پاک آذربائیجان تعلقات

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آذر بائیجان کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کو ایک ماہ میں حتمی شکل دینے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ دو ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدوں پر اپریل میں دستخط ہوں گے۔ان کاکہنا تھا کہ باہمی مفاد کے مشترکہ منصوبوں سے دونوں ملکوں کے عوام مستفید ہوں گے۔ آذربائیجان کی علاقائی خودمختاری اورسلامتی کی حمایت کرتے ہیں جب کہ کارا باخ کے مسئلے پر آذربائیجان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر آذربائیجان کے صدرالہام علیوف نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کو آذربائیجان میں خوش آمدید کہتے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دے رہے ہیں، اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بہت مواقع موجود ہیں۔ اس سے قبل پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان مفاہمتی یاداشتوں اور معاہدوں کی تقریب ہوئی جس  میں وزیر اعظم شہباز شریف آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سمیت دونوں ممالک کے وزرا شریک ہوئے۔ دونوں ممالک کے اعلی حکام نے پاکستان اورآذربائیجان میں ایل این جی کی خریدو فروخت کے فریم ورک معاہدے میں ترمیمی معاہدے، اسٹیٹ آئل کمپنی آذربائیجان اور دیگر مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔اسٹیٹ آئل کمپنی آذربائیجان اور پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے جب کہ پی ایس او، ایس او سی اے آرٹریڈنگ میں پٹرولیم مصنوعات کی خریدوفروخت کے سمجھوتے پر بھی دستخط کیے گئے۔ اس کے علاوہ آذربائیجان کے شہر نض چیوان اور پاکستان کے شہر لاہور کے درمیان ثقافتی تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے۔ دونوں ملکوں کے مابین جدید تعلقات اس وقت قائم ہوئے جب نوجون 1992 کو، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جمہوریہ آذربائیجان آزاد ہوا۔پاکستان نے آذربائیجان کو  بارہ دسمبر 1991 کو تسلیم کیا تھا۔پاکستان ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے آذربائیجان کو تسلیم کیا دونوں ممالک کے مابین تجارت اور تعاون مستقل طور پر فروغ پا رہا ہے آذربائِیجان کو سرکاری طور پر جمہوریہ آذربائیجان کہا جاتا ہے، یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع اس ملک کے مشرق میں بحیرہ قزوین، شمال میں روس، مغرب میں آرمینیا اور ترکی، شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران واقع ہیں۔ آذربائیجان کے موجودہ علاقے میں قدیم ترین انسانی آثار پتھر کے زمانے تک کے ملتے ہیں۔ یہ آثار مختلف غاروں میں محفوظ ہیں۔ شراب کی صراحیاں جو خشک ہو چکی ہیں، شہر خاموشاں اور مقابر میں ملی ہیں۔ یہ شراب تانبے کے دور میں بنائی جاتی تھی۔جنوبی قفقاز کو اکامینڈس نے 550  قبل مسیح میں فتح کیا تھا اور اس سے زرتشتی مذہب کو فروغ ملا۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد یہاں دیگر ملحقہ علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔عرب اموی خلیفہ نے ساسانیوں اور بازنطینیوں کو شکست دے کر قفقازی البانیہ کو فتح کر لیا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سالاریوں، ساجدی، شدادی، راوادی اور بائیدیوں کے قبضے میں رہا۔ گیارھویں صدی عیسوی کی ابتدا میں وسط ایشیا سے آنے والے ترک اوغدائی قبیلوں نے بتدریج اس علاقے پر قبضہ جمایا۔ ان بادشاہتوں میں سے پہلی بادشاہت غزنویوں کی تھی جنھوں نے 1030 میں اس علاقے پر قبضہ جمایا۔یہاں صفویوں کے زوال کے بعد کئی خانوں نے مقامی طور پر اینی حکومتیں قائم کیں اور ان کی باہمی لڑائیوں کا آغاز ہو گیا۔ ترکمانچی کے معاہدے کے بعد کئی علاقوں پر روسی قبضہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب روس کے زوال کا وقت آیا تو آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا نے مل کر ایک الگ متحدہ ریاست قائم کی جو مختصر عرصہ تک قائم رہی۔ مئی 1918 میں یہ ریاست ختم ہوئی اور آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور اپنا نام عوامی جمہوریہ آذربائیجان رکھا۔ اس ریاست کو دنیا میں پہلی مسلمان پارلیمانی ریاست ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ دو سال بعد روسیوں نے اس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ مارچ 1922 میں جارجیا اور آرمینیا کے ساتھایک نئی ٹرانس کاکیشیئن ایس ایف ایس آر بنائی جو روسی فیڈریشن کے ماتحت تھی۔ 1936 میں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچی اور آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے سوویت یونین میں شمولیت اختیار کی۔آذربائیجان اور پاکستان کے مابین خارجہ تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک کو اسٹریٹجک شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔آذربائیجان پاکستان سیکیورٹی تعاون کا آپس فوجی شعبے سے لے کر فوجی تعلقات تک اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے مابین بھی تعاون بڑھا رہا ہے۔نثار حسین کے مطابق پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان سفارتی تعلقات کی مضبوطی کا ایک اہم پہلو ان کی مشترکہ خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ آذربائیجان کے حق میں اپنی حمایت کا اظہار کیا خاص طور پر ناگورنو کاراباخ تنازعے پر۔پچھلی دہائیوں میں دونوں ملکوں نے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہے، اور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی، جو خطے کیاستحکام اور ترقی کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔ پاکستان اور آذربائیجان دو طرفہ اور باہمی تعلقات کو عملا فروغ دینے کے ساتھ انہیں معاشی شراکت داری میں تبدیل کرنے کیلئے اگے بڑھتے نظر آتے ہیں دونوں ممالک دہشتگردی اور دیگر سیکیورٹی چیلنجز کے خلاف مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں دونوں کا باہمی اور کثیر الجہتی تمام ایشوز پر موقف بھی یکساں نظر آتا ہے، کاراباخ کے تنازعہ پر پاکستان ہمیشہ آذربائیجان کے ساتھ کھڑا رہا، اس مسئلہ پر آذربائیجان کی فتح انصاف اور فیئر پلے کی ایک مثال ہے جبکہ آذربائیجان نے تنازعہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے اور مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے۔ صدر الہام علیوف نے دونوں ممالک کے درمیان بھائی چارے کو عوام کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا ہے۔ آذربائیجان نے باکو سے اسلام آباد، کراچی اور لاہور کی براہ راست پروازیں شروع کی ہیں، اہم امور پر دونوں ممالک کا موقف یکساں ہے۔آذربائیجان کے مطابق کاراباخ جنگ کے دوران پاکستان نے آذربائیجان کی حمایت کی، پاکستان نے قابض ملک ہونے کی وجہ سے آرمینیا سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے۔، دفاعی صنعت کے شعبہ میں دونوں ملک ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ ، سیاحت کے فروغ، کلچرل قونصلر افیئرز ، ریاستی اداروں کی نجکاری کے شعبہ میں تعاون ٹرانزٹ ٹریڈ، ترجیحی تجارتی معاہدہ ، معدنی وسائل اور جیالوجی کے شعبہ میں تعاون ،انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کے شعبہ میں تعاون اسلام آباد اور باکو کو جڑواں شہر قرار دینے اور فضائی تعاون سمیت مفاہمت کی متعدد یاداشتوں اور معاہدوں پر دستخط  ہو چکے ہیں  ۔اس طرح پاکستان اور آذربائجان کے درمیان تجارت کے فروغ سے تعمیروترقی کے راستے ہموار ہونگے اور دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کا اسباب بنیں گے ۔ پاکستان نے آذربائیجان کی فضائی طاقت کو بڑھانے کے لیے جے ایف سترہ بلاک تھری لڑاکا طیاروں کی فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے۔جے ایف سترہ تھنڈر بلاک تھری ایک اے ای ایس اے ریڈار اور لانگ رینج بی وی آر سے لیس 4.5 جنریشن کا ملٹی رول لڑاکا طیارہ ہے جو عصری فضائی طاقت فراہم کرتے ہوئے جنگی مشن سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور آذربائیجان کے بیڑے میں اس کی شمولیت سے ان کی قومی سلامتی کو مضبوطی میں مدد ملے گی۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے باکو، آذربائیجان میں آسان خدمت مرکز کا دورہ کیا۔ آسان خدمت شہریوں کی آسانی کو مقدم رکھ کر موثر عوامی خدمات کی فراہمی میں اپنی بہتر کارکردگی کے باعث ایک معروف ادارہ بن چکا ہے۔ یہ عوامی خدمات کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک منفرد ون اسٹاپ شاپ ماڈل ہے، جس سے شہریوں کو چار سو سے زائد خدمات تک رسائی حاصل ہوتی ہے، جو تیس سرکاری اور پندرہ نجی اداروں کی طرف سے ایک ہی چھت تلے میسر ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اسلام آباد میں خدمت مرکز کے طرز کا ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم آذربائیجان کے سا تھ معاہدہ کر کے آپ کے تجربات سے استفادہ کریں گے۔انہوں نے آسان خدمت کی ایک ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرنے اور باہمی تعاون کے مواقع تلاش کرنے کی دعوت دی۔اس کا آغاز جامع ادارہ جاتی گورننس اصلاحات کے حصے کے طور پر کیا گیا اور اس کا مقصد شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنا ہے۔ یہ ماڈل عوامی خدمات کی شفاف، جوابدہ اور موثر فراہمی یقینی بناتا ہے، جس میں شہریوں کے تسلی بخش رائے بہتری کے لیے انتہائی ضروری جز کا کردار ادا کرتی ہے۔