وزیر اعلی و چیئرمین ایپکس کمیٹی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کے زیر صدارت ایپکس کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں اعلی سول و عسکری حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس میں خطے کی مجموعی سیکیورٹی، امن و امان، لا اینڈ آرڈر ، توانائی ، تعلیمی اصلاحات، سیاحت و کھیلوں کے ایونٹس ، پولیس ریفارمز ،قراقرم ہائی وے اور جگلوٹ سکردو روڈ کی سیفٹی اور سیکیورٹی کے معاملات اورغیر قانونی اسلحہ و منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے بارے میں اہم فیصلے کیے گئے۔ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چولہا متاثرین کے مسائل کے حل کے لیے دو ہائی پاور کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو متاثرین سے مذاکرات کے بعد اپنی سفارشات مرتب کریں گی۔ بعد ازاں فیڈرل کمیٹی کے اراکین چولہا متاثرین کے ساتھ ملاقات کرینگے اور اگلا لائحہ عمل چولہا متاثرین کے ساتھ مل کر مشاورت سے طے کرینگے۔ کمیٹی نے چولہا متاثرین سے اپیل کی کہ وہ اپنی نمائندہ کمیٹی تشکیل دیں تا کہ بامقصد مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جا سکے۔وزیر اعلی گلگت بلتستان نے اجلاس کے دوران متعلقہ حکام کو ہدایت دی کہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، تاکہ خطے کی ترقی اور استحکام کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔ اس موقع پر کمانڈر ایف سی این اے نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کسی بھی موقع پر علاقے کی امن و امان کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور کسی بھی غیر قانونی کاروائی کو کامیابی سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امن و استحکام کے لیے عوامی تعاون انتہائی ضروری ہے۔ےہ کہا گےا کہ گلگت بلتستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ طور پر کام کیا جائے گا اور تمام سٹیک ہولڈرز اس عمل میں مکمل تعاون کریں گے۔ادھر دوسری جانب ڈےم متاثرےن کا احتجاج جاری ہے اور وہ اپنے مطالبات کی منظوری کا اعادہ کر رہے ہےں۔پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری تک دیامر ڈیم کے متاثرین کی آواز پہنچاﺅں گا۔ اگر سنجیدہ مذاکرات نہیں کئے گئے اور عوامی مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو ہم استعفی دینے کے لئے بھی تیار ہیں۔ عوامی حقوق کے لئے کئی اقتدار قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی جانب سے احتجاجی دھرنے کے لئے چھے لاکھ روپے کا بھی اعلان کیا۔ یہ احتجاج صرف دیامر کے عوام کا نہیں بلکہ ہم سب کا احتجاج ہے پورے گلگت بلتستان کا احتجاج ہے۔ ہم گلگت بلتستان کے تمام عوام بحیثیت قوم متحد ہیں ہم ایک دوسرے کی جان ہیں ہماری غیرت و عزت ایک ہے۔ دیامر ڈیم کے متاثرین کا معاہدہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہوا ہے پیپلز پارٹی عوامی حقوق کا ہر حال میں تحفظ کرے گی۔ اگر عوامی مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو آپ لوگ حکم کریں پورے گلگت بلتستان سے عوام آپ لوگوں کے احتجاج میں شامل ہونے کے لئے روانہ ہونگے اور گلگت بلتستان کے ہر ضلعے میں احتجاج ہوگا۔ واپڈا اور متعلقہ ادارے سنجیدہ مذاکرات کریں اور عوامی مطالبات تسلیم کریں۔ کئی بار کمیٹیاں بنائی گئیں مگر مسائل حل نہیں کئے گئے۔ ملک میں اور بھی بڑے ڈیم بنائے گئے ہیں مگر پہلے وہاں کی عوام کو مطمئن کیا گیا ہے اور انکے مطالبات تسلیم کئے گئے ہیں لہذا دیامر ڈیم کے متاثرین کے مطالبات تسلیم کر کے عوام کو مطمئن کیا جانا ضروری ہے۔بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے عوامی مطالبات تسلیم کئے جائیں گے۔درےں اثناءدیامر ڈیم متاثرین نے مطالبات منظور نہ ہونے پر پلان بی کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ڈیم سائٹ کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا اور پھر وہاں مطالبات کی منظوری تک کام بند کروا دیا جائے گا۔ تحریک کے رہنما مولانا حضرت اللہ نے پلان بی کا باضابطہ اعلان کیا۔ جس کے مطابق تےرہ صفوں پر مشتمل قافلہ گاڑیوں کے ساتھ ڈیم سائٹ کی طرف لانگ مارچ کرے گا۔ اس دوران، تحریک کے عہدیداران نے اعلان کیا ہے کہ گوہر آباد سے کھنبری تک جاری تمام پری فری روڈ کے کام کو صبح دس بجے کے بعد مکمل طور پر بند کیا جائے۔ متاثرین کی کمیٹی نے تمام کمپنیوں کو کام بند کرنے کی ہدایت کی ۔یہ قافلہ ڈیم سائٹ پر تمام کام بند کروا کر غیر معینہ مدت کے لیے دھرنا دے گا، جب تک کہ اکتےس نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔احتجاجی دھرنا کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے بابا جان نے کہا کہ یہ ڈیم ہماری زمینوں، آباﺅاجداد کی قبروں، اور قدیم آثار کو ڈبو کر اسلام آباد کو روشن کرنے کی کوشش ہے۔ ہم ایسی ترقی کو مسترد کرتے ہیں جو عوام کو بے گھر کرے۔ ریاست جبر کے ذریعے ہماری آواز دبانا چاہتی ہے، لیکن یہ تحریک اب طوفان بن چکی ہے۔انہوں نے پرجوش نعروں کے ذریعے لوگوں کو گرمایا۔حکومت ڈیم متاثرین کے مطالبات کو حل کرنے کے بجائے خواب غفلت کی نیند سورہی ہے، یہ صرف دیامیر کے عوام کی تحریک نہیں ہے بلکہ پورے گلگت بلتستان کی ہے۔احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے رہنماﺅں نے کہا کہ ہم گلگت سے دیامیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے یہاں آئے ہیں۔ ہم اس تحریک کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ڈیم متاثرین کے تمام بنیادی مطالبات فی الفور تسلیم کرے ۔انہوں نے واپڈا پر زور دیا کہ وہ اٹھارہ ہزار ایکڑ اراضی کے غیرمنصفانہ معاوضے اور چولہا سپورٹ پیکیج جیسے وعدے فوری پورے کرے۔ ڈیم متاثرین کو حکومت نے بہت کم ادائیگیاں کی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابرہے۔ حکومت متاثرین کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر فی الفور عمل درامد کرے۔حقوق دو ڈیم بناﺅ تحریک نے اکتےس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے جس کے تحت ہمارا مطالبہ ہے کہ دیامیر بھاشاڈیم کی اسی فیصد رائیلٹی گلگت بلتستان کے عوام کو دی جائے۔اس ڈیم کی زد میں ہمارے گھر اور زرعی اراضیات تباہ ہورہی ہیں ان کے بدلے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہمیں پیسے دیئے جائیں۔حکومت نے 2015 میں متاثرین سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو زرعی اراضیات کے بدلے اراضی اور گھر بنا کر دینگے جس پر ابھی تک عملدرامد نہیں ہوسکا ہے۔ ہمار مطالبہ ہے کہ ریاست پاکستان ڈیم متاثرین کے ایجنڈے کو فی الفور تسلیم کرتے ہوئے مطالبات منظور کرے۔مظاہرےن کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم کی زیرقیادت وزارتی کمیٹی نے ڈیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے معاوضے، آبادکاری، نوکریوں کے باقاعدہ اجرا، اور متاثرہ کمیونٹیز کے نمائندوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے جیسے مطالبات پر فوری عملدرآمد نہ کیا تو وہ پورے دیامر کو جام کر دیں گے۔انتےس ارب ڈالر کے اس ڈیم کے گرد تناﺅ بڑھ رہا ہے جہاں نسلی زمینوں، وسائل اور وفاقی وعدوں کے عدم پورا ہونے کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ شرکاکا کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے پورا گلگت بلتستان متاثر ہوگا۔ ہم دیامر کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔مطالبات میں زمینوں کا معاوضہ، بے گھر خاندانوں کے لیے نئی آبادیاں، مقامی نوجوانوں کے لیے چالےس فےصد کوٹہ، اور ڈیم سے حاصل ہونے والی آمدنی میں گلگت بلتستان کا حصہ شامل ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے امیر مقیم کی سربراہی میں چھے رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو متاثرین کے مسائل حل کرے گی، تاہم احتجاجی رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ زبانی وعدوں سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تحریری معاہدے چاہیں۔ واپڈا کا موقف ہے کہ اکےانوے معاوضے ادا کر دیے گئے ہیں، جبکہ متاثرین اسے جھوٹا بیانیہ قرار دے رہے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہم نے ملک کے مفاد کے لیے اپنے آباواجداد کی قبروں کو بھی قربان کیا اور حکومت ہمارے صبر کا امتحان لے رہی۔شرکا عہد کر چکے ہےں کہ وہ تحریک کی کامیابی تک آپس کے اختلافات کو بھلا دیں گے اور کسی بھی قیمت پر اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ان کے حقوق مسلسل نظر انداز کیے جا رہے ہیں، متاثرین کو ملازمتیں دینے کے بجائے دیگر شہروں سے بھرتیاں کی جا رہی ہیں، جو ناانصافی ہے مقررین نے مطالبہ کیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے مسنگ چولہا کمیٹی افراد کو ہاس ہولڈ ریسٹلمنٹ پیکیج دیا جائے، زمینوں کے مکمل معاوضے فوری ادا کیے جائیں، مقامی افراد کو ملازمتوں میں ترجیح دی جائے اور 2021 کے معاہدے پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔مقررین کے مطابق وہ ڈیم کی تعمیر کے مخالف نہیں، بلکہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے وعدے پورے نہ کیے جانے پر احتجاج مزید سخت کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔ہم سمجھتے ہےں کہ حکام بالا کو ڈےم متاثرےن کے جائز مطالبات کی تکمےل میں مزےد تاخےر سے کام نہےں لےنا چاہےے۔
