پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری نے ایک نیا سنگ میل عبور کرلیا۔کراچی ائیرپورٹ پر آنے والی بین الاقوامی پرواز کی گراﺅنڈ ہینڈلنگ پہلی مرتبہ مکمل طور خواتین عملے نے انجام دی۔ لینڈنگ کے بعد طیارے کی بحفاظت پارکنگ ، مسافروں کو طیارے سے اتارنے کیلئے ایوو برج منسلک کرانا اور مسافروں کے پہنچنے تک ان کا سامان بھی لانچ تک پہنچانا، وہ ٹاسک تھا جسے خواتین پر مشتمل عملے نے بخوبی پورا کیا۔ ان باہمت خواتین نے ایوی ایشن انڈسٹری میں اس پیشے کو منتخب کیا ہے جو پہلے صرف مردوں کیلئے مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ائیر لائنز کو گراﺅنڈ ہینڈلنگ سروس فراہم کرنے والی نجی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک فلائٹ آپریشن نہیں بلکہ پاکستان کی افرادی قوت کے منظر نامے میں ایک واضح تبدیلی ہے۔اگلا مرحلہ لاﺅنج میں موجود مسافروں کو بورڈنگ کارڈ جاری کرکے طیارے میں سوار کرانا اور بیگیج طیارے میں لوڈ کرنا ،ایندھن بھروانا ساتھ ہی ایپرن ایریا میں کھڑے طیارے کو دوبارہ پرواز کیلئے تیار کرناتھا، سب سے اہم اور حساس ترین کام ٹگ ماسٹر کے ذریعے دیو ہیکل طیارے کو دھکیل کر ایپرن ایریا سے ٹیکسی وے تک پہنچانا تھا جسے خاتون آپریٹر نے بخوبی انجام دیا۔خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے سری لنکن ائرلائن کا کراچی کی اس پرواز پر پائلٹس سے لے کر کیبن کرو تک تمام عملہ خواتین پر مشتمل تھا جبکہ گراﺅنڈ پر بھی تمام خدمات خواتین نے ہی انجام دیں اور طیارے کو مقررہ وقت کے اندر کامیابی سے اگلی منزل کیلئے روانہ کر دیا۔اس طرح پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں طیارے کے کاکپٹ سے لے کر گراﺅنڈ لینڈنگ تک تمام امور خواتین نے انجام دیے۔اس سے پہلے گراﺅنڈ ہینڈلنگ کا تمام کام مرد عملہ کرتا تھا۔ خواتین نے ایوی ایشن انڈسٹری کے اس اہم ترین شعبے میں اپنی آمد کا بھر پور اعلان کر دیا ہے ۔اقبال نے کہا تھا وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ خواتین معاشرے کا ایک جزو ہیں، انہی کی بدولت دنیا میں قوس قزح کے رنگ بکھیرے ہوئے ہیں، جن کے دم سے زندگی کے رنگ تازہ ہیں۔ عورت کے بغیر انسانی نسل کا استحکام اور نشوونما ناممکن ہے۔ معاشرے کی بقا و استحکام، جسمانی و روحانی آسودگی عورت ہی کے باعث ہے۔سچ تو یہ ہے کہ عورت انسانیت کی معراج ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا کر کے اس کی حیثیت متعین کر دی۔ بدقسمتی سے اسلامی تعلیمات کی ادھوری تفہیم اور انہیں معاشرتی رسوم و رواج میں خلط ملط کرنے کے باعث خواتین کو ماضی میں علوم کے آزادانہ حصول تک رسائی کا حق حاصل نہیں رہا، جس کی وجہ سے وہ نسل در نسل زیور تعلیم سے محروم رہیں۔ اگر انہیں گھر میں بھی دین کی تعلیم دی گئی تو وہ بھی اس معیار کی نہیں تھی،جس سے دین اسلام کا صحیح مفہوم انہیں معلوم ہوسکے اور وہ نئی نسل کی تربیت میں بہترین کردار ادا کرسکیں۔ برصغیر ہندو پاک کی مسلم خواتین نے اسلام کی تعلیمات کو صحیح طرح نہ سمجھا یا انہیں سمجھایا ہی نہیں گیا اور انہوں نے مغربی تہذیب کی پیروی کرنا شروع کردی۔ جدید مغربی تعلیم مسلمان عورت کے لئے موزوں نہیں کہ یہ اسے اس کے اصل فرائض سے پہلو تہی پر اکساتی ہے۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور کئی دیگر رہنماﺅں اور شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعے عورت کو اسلامی اقدار کے مطابق حصول علم پر اکسایا۔ درحقیقت تعلیم ہی وہ زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام سے آگاہ ہوکر اپنا اور معاشرے کا مقدر سنوار سکتی ہے، لیکن افسوس یہ کہ کچھ بزرگ خواتین کی تعلیم کے متعلق غلط فہمی رکھتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں ہی کو دینا ضروری ہے۔ تعلیم صرف روزگار کے لئے چاہئے۔ اس میدان میں صرف مردوں کو آنا چاہئے۔ عورتیں صرف باورچی خانے کے لئے پیدا ہوئی ہیں اور ان کی زندگی باورچی خانے سے شروع ہوکر دستر خوان پر ختم ہو جاتی ہے،لیکن اس طرح کی باتیں کسی صورت درست نہیں۔ خواتین بھی انسان ہیں۔ علم کی روشنی انسان کو جینا سکھاتی ہے۔ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہئے ہیں۔ اگر ایک پہیہ تعلیم میں آگے ہو اور دوسرا پنکچر ہو تو زندگی کا چکر تیز رفتاری سے نہیں چل سکتا اور گاڑی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی۔ کوئی معاشرہ یا قوم اس وقت تک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتی جب تک مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے۔کسی دانا کا قول ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ بچہ جو کچھ اس درس گاہ سے سیکھتا ہے وہ اس کی آئندہ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بچے کی بہترین تربیت کے لئے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ مفکرین کی مطابق:مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے۔ نپولین کا قول ہے:آپ مجھے اچھی مائیں دیں، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔انگریزی زبان میں اس کا مفہوم یوں ادا کیا گیا ہے جو ہاتھ جھولا جھولاتا ہیں۔ یقینا وہی ہاتھ اس دنیا پر راج کرتاہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے فارسی شعر کا مفہوم ہے: قوموں کو کیا پیش آ چکا ہے؟ کیا پیش آ سکتا ہے؟ اور کیا پیش آنے والا ہے یہ سب ماں کی جبینوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔گھر کی مثال ایک چھوٹی سی سلطنت جیسی ہے، جس میں خاوند بادشاہ اور بیوی اس کی وزیر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ تنہا اپنی سلطنت کا انتظام نہیں سنبھال سکتا۔ اسے لازما اپنے وزیر سے بھی مدد لینا پڑتی ہے۔ بادشاہ خواہ کتنا ہی منظم اور لائق کیوں نہ ہو اگر اس کا وزیر عقل مند اور مدبر نہیں ہو گا تو وہ سلطنت کے امور میں بادشاہ کو صحیح مشورے نہیں دے پائے گا اور ایسی سلطنت بدنظمی کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔ گھریلو سلطنت کے انتظام کو چلانے کے لئے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ کسی بھی گھر کا نظام درست انداز میں چلانے کے لئے گھر کا بجٹ بنانا بہت ضروری ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت گھر کا حساب کتاب اچھے طریقے سے کرتی ہے۔ وہ کفایت شعار ہوتی ہے۔ وہ قرینے اور تربیت سے گھر کا نظام چلاتے ہوئے کچھ رقم بچا بھی لیتی ہے جو کہ مصیبت میں اس کے کام آتی ہے،جبکہ ان پڑھ جاہل عورت ایسا نہیں کر سکتی۔ وہ حساب کتاب درست انداز میں نہیں کر سکتی۔ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی ہے۔ مہینے کے آخر میں گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، جس کا منفی اثر معصوم بچوں کے ذہنوں پر پڑتا ہے۔ ایسی ماں کے بچے مفید شہری بننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یوں وہ ملکی ترقی میں مثبت کردار بھی ادا نہیں کر سکتے۔بچوں کی مختلف بیماریوں سے حفاظت اور صحت مندی کے لئے یہ ضروری ہے کہ ماں حفظان صحت کے اصولوں سے پوری طرح آگاہ ہو اور یہ علم کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ پڑھی لکھی عورت ان اصولوں سے باخبر ہوتی ہے۔ وہ گھر کے ماحول کو صحت مند رکھ سکتی ہے، لیکن ایک جاہل عورت صحت و صفائی کے اصولوں سے بے خبر ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر صحت مندانہ ماحول سے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔مذہب کو انسانی زندگی میں خاص مقام حاصل ہے۔مذہب کی بنیادی تعلیمات اور اہم مسائل سے آگاہی مرد کے ساتھ ساتھ عورت کے لئے بھی اشد ضروری ہے۔ پڑھی لکھی عورت مذہبی و دینی تعلیمات اور وسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی اولاد کی تربیت دینی اصولوں کی روشنی میں بہتر انداز میں کرسکے، اسی طرح ملک و ملت کی تقدیر سنور سکتی ہے، لیکن ایک جاہل عورت دین و مذہب کی تعلیمات سے نا آشنا ہوتی ہے۔ وہ غیر سلیقہ شعار ہوتی ہے۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض بھی اچھے طریقے سے ادا نہیں کرسکتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کا ذہن ایک شفاف سلیٹ کی مانند ہے جو اس پر لکھ دیا جائے، اسے مٹایا نہیں جاسکتا۔موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا ایک عالمی گاں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اب وہی قوم یا ملک اس جہاں پر حکمرانی کرسکتا ہے جو علم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہو گا۔ اگر کسی ملک کی نصف آبادی، یعنی خواتین پسماندہ ہوں گی تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ لہذا عورتوں کے لئے تعلیم کا حصول اور معلومات عامہ کا جاننا بہت ضروری ہوچکا ہے۔ آج کی دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ اس لئے ایک پڑھی لکھی عورت ہی اس نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرسکتی ہے۔ایک تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسرے تک پہنچاسکتی ہے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کرسکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے، جبکہ غیر تعلیم یافتہ عورتیں مفید شہری ثابت نہیں ہو سکتیں۔
