جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت

کامن ویلتھ ایشیا یوتھ الائنس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ نوجوانوں کو تبدیلی کی نوید قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی ترقی و پالیسی سازی میں نوجوانوں کا کردار بڑھانے کی ضرورت ہے، تعلیم کو فروغ دے کر نوجوانوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے، نوجوان پرامن اور خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں، چیلنجز سے نمٹنے میں دولت مشترکہ رکن ممالک کے درمیان بہترین شرکت داری کا پلیٹ فارم ہے، وزیراعظم یوتھ پروگرام نوجوانوں کی ترقی اور بہبود کا فلیگ شپ پروگرام ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو یہاں دولت مشترکہ کی ساٹھ فیصد آبادی کی عمر تےس سال سے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دولت مشترکہ ممالک کا مستقبل نوجوانوں پر منحصر ہے، ہمیں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنا ہوگا، نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی اور فنی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، نوجوان پرامن اور خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں۔ پاکستان کی ستر فیصد آبادی کی عمر تےس سال سے کم ہے، ہم اپنی اس صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں اور ہم اس کو ایک موقع میں تبدیل کر سکتے ہیں جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوان نہ صرف کل کے لیڈر ہیں بلکہ آج بھی تبدیلی کے محرک ہیں، جدید ٹیکنالوجی اور فنی تعلیم سے آراستہ کرنا ہو گا، قومی تعمیر کی کاوشوں میں انہیں بھرپور شرکت کا حامل بنانے کی ضرورت ہے، ہمیں نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ادراک ہے،نوجوان تبدیلی کی نوید ہیں، قومی ترقی و پالیسی سازی میں ان کا کردار بڑھانا ہے۔ قوم کی تعمیر وترقی میں کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے نوجوانوں کے لیے بہت سے مواقع فراہم کئے اور ان کے لئے کئی پروگرام شروع کئے، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان، بلوچستان اور دیگر دور دراز علاقوں میں بھی دانش سکول قائم کئے جا رہے ہیں پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے کم مالی وسائل کے حامل طلبا وطالبات کو وظائف کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ لیپ ٹاپ کی فراہمی انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جس سے طلبہ اپنی تعلیمی ضروریات پوری کر سکتے ہیں، پورے ملک کے طلبا وطالبات کو لیپ ٹاپ فراہم کئے جا رہے ہیں۔ پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے ذریعے 6لاکھ ہونہار اور مستحق طلبا کو لیپ ٹاپ دیے گئے ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق آج کے انٹرنیٹ میں اسمارٹ فون کا حصہ تقریبا ساٹھ فیصد ہے۔ آج انٹرنیٹ اور موبائل فونز ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئے ہیں اور اب کچھ ایسا لگتا ہے کہ شاید ساری قوم اور خصوصا نوجوان نسل نومو فوبیاکا شکار ہو رہی ہے۔دنیا کی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے تمام ممالک جہاں غربت میں کمی، صحت کی بہترین سہولیات، امن، اچھا انفراسٹرکچر، انصاف وغیرہ موجود ہیں، ان تمام ممالک نے تعلیم پر بہت زیادہ رقم خرچ کی ہے۔ جبکہ اس رپورٹ کا یہ انکشاف کہ 195 ممالک کی فہرست میں پاکستان 180 ویں نمبر پر موجود ہے، جہاں تعلیم پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ حقیقت میں یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے جسے ہمارے حکمران مسلسل نظر اندازکر رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جس رفتار سے ہمارے ملک میں آبادی بڑھ رہی ہے اور بچوں کی انرولمنٹ اسکولوں میں ہو رہی ہے، اس کے مطابق ہمیں ساٹھ سال کا عرصہ مزید درکار ہوگا کہ ہمارا کوئی بچہ بھی اسکول سے باہر نہ ہو اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری نوجوان نسل اتنی باشعور اور باصلاحیت ہے کہ وہ اپنے ملک کی ترقی میں کوئی اہم کردار ادا کرسکے؟ اس سوال کا جواب ہر نوجوان کی صحیح سمت کے تعین میں پنہاں ہے۔تعلیم کے حصول کیلیے موبائل فونز کا استعمال قطعی طور پر غیر مناسب نہیں ہے لیکن اس کا بے جا اور غلط استعمال ہماری نوجوان نسل کیلئے بہت سے مسائل پیدا کررہا ہے۔ حقیقت میں ایسے والدین بھی نئی نسل کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔نوموفوبیا کی شکار نوجوان نسل جس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے وہ بہت تیزی سے ایک ایسی سمت کی طرف جارہے ہیں جس کا نتیجہ صرف اور صرف تباہی و بربادی ہے۔ کوئی بھی ذی شعور انسان ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں ہوسکتا لیکن کسی بھی چیز کا غلط استعمال اسے بربادی کی طرف لے کر جاسکتا ہے۔ پاکستان باصلاحیت نوجوانوں سے مالا مال ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیںلیکن ہر وہ شے جو ان کو پرکشش لگتی ہے وہ فائدے اور نقصانات جانے بغیر اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بے دریغ استعمال نے جہاں نوجوانوں کو جسمانی طور پر کمزور اور سست اور کاہل بنا دیا ہے وہیں ذہنی صلاحیتوں پر بھی بری طرح اثرانداز ہو رہا ہے۔ ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیت میں بدلا جاسکتا ہے، مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری نسل کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں، جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور مضر اثرات معاشرے میں ناسور بن کر پھیل جاتے ہیں، لہذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سہولیات سے ہماری نوجوان نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور نشوونما کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین و تاکید کی جائے۔دور حاضر کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے والدین، کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچوں، خصوصا نوجوانوں کو ضرورت سے زیادہ موبائل فون نہ دیںان پر کڑی نظر رکھیں۔بل گیٹس نے اپنے بچوں کو ابتدائی عمر میں کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ سابق امریکی صدرباراک اوباما کی بیوی نے بھی اپنے بچے کو پندرہ سال کی عمر تک کمپیوٹر کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات،اس کی بڑھتی ہوئی مانگ اور استعمال کی وجہ سے دنیا اگرچہ ایک گلوبل وےلج بن چکی ہے لیکن انسانی صحت پر اس کے بڑھتے ہوئے مضر اثرات بھی تیزی سے سامنے آرہے ہیں، موبائل فون، انٹرنیٹ، ملٹی میڈیا اور ٹیلی ویژن کے بڑھتے ہوئے استعمال پر برطانیہ میں سامنے آنے والی حالیہ ریسرچ کے نتائج نے پوری دنیا کو چونکا کے رکھ دیا ہے۔تعلیم کا اصل مقصد فرد کی شخصیت کو نکھارنا اور اسے معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی میدانوں میں بہتر کارکردگی کے قابل بنانا ہے۔ تعلیم نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی میں بہتری لاتی ہے بلکہ یہ پورے معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ قوم ہی اپنے مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکتی ہے اور عالمی چیلنجز کا سامنا کر سکتی ہے۔آج کی دنیا میں معیاری تعلیم کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ جدید دنیا کے تقاضے بدل چکے ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ وہ نوجوان جو معیاری تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ نہ صرف اپنے لیے بہتر مستقبل بنا سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اگر تعلیم ترقی کی پہلی سیڑھی ہے تو ٹیکنالوجی اس سیڑھی پر تیزی سے آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے۔ آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی کے بغیر ترقی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گلوبل وےلج میں تبدیل کر دیا ہے اور فاصلے مٹانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والی ترقی اور نئی ایجادات کے بارے میں لمحوں میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔تعلیم کے میدان میں بھی ٹیکنالوجی نے انقلاب برپا کیا ہے۔ آن لائن لرننگ، فاصلاتی تعلیم، اور ای لرننگ جیسے جدید طریقے طلبہ کو دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں تک رسائی فراہم کر رہے ہیں۔ یہ وہ مواقع ہیں جن سے پہلے نسلیں محروم تھیں۔ آج کا طالب علم کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ، دنیا کے بہترین اساتذہ سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ٹیکنالوجی نے صرف تعلیم کے میدان میں ہی نہیں بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی ترقی کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ صحت، زراعت، صنعت، تجارت، اور دیگر شعبے ٹیکنالوجی کی ترقی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ جدید مشینیں اور سافٹ ویئرز انسان کی محنت کو کم کر رہے ہیں اور کارکردگی کو بڑھا رہے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کے حد سے زیادہ استعمال سے نوجوان اس حد تک عادی ہو جاتے ہیں کہ ایک دن کے انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے سے ان کی پریشانی اور اعصابی تناﺅ بڑھ جاتا ہے، جبکہ مطالعہ یعنی کتابوں کا مطالعہ ہر عمر میں ذہنی امراض سے بچاتا ہے ۔انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو اس کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا جانا چاہیئے۔جدید ترین دور میں انٹرنیٹ کا حلقہ اتنا وسیع تر ہو چکا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا انٹرنیٹ نے ایک متوازی دنیا قائم کر لی ہے۔نوجوان طالب علم اسے معلومات کے حصول کے لیے استعمال کریں اور یہ ان کے لیے نئے دوست ڈھونڈنے میں بھی معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے اس کے ذریعے آمدنی بھی ہو سکتی ہے ،کسی بھی شعبے میں تحقیقات کرنے والوں کے لیے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں اس کی مدد سے آپ نہ صرف اپنے کام بلکہ اپنی ذات کو بھی بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔تعلیم اور ٹیکنالوجی نہ صرف فرد کی ترقی میں اہم ہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کی ترقی کا ضامن ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند معاشرہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے اور ہم عالمی سطح پر ایک مقام حاصل کریں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہو گا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنا ہو گا۔