وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہمارا مشن ہے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ خوش آئند بات ہے لیکن ہمیں آگے بڑھنا ہے اور مزید محنت کرنی ہے، تین چار ماہ بعد بجٹ آئے گا، اب ہمیں اڑان پاکستان اور ہمارا ہوم گرون ایجنڈا ہے، اس پر فی الفور کام شروع کر دینا چاہیے۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر ہم مل کر شبانہ روز محنت کریں گے تو ہماری معاشی ترقی کا پہیہ بڑی تیزی سے گھومنا شروع ہو جائے گا، یقینا اس کے لیے ملک کے اندر سازگار حالات انتہائی ضروری ہیں، ابھی چند دن قبل لاہور میں ایک شہید لیفٹننٹ حسن اشرف کا نماز جنازہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اکیس سال کا نوجوان بچہ خارجی دہشت گردوں کے تعاقب میں اس نے وطن کے لیے اپنی جان قربان کر دی لیکن شہادت سے پہلے چھے خوارج کو ہلاک کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہمارا مشن ہے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ قربانیاں ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں، انہی کی بدولت پاکستان میں امن قائم ہوگا اور پاکستان ضرور ترقی کی راستے پر گامزن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک پاکستان کے ریفارم ایجنڈے پر نہ صرف مطمئن ہے بلکہ انہوں نے بڑے شاندار انداز میں تعریف کی۔پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا شکار ہے جس پر قابو پانے کے لیے سکیورٹی فورسز ملک بھر میں کارروائیاں کررہی ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرنے کے جذبے سے سرشار ہو کر بہادری سے کھڑی ہیں۔ مسلح افواج اپنی قوم کے ساتھ مل کر ملک کے امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بدستور پرعزم ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کے ملک سے مکمل خاتمے تک اس کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ پاک فوج کے افسران و جوان دہشت گردوں سے پاکستان کی مٹی کو پاک کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ بدامنی میں ملک دشمن عناصر ملوث ہیں، طے کیا جا چکا ہے کہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، ریاست کی رٹ ہر صورت برقرار رکھی جائے گی۔امن دشمن عناصر پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں تخریب کاروں کو استعمال کررہے ہیں اور اس سلسلے میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کو معاشی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاروں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے محفوظ ملک نہیں ہے۔ سکیورٹی فورسز دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مختلف شہروں میں کارروائیاں تو کررہی ہیں لیکن اس سلسلے میں انہیں قوم کے بھرپور تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی بہادر افواج کا ہر طرح سے ساتھ دینا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا کر ملک کے استحکام اور ترقی کی راہ ہموار کی جاسکے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خطرہ ایک روزمرہ کا چیلنج ہے جو ہمارے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ہمارے خطے کی سلامتی اور استحکام کو نشانہ بناتا ہے۔یہ ایک عالمی رجحان ہے جو سرحدوں، ثقافتوں اور مذاہب سے بالاتر ہے اور اس سے لڑنے کے لئے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ صرف فوجی نوعیت کی نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی ایک پیچیدہ اور ہمہ جہت مصیبت ہے جس کے پھیلائو سے نمٹنے کے لئے خصوصی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ لہذا انتہا پسندی اور دہشت گردی کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں بنیاد پرستی کی جڑوں سے نمٹنے سے لے کر دہشت گرد بھرتیوں سے نمٹنے اور معاشرے میں افراد کی فعال شرکت کی حوصلہ افزائی تک ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں نیٹو کے چھوڑے ہوئے ہتھیار بھی دہشت گردوں کی دسترس میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نیٹو کے وہ ہتھیار جو افغان سکیورٹی فورسز کو فراہم کیے گئے تھے اب القاعدہ اور داعش خراسان کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔یہ دہشت گرد تنظیمیں یہی ہتھیار علاقائی ممالک کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔ اگرچہ سیکیورٹی ادارے اس حوالے سے مستعد ہیں اور اپنا کام پوری تندہی سے کر رہے ہیں جس کا ثبوت گزشتہ چھ ماہ میں محکمہ انسدادِ دہشتگردی کی جانب سے دہشتگروں کے خلاف کیے جانیوالے 1152 آپریشنز ہیں تاہم دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کیلئے مزید اقدامات ضروری ہیں۔قومی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے ملک کے سیکیورٹی اداروں کی کو ششیں قابلِ تحسین ہیں مگر یہ بھی ضروری ہے کہ پوری قوم اس چیلنجنگ صورتحال میں اتحادو اتفاق کا ثبوت دے۔ مثالی امن کا قیام اسی صورت ممکن ہے۔دہشت گردی کا مقصد انسانوں کو زک پہنچا کر اپنے برے مقاصد کی تکمیل ہوتا ہے۔ دہشت گرد کسی دوسری طاقت کی پراکسی ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی صرف ایک صورت ہوتی ہے کہ وہ زیر زمین اور پوشیدہ رہ کر اپنا وجود منواتی ہے جبکہ آزادی کی جدو جہد کی کئی صورتیں اور کئی چہرے اور مہرے ہوتے ہیں۔جیسا کہ سیاسی، سفارتی اور عسکری وغیرہ۔ دہشت گرد جبر اور تشدد سے اپنے برے مقاصد اور اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ آزادی کے متوالے جبر و تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف لڑ کر اور ظلم کا مقابلہ کر کے اپنی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی اور آزادی دونوں میں نیت کا فرق واضح ہے کہ دہشت گردی میں برے مقاصد کے حصول کے لیے بری نیت سے دہشت گردی کی جاتی ہے۔ جبکہ آزادی میں اچھی نیت سے اچھا مقصد اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور جدوجہد کرنا ہے۔ اپنی آزادی اور حقوق کے لیے لڑنا اور جدوجہد کرنا کسی بھی صورت میں دہشت گردی نہیں ہے لیکن امریکا، بھارت اور اسرائیل نے کشمیراور فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے دہشت گردی کہنا شروع کر دیا جو سراسر غلط ہے۔ ہاں یہ باریک سا نکتہ اور فرق ضرور ذہن نشین ہونا چاہئیے کہ آزادی کی ان تحریکوں میں بے گناہ لوگوں کو نہیں مارنا چاہئیے کیونکہ انسانی ضمیر بے گناہ لوگوں کے مارے جانے کو گوارا نہیں کرتا۔ اسے دہشت گردی ہی کہا جائے گا۔ اس طرح جنگ کی صورت میں بمباری، میزائیل یا کسی اور حملہ کی صورت میں بے گناہ لوگوں کو مار دینا کولیٹرل ڈیمج نہیں کھلی دہشت گردی کہلائے گا۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو بادی النظر میں یہ بات درست نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب، قوم، ملک، شہر، قصبہ، گائوں اور محلہ، میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے اعمال بھی اچھے برے ہوتے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی ایک برائی اور بہت بڑا گناہ تسلیم کی جاتی ہے دنیا میں دہشت گردی، ظلم، بربریت، مفاد پرستی، جھوٹ، فساد، نفرت، منافقت جیسی برائیاں بہت تیزی سے پھیلیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔ دہشت گردی، قتل و غارت گری، جھوٹ، ظلم، نفرت عام ہے۔دہشت گردی بھی ایک ایسا قابل نفرت اور برا عمل ہے جو بہت تیزی سے اس دنیا میں پھیل رہی ہے اور اس کو جتنا زیادہ روکنے کی کوششش کی جا رہی وہ اتنا ہی تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے اور نہ کوئی مذہب۔ اس کی جڑیں ہر رنگ نسل اور ہر علاقہ، مذہب، قوم اور ملک میں موجود ہیں۔ بس جہاں پانی ملا اور کھاد ملی دہشت گردی کی جڑوں سے پتے، شاخیں اور تنا نکل آیا اور جلد ہی تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا دنیا کے صاحبِ اختیار اور کرتا دھرتا لوگ دہشت گردی کے پتوں اور شاخوں کو تو کاٹنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں لیکن دہشت گردی کی جڑ کو ختم کرنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کرتے یا کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہ صاحبِ اختیار اور کرتا دھرتا لوگ دہشت گردی کی آڑ لے کر مختلف ممالک پر اپنی طاقت کے بل پر حملہ کرتے ہیں اور ان کو تباہ و برباد کرتے ہیں ان کے وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور ان ممالک کو دوبارہ تعمیر کرنے کے نام پر ان ممالک سے اپنے ملک کی کمپنیوں کو بڑے بڑے ٹھیکے دلواتے ہیں اور خوب منافع کماتے ہیں اور اپنی معاشی حالت کو بہتر سے بہتر بناتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گرد تنظیمیں پہلے خود قائم کرواتے ہیں اور انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں اور خوب منافع کماتے ہیں اور پھر ان دہشت گرد تنظیموں کو خود ہی ختم کرنے کا ڈراما رچاتے ہیں اور اس طرح یہ ممالک امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہ صاحب اختیار اور کرتا دھرتا ممالک مسلمانوں کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کاش مسلمان سوچیں اور سمجھیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی جڑ سے پھر پتے اور شاخیں پھوٹ پڑتی ہیں اور پھر دہشت گردی کا پودا پھوٹ کر ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرجاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کیوں پھیلتی ہے اس کے اسباب اور وجوہات کا علم حاصل کیا جائے اور ان اسباب اور وجوہات کا علم حاصل ہونے کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
