معاشی ترقی کا گیٹ وے


وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ گوادر پورٹ کے خلاف محاذ آرائی پاکستان دشمنی ہے، قتل و غارت کرنے والے بلوچستان کے عوام ہی نہیں پاکستان کے بھی دشمن ہیں،وزیراعظم نے کہا کہ گوادر ائرپورٹ نے گزشتہ روز  باقاعدہ کام شروع کردیا ہے، یہ خوش آئند بات ہے اور انتہائی اہم منصوبہ ہے، چین کی جانب سے مہیا کیے گئے 230   ملین ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ مکمل ہوا، گوادر ائرپورٹ پاکستان کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے، اگر یہ ائرپورٹ کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے تو بلوچستان اور پاکستان کی معیشت کو  فائدہ پہنچے گا۔جو لوگ اس وقت پاکستان سے دشمنی پر اترے ہوئے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، آج انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ قتل و غارت کرکے نہ صرف بلوچستان کے عوام کے خلاف جارہے ہیں بلکہ یہ پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ چین جیسے دوست ملک نے اپنے وسائل سے یہ ائرپورٹ تحفے میں دیا ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔کراچی کی بندرگاہیں پہلے ہی تنگ ہیں، وہاں آمد و رفت کا بے تحاشہ بوجھ ہے، ایسے میں گوادر پورٹ کے خلاف محاذ آرائی پاکستان دشمنی ہے۔بلاشبہ گوادر دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع اور دنیا کی جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ ساٹھ کلومیٹر طویل ساحلی پٹی والے شہرِ گوادر اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندر گاہ ہے اور اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔گوادر بندرگاہ کے بحیرہ عرب کے سرے پر خلیج فارس کے دھانہ پر واقع ہے۔گوادر بندرگاہ کلیدی مقام آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین بند افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں جو توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں کی قریب ترین گرم پانی کی بندرگاہ ہے۔گوادر بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے وہاں کا پانی گرم ہے جو دنیا کی بہت ہی کم بندرگاہوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے، گرم پانی والے سمندری حصے پر تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رہتے ہیں یوں تجارت اور مختلف اشیا کو براستہ سمندر ترسیل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، اس کے برعکس جو بندرگاہیں ٹھنڈے پانی پر واقع ہیں ان کے ذریعے تجارت کرنا مشکل ہوتاہے بلکہ مختلف موسموں میں تو ناممکن ہوجاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تومختلف تہذیبیں بھی ساحلی علاقے کے ساتھ ساتھ اپنا پڑائو ڈالتی رہی ہیں،ساحلی یا سمندری راستے زمانہ قدیم سے تجارتی راستے کے طو ر پر استعمال کیے جا رہے اور جدید تجارت نے سمندری راستے سے تجارت کی ضرورت میں مزیداضافہ کیا ہے،ان سب میں پاکستان کی اہمیت ایک گیٹ وے یا اہم تجارتی دروازے کی سی ہے۔ پاکستان کو بحر ہند میں اہم ہرمز آبنائے اور چھپے ہوئے خزانوں سے نوازا گیا ہے اور دو اسلامی ریاستوں کی سرحد سے ملحق ہے، افغانستان اور ایران کی ہمیشہ علاقائی سیاست میں ایک اہمیت اور مرکزی کردار رہا ہے۔ ایک متحرک اور معاشی مرکز کے طور پر ترقی کرتی گوادر بندرگاہ نے علاقائی اور ملحقہ طاقتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے توانائی کے وسائل تک رسائی کے لیے اپنا انفراسٹرکچر تیار کریں۔پاکستان گوادر بندرگاہ کی وجہ سے خطے میں سب ممالک سے زیادہ اہم جیوسٹریٹجک پوزیشن کا حامل ہے۔ جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر ساحلی تجارت جیسی تجارتی اور صنعتی سہولتوں سے اس خطے کے تمام ممالک افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، عمان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، قطر، چین میں معاشی اور صنعتیں ترقیوں کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر گوادر بندرگاہ کے ذریعے دنیا کے ممالک میں تجارتی لین دین شروع ہو جائے اور مختلف ممالک اپنی اپنی سکہ رائج الوقت میں لین دین شروع کریں گے تو پاکستان میں ڈالر کی قیمت کافی حد تک کم ہو جائے گی اور اس کے علاوہ بلوچستان جو پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے، میں بہت سارے مقامی افراد کو روز گار مل جائے گا۔ نہ صرف پاکستان کے صوبہ بلوچستان بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کو بھی بہترین مواقع فراہم ہوں گے۔اس بندرگاہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک مستفید ہو سکتے ہیں جن میں چین سرفہرست ہے، چین کے دفاعی، تجارتی، علاقائی، مفادات کے لیے گوادر بندرگاہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ چین نے اب تک 198  ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے کوسٹل ہائی وے تعمیر کی ہے جو گوادر بندرگاہ کو کراچی سے ملاتی ہے۔ چین اس بندرگاہ کو سب سے زیادہ اہم اس لیے بھی سمجھتا ہے کیونکہ چین کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بھی بندرگاہ تاحال موجود نہیں ہے جو تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رکھے۔گوادر بندرگاہ کی ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ اگر امریکا آبنائے ملاکہ کو بند بھی کر دے توپاکستان اور چین کے لیے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لیے کھلا رہے گا۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے لیے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کر سکتا ہے۔پاکستان اس بندرگاہ کو بنانا اپنی سب سے بڑی ضرورت سمجھتا ہے لہذا تمام خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے گوادر توانائی راہداری بنانا پاکستان کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ مختلف قسم کے حادثات و دہشت گردانہ کارروائی سے اس بندرگاہ پر جاری کام اور عاملین کی حفاظت کے لیے مختلف فورسز بالخصوص فوج کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔گوادر سے شروع ہونے والے تجارتی راستوں کا مقصد خطے بھر میں رابطوں کے اہم ذرائع میں توسیع ہے۔ یہ تجارتی راستے گوادر کو ایک ممکنہ انٹرجنکشن بنا دیتے ہیں کیونکہ اندازہ ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو افریقہ، یورپ اور ایشیا پر مبنی تین براعظموں کی  بلین آبادی کو جوڑ سکے گا۔ سی پیک کے تحت گوادر کو خطے میں تجارتی شراکت داروں سے ملانے کے لیے مجوزہ ترسیلی نظام علاقائی سطح پر نیشنل ہائی وے اور موٹروے کے نظام میں ضم ہوتا ہے۔ گوکہ ان منصوبوں کو اکثر سی پیک رابطوں کے تحت یکجا کیا جاتا ہے، لیکن اس کے مالی اخراجات متعدد علاقائی اور دیگر علاقوں میں موجود تعلق داروں کی جانب سے اٹھائے گئے ہیں۔وسطی ایشیا میں چاروں اطراف سے خشکی میں گھرے ہوئے شراکت داروں کے لیے گوادر ایک ایسے مرکز کی تصویر ہے جہاں زمینی اور سمندری تجارتی راستے آپس میں ملتے ہیں۔ مارچ  میں پاکستان نے ازبکستان کے ہمراہ تجارت و سفر کے لائحہ عمل پر مبنی دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں گوادر اور کراچی میں واقع پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی بھی شامل ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کو وسطی ایشیا سے ملانے کیلئے ماضی میں کی گئی بات چیت کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔  اس بات چیت کے دوران  میں ازبکستان کی حکومت نے ترمذ سے براستہ افغانستان، پاکستان میں پشاور تک ایک ریل گاڑی چلانے کی تجویز بھی دی تھی۔ یہ سی پیک کی مین لائن ون ریلوے سے منسلک ہوگی۔ پاکستانی کمپنیاں ازبکستان کے فری اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کا ارادہ بھی رکھتی ہیں جو انہیں ازبکستان کی اعلی معیار کی روئی، قابل مزدور اور  ملین نفوس پر مشتمل وسطی ایشیائی ریاستوں سے فری ٹریڈ سہولیات کے تحت تجارت کا موقع فراہم کرے گی۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے رابطے قائم کرنے کے سلسلے کے طور پر چین اور پاکستان نے افغانستان کو بھی سی پیک کا حصہ بنانے کی تجویز دی ہے۔ پاکستان، سفری راہداری کے طور پر افغانستان کیلئے تجارت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس تجارتی سفر میں آمدورفت کے لیے دو مقام ہیں؛ ایک بلوچستان میں چمن بارڈر پر ہے اور دوسرا کے پی کے میں طورخم پر ہے۔گوادر کی تزویراتی حیثیت کے سبب پاکستان اس حیثیت میں ہے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقائی رابطے کا مرکز بنے اور متعدد تزویراتی شراکت داروں کے ہمراہ رابطے قائم کرے۔چونکہ اس ساری ترقی کا براہِ راست فائدہ پاکستان کو پہنچے گا جو ہمارے دشمن قطعا برداشت نہیں کر سکتے لہذا انکی ہر وقت یہ کوشش رہی ہے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے کبھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ذریعے صورتحال کو غیر یقینی بنایا گیا تو کبھی بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے کیلئے وہاں شورش کو ہوا دی جاتی رہی۔ گوادر بندرگاہ تکمیل نہ صرف ہماری اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی بلکہ قومی وحدت اور یکجہتی کی علامت بھی ہو گی'علاوہ ازیں اس سے روز گار کے ذرائع بھی وسیع ہوں گے۔

۔