطنیہ مراکزپر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات انجام دے رہی ہے ۔ یہ گمراہ عناصر کھاتے پاکستان میں ہیں،رہتے پاکستان میں ہیں لیکن گن مودی اور راء کا گاتے ہیں۔ ہماری فوج اسلامی فوج ہے۔ اگر ان لوگوں کو پاکستان میں فوج اورسے آئی ایس آئی اتنی ہی نفرت ہے تو جائیں مودی اور راء کے پاس پاکستان میں ان کا کیا کام ہے۔دور حاضر میں یہ خاصی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔اس کی بدولت نہ صرف کسی بھی ملک کی دفاعی استعداد میں اضافہ کیا جاتا ہے بلکہ یہ اس روائتی نظرئیے کو بھی رد کرتی ہے جس کے پیش نظر ماضی میں افواج کے کردار کو جنگی یا جارحانہ مقاصد کے استعمال کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا۔ دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افواج کی ذمہ داریوں میں صرف جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ ملکی دفاع کو مضبوط بنانا بھی ہوتا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے افواج پاکستا ن کی اعلی قیادت کے بیرون ممالک کے دوروں پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں حالانکہ دیگراعلی عسکری قیادتوں سے ملاقاتیں کرنا دفاعی سفارت کاری ہی کا حصہ ہیں جنہیں متنازع بنا کر دفاعی اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھنا کسی حوالے سے بھی ٹھیک نہیں ہے۔ افواج پاکستان کی ملک و قوم اورعالمی قیام امن کے لیے پیش کی جانے والی خدمات اور قربانیوں کے پیش نظراسے دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جنگ کا میدان ہو یادہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا، ملکی سرحدوں کا دفاع ہو یا قدرتی آفات میںلوگوں کی بحالی کے اقدامات، افواج پاکستان ہر چیلنج میں سرخرو ہوئی ہیں۔ عسکری سفارت کاری نے پاکستان کے خارجہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔یہ اسی کا ثمر ہے کہ آج ہم کئی ممالک جن میں چین، روس، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، برطانیہ اورا مریکہ شامل ہیں،کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار رکھے ہوئے ہیں۔دفاعی سفارت کاری کو فروغ دیتے ہوئے دیگر ممالک کی افواج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کا انعقاد کر نا افواج پاکستان کے لیے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ نہ صرف دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ باہمی تعاون اور قوموں کے درمیان دوستی کے روابط کو پروان چڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ مشترکہ فوجی مشقیں قومی، اقتصادی اور سفارتی مقاصد کے حصول کی راہ بھی ہموار کرتی ہیں۔ پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ نے بھی دفاعی سفارت کاری کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاک بحریہ کی امن نیول ایکسرسائزدفاعی سفارت کاری کا ایک نادر نمونہ ہے۔گزشتہ برس اس مشق میں کل 46 ممالک کی افواج نے حصہ لیا تھا جن میں امریکی اور برطانوی فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ ان کے روایتی حریف روس کے فوجی دستے بھی شامل تھے ۔بین الاقوامی عسکری مقابلے بھی دفاعی سفارت کاری میں شامل ہیں جن میں عمدہ کارکردگی دکھانے کی وجہ سے افواج پاکستان دنیا بھر میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہیں۔ بین الاقوامی افق پر اپنی صلاحیتوں اور کامیابیوں کو نقش کرنے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل ملٹری کمپی ٹیشن کا کامیاب انعقاد کسی سنگ میل سے کم نہ تھا۔ جذبہ خیر سگالی کے تحت اقوام متحدہ کے امن مشن میں عالمی قیام امن کے حوالے سے پاک فوج کا کردار مثالی رہا ہے جس کو اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے ممالک نے سراہا ہے۔ اپنی خدمات کے عوض پانچویں نمبر پر آنے والے بڑے ملک پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا احترام کیا ہے۔ افواج پاکستان 1960 سے لے کر اب تک مسلسل اقوام متحدہ کی کثیر القومی مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ پاک فوج نے فلاح انسانیت، اداروں کی تعمیر اور امن و امان کے قیام کو اپنا شعار بناتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریس نے اپنے ایک خطاب میں پاکستانی امن افواج کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:پاکستان دنیا بھر میں ہونے والی امن کی کوششوں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد اور تعاون کرنے والا ملک ہے۔دفاعی سفارت کاری سے ایک طرف ملکی دفاعی استعداد کار میں اضا فہ ہوا ہے تو دوسری جانب اس کی بدولت ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی کے بیشتر اہداف حاصل ہوئے ہیں۔ دفاعی برآمدات کے ساتھ ساتھ اسلحے کی برآمدات میں بھی اضا فہ ہوا ہے۔ وزارت دفاع کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دفاعی سفارت کاری کے ذریعے گزشتہ پانچ سالوں میں دفاعی برآمدات میں ساٹھ بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا نے بین الاقوامی منڈی سے ایک تہائی کم قیمت پر الخالد ٹینکوں کی مقامی طور پر تیاری کر کے ملکی معیشت کو تقویت پہنچائی۔
