پیکا ترمیمی بل 2025 کی منظوری:چند گزارشات

قومی اسمبلی نے متنازع پیکا ترمیمی بل2025کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ ایوان زیریں میں ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا جبکہ صحافیوں اور اپوزیشن نے پیکا ترمیمی بل کے خلاف ایوان زیریں سے واک آئوٹ کیا۔سائبر کرائم قوانین میں تبدیلیوں کا تازہ ترین مسودہ جس کا عنوان الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ترمیمی بل 2025 تھا، کو ایک روز قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن کے ارکان نے بھی بل کی مخالفت کی۔علاوہ ازیں، صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں پیکا ترمیمی بل کی مذمت کی ۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی سمیت صحافیوں کے حقوق کے گروپوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں اس ترمیم کی مذمت کی گئی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی پیکا کی کسی بھی ایسی ترمیم کو مسترد کرتی ہے جو میڈیا اداروں کے ساتھ مشاورت کے بغیر منظور گئی۔کراچی پریس کلب کی جانب سے بھی پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ کراچی پریس کلب کے عہدیداروں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل انیس ہر شہری کے آزادی اظہار کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ آزادی اظہار کو دبانے کے بجائے، حکومت کو مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو حقیقی وقت میں درست خبریں رپورٹ کرنے کے لیے بااختیار بنانا چاہیے، اس طرح سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025  قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جس کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا بیس لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد چوبیس گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل نو اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم پندرہ سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر پانچ اراکین میں دسسالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر الزام تراشی اور کردار کشی ہوتی ہے لہذا اس کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ طے کیا ہے جب کہ پیکا ترمیمی ایکٹ ورکنگ جرنلسٹس کے خلاف نہیں بلکہ صحافیوں کے تحفظ کی جانب اہم قدم ہے۔وزیراطلاعات نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی اسپیس بڑھانے کے لیے لایا گیا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے متعلق قواعد موجود ہیں، ڈیجیٹل میڈیا پر الزام تراشی اور کردار کشی ہوتی ہے، جس کا کوئی نوٹس نہیں ہوتا، جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے اس لیے ڈیجیٹل میڈیا کا کوڈ آف کنڈکٹ طے کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور ڈیجیٹل میڈیا استعمال کرنے والوں کے پاس لاکھوں ڈالرز آتے ہیں، انہوں نے ایک متوازی اکنانومی بنادی ہے، جس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ڈیجیٹل میڈیا سے متعلق قواعد وقت کی اہم ضرورت ہیں، ڈیجیٹل میڈیا پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے، پیکا ترمیمی ایکٹ کا دائرہ کار ڈیجیٹل میڈیا تک محدود ہے، اس ایکٹ سے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا متاثر نہیں ہوگا، ترمیمی ایکٹ میں سوشل میڈیا کی تعریف وضع کی گئی ہے۔پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کی منظوری پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ کل مشاورت کے بعد احتجاجی تحریک کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔افضل بٹ کا کہنا تھا کہ حکومت نے اچانک بل لا کر منظور کروایا، صحافیوں سے وعدہ خلافی کی۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر نے کہا صحافتی تنظیموں کو بل پیش کرنے سے قبل مسودے پر مشاورت کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔مجوزہ ترمیم کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں میں تجاویز دے گی ۔یہ اتھارٹی تعلیم اور تحقیق سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی، اتھارٹی صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔مجوزہ ترامیم میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی نئی تعریف شامل کی گئی ہے اور سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر زکا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔پیکا ایکٹ کے سیکشن ٹو میں ایک نئی شق کی تجویز شامل ہے۔ مجوزہ ترمیم میں قانون میں بیان کردہ اصطلاحات کی تعریف شامل ہے۔مجوزہ ترمیم میں کی گئی تعریف میں ویب سائٹ، ایپلی کیشن یا مواصلاتی چینل کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ڈی آر پی اے کے پاس سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار ہو گا، اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو بلاک یا محدود کرنے کی مجاز ہو گی۔اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھ ممبران پر مشتمل ہو گی، وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین ارکان کا تقرر کرے گی۔ سیکریٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے ممبران ہوں گے۔اتھارٹی میں تمام فیصلے اکثریتی ارکان کی رضامندی سے کیے جائیں گے، چیئرپرسن کو کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا خصوصی اختیار ہوگا۔ چیئرپرسن کے فیصلے کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں کے اندر توثیق کرنا ہو گی۔تجویز کردہ ترامیم کے مطابق اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے رجسٹرڈ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔اتھارٹی کے پاس حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک یا ہٹانے کا حکم دینے کا اختیار ہوگا۔توہینِ عدالت، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی اور بلیک میلنگ سمیت سولہ اقسام کے مواد کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔مسودے کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف ساٹھ روز کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام دفاتر اور مقدمات ایجنسی کو منتقل ہو جائیں گے۔ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے اور بجٹ ایجنسی کو منتقل ہو جائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ممبران پر مشتمل ہو گی۔ پانچ ممبران کا تقرری وفاقی حکومت کرے گی۔مجوزہ ترامیم کے مطابق قومی اسمبلی سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حذف مواد سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر کارروائی ہوگی۔ اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ کی طرف سے حذف مواد نشر کرنے پر تین سال قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکے گا۔صحافیوں کیجوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم صحافی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر کی جا رہی ہیں۔ پیکا ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ اب تک شیئر نہیں کیا گیا۔فیک نیوز کے پھیلائو پر کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت صحافتی تنظیموں سے اس بل کی منظوری سے قبل مشاورت کرتی اور ان کی تجاویز کی روشنی میں بل لاتی تاکہ اعتراض کی گنجائش ہی باقی نہ رہتی۔