بڑھتی ہوئی خشک سالی

 طویل ترین خشک سالی کے باعث راولپنڈی میں زیرزمین پانی کی سطح گرنے اور پانی کے ذخائر میں کمی پر واسا راولپنڈی نے خشک سالی ایمرجنسی نافذکرتے ہوئے سروس اسٹیشنز اور گھروں میں گاڑیاں دھونے پر ایک ماہ کی پابندی عائد کردی ہے'ایم ڈی واسا سلیم اشرف کا کہنا ہے کہ شہری گھروں کے فرش گاڑیاں دھونے اور باغیچوں کو پانی دینے سے اجتناب کریں، خلاف ورزی کرنیوالوں کیخلاف سخت کارروائی ہوگی۔ایم ڈی واسا کے مطابق بارشیں نہ ہونے سے خشک سالی خطرناک حد تک بڑھ گئی جبکہ خانپور ڈیم کی بھل صفائی کے باعث بھی پانی کی سپلائی میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔راولپنڈی شہر میں پانی کی یومیہ طلب ستر ملین گیلن ہے شہر کو یومیہ اکیاون ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا تھا، بارشیں نہ ہونے سے پانی کی یومیہ فراہمی مزید پانچ ملین گیلن کم ہوگئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے احکام کے بعد محکمہ ماحولیات نے جمعے کو پنجاب بھر میں گھروں میں گاڑی دھونے پر پابندی عائد کرتے ہوئے خلاف ورزی پر دس ہزار روپے جرمانے کا اعلان کیا تھا۔لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر محکمہ ماحولیات کی جانب سے جاری احکامات میں بتایا گیا کہ کسی بھی قسم کے تیل سے گاڑی دھلوانے پر بھی پابندی عائد ہوگی۔28   فروری تک پنجاب بھر کے سروس اسٹیشنز کو پانی ری سائیکلنگ سسٹم لگانے کا حکم بھی دیا گیا تھا، پانی ری سائیکل کرنے کا سسٹم نصب نہ کرنے والے سروس اسٹیشن پر ایک لاکھ جرمانہ عائد کرنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔بارشیں نہ ہونے سے خشک سالی اکثر متاثرہ علاقوں کے ماحولیاتی نظام اور زراعت پر بڑے اثرات مرتب کرتی ہے اور مقامی معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ خشک سالی کے نتیجے میں جنگل میں آگ کے امکانات نمایاں طور پر بڑھ جاتے ہیں۔ گرمی کے ادوار پانی کے بخارات کے بخارات میں تیزی سے، جنگلات اور دیگر پودوں کو خشک کر کے اور جنگل کی آگ کے لیے ایندھن کو بڑھا کر خشک سالی کے حالات کو نمایاں طور پر خراب کر سکتے ہیں۔بدقسمتی سے رواں سال سردی کے موسم میں بارشیں نہ ہونے کے برابر تھیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ بارشیں ہوئی ہی نہیں۔خشک سالی ایک فطری مظہر ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اور ناپائیدار ارضی انتظام کے باعث حالیہ دہائیوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 2000 کی دہائی کے بعد دنیا میں خشک سالی کے واقعات کی رفتار اور شدت میں تقریبا تیس فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سے زراعت، آبی تحفظ اور ڈیڑھ ارب لوگوں کے روزگار کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غریب ترین ممالک اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔خشک سالی محدود ہوتے وسائل بشمول پانی پر جنگوں کا سبب بھی بن سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ لوگ مزید پیدواری مقامات کا رخ کرنے لگتے ہیں۔گزشتہ تین سال میں تیس سے زیادہ ممالک نے اپنے ہاں خشک سالی کے باعث ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا۔ ان میں انڈیا اور چین سیلے کر امریکہ، کینیڈا اور سپین جیسے بلند آمدنی والے ممالک اور یوروگوئے، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا جیسے ترقی پذیر ملک بھی شامل ہیں۔پانی کی قلت کے باعث یورپ کے دریائے رائن میں اناج کی نقل و حمل متاثر ہوئی اور وسطی امریکہ کی نہر پانامہ میں پانی کی سطح کم ہو جانے کے باعث بین الاقوامی تجارت کا نقصان ہوا۔ اسی طرح جنوبی امریکہ کے ملک برازیل میں پن بجلی کی مقدار میں کمی دیکھنے کو ملی جو اپنی ضرورت کی ساٹھ فیصد سے زیادہ بجلی پانی سے پیدا کرتا ہے۔امریکہ کے نیویارک سٹی میں واقع ایک اربن پارک میںدرختوں کی آگ بجھانے کے لیے فائر فائٹر طلب کرنا پڑے تھے۔ سرما کے اس مہینے میں شہر کئی ہفتوں تک بارش سے محروم رہا ہے۔اب ایسی جگہوں پر بھی خشک سالی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں پہلے اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی ملک اس مسئلے سے محفوظ نہیں ہے۔ 2050  تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی یا تقریبا سات ارب لوگ خشک سالی سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوں گے۔خشک سالی کم ہی کسی ایک جگہ اور وقت سے مخصوص ہوتی ہے اور اس کا سبب محض بارشوں کی کمی نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کے پیچیدہ عوامل مشترکہ طور پر بھی اس کا سبب ہوتے ہیں جو عام طور پر موسمیاتی تبدیلی یا ناقص ارضی انتظام سے جنم لیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کسی پہاڑی علاقے میں برف ختم ہو جائے تو وہاں کی زمین فوری طور پر بنجر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں یہ زمین موسمی شدت کے واقعات کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہاں خشک سالی اور سیلاب آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔جب یہ آفات آتی ہیں تو ان کے نتیجے میں کئی طرح کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں، گرمی کی لہریں اور سیلاب انتہائی شدت اختیار کر لیتے ہیں جس سے لوگوں کی زندگی اور روزگار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اس کی طویل مدتی انسانی، سماجی اور معاشی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ایک کے بعد دوسری خشک سالی کے نتیجے میں آبادیوں، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں ارضی بنجرپن اور پسماندگی کا سلسلہ تقویت پکڑتا رہتا ہے۔دنیا میں تقریبا ستر فیصد دستیاب تازہ پانی ایسے لوگوں کے زیراستعمال ہوتا ہے جن کی زندگی کا دارومدار زمین پر ہے۔ ان میں بڑی تعداد کم آمدنی والے ممالک کے کسانوں کی ہے جنہیں بہت محدود تعداد میں متبادل روزگار میسر ہوتے ہیں۔ ان میں ڈھائی ارب لوگ نوجوان ہیں۔پانی کے بغیر ان کے پاس نہ تو خوراک ہو گی اور نہ ہی وہ زمین کی بنیاد پر روزگار تک رسائی پا سکیں گے۔ اس کا نتیجہ نقل مکانی، عدم استحکام اور تنازعات کی صورت میں نکلے گا۔خشک سالی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے یہ ترقی اور انسانی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے جس پر تمام شعبوں میں اور ہر انتظامی سطح پر فی الفور قابو پانا ہو گا۔انسان کی لائی موسمیاتی تبدیلی، ناقص ارضی انتظام اور مسئلے سے نمٹنے کے لیے امدادی طریقہ کار پر زور دیے جانے کے باعث خشک سالی مزید سخت اور تیز رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ عام طور پر نچلی سطح پر پانی کی فراہمی میں کمی سے پیدا ہونے والے شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید منصوبہ بندی اور مطابقت پذیری درکار ہے۔ہم دیکھتے ہے کہ زمبابوے میں نوجوانوں کے زیرقیادت نچلی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم ملک میں ایک ارب درخت لگا کر زمین کو دوبارہ کارآمد بنانے کے لیے کوشاں ہے جبکہ غرب الہند کے ملک ہیٹی میں کسان یہ یقینی بنانے کے لیے درختوں پر شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں کہ ان درختوں کو کاٹا نہ جا سکے جن پر یہ انحصار کرتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے انسانی مصائب کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ محض امداد اور بحالی کی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ سستے ہوتے ہیں۔دنیا کے بعض ممالک اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بدترین صورت اختیار کرتی خشک سالی پر اجتماعی طور سے کیسے قابو پایا جائے اور پائیدار ارضی انتظام کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔خشک سالی  توانائی، زراعت، دریائی نقل و حمل اور بین الاقوامی تجارت جیسے شعبوں سے منسلک ہے۔ علاوہ ازیں اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان سے عدم مساوات فروغ پاتی ہے، مسلح تنازعات جنم لیتے ہیں اور صحت عامہ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں خشک سالی اور ناقص ارضی انتظام سے متاثرہ زمین کو 2030  تک بحال کرنے کے لیے ڈھائی ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔ زندگیوں اور روزگار کو تحفظ دینے کے لیے دنیا بھر سے مزید وسائل کے حصول کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔محکمہ موسمیات پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ساڑھے چار ماہ کے دوران ملک بھر میں مجموعی طور پر بارشیں چالیس فیصد تک کم ہوئی ہیں۔ جس کے پیش نظر خشک سالی کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس دورانیے میں بارشوں کی باون فیصد کمی کے ساتھ صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا ہے۔ ملک کے میدانی علاقوں میں خاطر خواہ بارشیں ریکارڈ نہیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں  معمول سے چالیس فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ صوبہ سندھ میں 52، بلوچستان میں پنتالیس اور پنجاب میں بیالیس فیصد معمول سے کم بارشیں ہوئیں جبکہ پوٹھوہار میں ہلکی خشک سالی کی صورت حال دیکھی گئی۔ ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج پوری دنیا میں درپیش ہے، لیکن اس کے سب سے زیادہ اثرات جنوبی ایشیائی ممالک میں سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان بھی مسلسل اس مسئلے کی وجہ سے مختلف مشکلات کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے جس میں بارشوں کی کمی سب سے بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔زراعت کا دارومدار بارشوں پر یوتا ہے جس سے لامحالہ فصلیں متاثر ہوتی ہیں'پانی ویسے ہی ہماری زمینوں کے لیے ناکافی ہے جو خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں گنا، کپاس، گندم سمیت تمام فصلوں کی پیداوار زیادہ کرنا تو درکنار ہم موجودہ پیداوار بھی قائم رکھنے کے قابل نہیں ہیں، جس سے کاشت کار مزید بدحال ہوتا جا رہا ہے۔بارشیں نہ ہونے سے ماحول میں آلودگی بھی بڑھتی ہے اس لیے اس حوالے سے پیشگی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔