ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے دہشتگردی کیخلاف جنگ اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستانی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا پاکستان آکر دلی مسرت ہوئی، پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے، قائد اعظم محمد علی جناں اور علامہ اقبال ہمارے بھی ہیرو ہیں۔ دونوں ممالک نے باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے، ہمارے درمیان 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر اتفاق ہوا ہے، صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں تجارتی امور پر گفتگو ہوئی، اپنے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایا کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں پانچ ارب ڈالر کے تجارتی حجم پر بات چیت ہوئی ہے جبکہ دفاع اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں تعاون کے فروغ پر بھی گفتگو ہوئی۔ترک صدر کا کہنا تھا وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان گہرے تعلقات ہیں، پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں، ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے کام کرتے رہیں گے، ترکیہ کی معارف فائونڈیشن کے اسکولوں کا پاکستان کے تعلیمی شعبے میں اہم کردار ہو گا۔ترکیہ کے صدر کا کہنا تھا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، قبرص کے معاملے پر پاکستانی حمایت ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، دنیا کے ہر فورم پر پاکستان کے ہمراہ فلسطین کے لیے آواز بلند کی، فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد ہمارا فرض ہے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے مل کر کوششیں جاری رکھیں گے۔وزیراعظم شہباز شریف اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے۔پاک ترکیہ اسٹریٹجک تعلقات مزید مستحکم کرنے کے اعلامیے پر دستخط کیے گئے، سماجی و ثقافتی بنیادوں پر ملٹری، سول پرسنیلز کے تبادلے کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے۔دونوں ممالک کے درمیان ائیر فورس الیکٹرانک وارفیئر اور انرجی ٹرانزیشن کے شعبے میں تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہوئے۔اس کے علاوہ کان کنی کے شعبے میں تعاون، ہائیڈروکاربنزکے شعبے میں پاک ترک تعاون کے معاہدے میں ترمیم کے پروٹوکول پر بھی دستخط کیے گئے۔ایکسپورٹ کریڈٹ بینک ترکیہ اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک پاکستان میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے، سامان کی تجارت بڑھانے کے حوالے سے مشترکہ وزارتی اسٹیٹمنٹ پر بھی دستخط کیے گئے۔صنعتی پراپرٹی میں تعاون کے علاوہ ترکیہ سیکرٹریٹ آف ڈیفنس انڈسٹریز اور وزارت دفاعی پیداوار میں بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز اور نیول ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ اور پاکستان میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔حلال ایکریڈیٹیشن اتھارٹی آف ترکیہ اور پاکستان حلال اتھارٹی، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے جبکہ لیگل میٹرولوجی انفرا سٹرکچر کے قیام کے حوالے سے بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔پاکستان اور ترکیہ کے درمیان میڈیا اور کمیونیکیشنز کے شعبوں میں تعاون، مذہبی خدمات اور مذہبی تعلیم کے شعبوں میں تعاون، سائینٹفک اینڈ ٹیکنالوجیکل ریسرچ کونسل ترکیہ اور این ٹی یو فیصل آباد کی مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت اور فارماسیوٹیکل کے شعبوں میں تکنیکی تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہوئے۔پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو اس کے ترکی کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔ تجارت سے لے کر فوجی تربیت اور فوجی معاہدوں تک دونوں ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح ترک فوجی پاکستان میں آ کر تربیت لیتے ہیں اور پاکستانی فوجی ترکی جا کر۔پاکستان میں کئی شاہراہیں کمال اتا ترک کے نام پر ہیں جبکہ ترکی کی اہم مصروف شاہراہ جناح جادیسی پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے نام پر ہے۔ویسے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ ان میں دراڑ افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران اس وقت آئی جب پاکستان طالبان کی جبکہ ترکی شمالی اتحاد کی حمایت کر رہا تھا۔ شمالی اتحاد میں زیادہ تر ازبک اور ترک نژاد افغان تھے جبکہ طالبان میں اکثریت پختون کی تھی جن کی پاکستان حمایت اور مدد کر رہا تھا۔ اور دونوں گروہ ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے۔اس کے علاوہ ترکی چین میں مسلم اویغوروں کی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کی حمایت کرتا ہے جبکہ پاکستان اپنے ہمسائے اور دیرینہ دوست چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور ای ٹی آئی ایم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ترکیہ اور پاکستان دنیا میں دو ایسے ممالک ہیں جن کے عوام اپنے ملک کے قیام یا پھر آزادی حاصل کرنے سے قبل ہی ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے آرہے ہیں ۔ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات قائد اعظم محمد علی جناح کی بھرپور کوششوں ہی کے نتیجے میں30 نومبر 1947 کو قائم ہوئے ۔ قائد اعظم دراصل جدید جمہوریہ ترکیہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے برپا کردہ انقلاب سے بڑے متاثر تھے اور وہ بھی پاکستان کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ایک جدید ماڈل ملک بنانا چاہتے تھے۔ ترکیہ ان گنے چنے ممالک میں شامل تھا جس نے سب سے پہلے کراچی میں اپنا سفارتخانہ کھولا اور اس کے فورا بعد اتاترک کے قریبی ساتھیوں میں سے مشہور رائٹر ، شاعر ، سیاستدان سفارتکار یحیی کمال بیاتلی نے چار مارچ 1948 کو قائد اعظم کو اسناد سفارت پیش کیں۔ اس موقع پر قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے عوام آپ کے ملک کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اب دونوں ممالک کو آزاد اور خودمختار ہونے کے ناتے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینا ہوگا۔دونوں ممالک کے درمیان75 سال قبل قائم ہونے والے سفارتی تعلقات وقت کے ساتھ مزید فروغ پا رہے ہیں اور دونوں ممالک تمام عالمی پلیٹ فارمز پر جس طرح ایک دوسرے کی مکمل حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں ایسی مثال دنیا کے دیگر ممالک میں ملنا ممکن نہیں ۔ ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ہمارا خصوصی رشتہ مشترکہ ثقافتی، مذہبی اور روحانی ورثے سے جڑا ہوا ہے جو وقت، جغرافیہ اور سیاست کی حدود سے ماورا ہے۔وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں۔ ترک صدر کا دورہ پاکستان بہت مفیدثابت ہوگا۔شہبازشریف نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان برادرانہ تعلقات قائم ہیں، ترک صدرکے دورہ سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں پر جائیں گے، طیب اردوان نے سیلاب کے مشکل وقت میں پاکستان کی مددکی۔ ترک صدر نے سیلاب کے دوران پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔پاکستانی سیکیورٹی فورسزدہشتگردی کیخلاف نبرد آزما ہیں، ترکیہ نے دہشتگردی کیخلاف پاکستانی عوام اورفورسز کی قربانیوں کوتسلیم کیا، ترکیہ نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرآوازاٹھائی۔ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ارادہ ہے۔طیب اردوغان نے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے لیے اپنی غیرمتزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔دنیا کے ہر فورم پر پاکستان کے ہمراہ فلسطین کے لیے آواز بلند کی، فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد ہمارا فرض ہے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مل کر کوششیں جاری رکھیں گے۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، قبرص کے معاملے پر پاکستانی حمایت ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔دونوں ممالک کے عوام کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کام کرتے رہیں گے، ترکی کا پاکستان کے تعلیمی شعبے میں اہم کردار ہو گا۔مفاہمتی یادداشتوں کو منصوبوں میں تبدیل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔پاکستان اور ترکی کے درمیان پائیدار شراکت داری کو مزید فروغ مل رہا ہے اور دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔غزہ پر ہمارا موقف بڑا واضح ہے، ترکی نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت کی، پاکستان قبرص کے معاملے پر ہمیشہ ترکی کے موقف کی حمایت کرتا رہے گا۔سیکیورٹی ذرائع سے میسر معلومات کے مطابق پاکستان ترکی سے ملجم پروجیکٹ کے تحت جنگی بحری جہاز خریدنے والا پہلا ملک ہے، جب کہ پاکستان ترکی سے آقنچی، بیرکتار اور ٹی بی ٹو جیسے ڈرونز بھی خرید چکا ہے۔ پاکستان، ترکی کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کان کا جوائنٹ وینچر بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور دونوں ممالک ٹی ایف ایکس ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی پاکستان میں اسمبلی لائن قائم کرنے پر متفق ہو چکے ہیں۔
