وزیر صحت راجہ اعظم خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے جوان ، نوجوان ، بچے کسی بھی شعبے میں ملک کے دیگر صوبوں کے نوجوانوں سے کم نہیں ہے اگر مواقع میسر آجائیں تو ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔ محکمہ سیاحت کے زیر اہتمام دو روزہ فروزن فیریٹیل ونٹر فیسٹول کے افتتاح سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میری زندگی کا یہ پہلا موقع ہے کہ میں آئس ہاکی دیکھ رہا ہوں اور انتہائی خوشی ہوئی کہ ہمارے بچوں میں اتنی اچھی صلاحیت موجود ہیں ان شا اللہ آئندہ آنے والے وقتوں میں ہم اس کھیل میں ہمارے کھلاڑیوں کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر لے کر جانے کی کوشش کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ کسی بھی میدان میں گلگت بلتستان کے نوجوان ملک کے دیگر حصوںکے نوجوانوں سے پیچھے نہیں بس سہولتوں کی فراہمی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ کھلاڑی کسی ملک بھی کے سفیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے کھلاڑی کسی سے کم نہیں ' ان کھلاڑیوں میں کھیلوں کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے لیکن کھلاڑیوں کو مقامی سطح کی سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہے،مقامی طور پر بھی کھیلوں کا انعقاد لازمی ہے 'مقابلوں کے انعقاد کا مقصد مقامی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ شہریوں کو مثبت اور تفریحی سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی سے انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملتا رہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی کھیلوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مقابلوں کا انعقاد کیا جانا چاہیے ۔سہولتوں کی فراہمی سے کھلاڑیوں میں مزید کھیلنے کا شوق بڑھے گا اور کھلاڑیوں میں بے روزگاری بھی ختم ہوگی۔کھیلوں کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا زندہ قوموں کی نشانی ہے اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے کھیلوں کا فروغ انتہائی ضروری ہے۔ حکومت صوبے میں کھیل کودجیسی صحت مندانہ سرگرمیوں کی ترقی کیلئے اپنے وسائل کے مطابق موثر کوششیں کرے تاکہ نوجوانوں کو تفریح کی سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں۔ کھیل کود کی سرگرمیاں کسی بھی معاشرے کی زندہ دلی کی عکاس ہوتی ہیں اور جس معاشرے میں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ صوبہ بھر میں کھیلوں کیلئے سہولیات سے لیس انفراسٹرکچر پر بھی توجہ دینے ' نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں کی جانب مائل کرنے ، مقامی کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاں کے نوجوان کھلاڑی اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے بل بوتے پر نہ صرف علاقے بلکہ صوبے اور ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کرسکتے ہیں' نئی نسل کو انتہا پسندی اور عدم برداشت سے نکالنے میں کھیلوں کا فروغ انتہائی ضروری ہے، کھیلوں کے فنڈز کا شفاف اور منصفانہ استعمال بھی یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ حقیقی ٹیلنٹ کو سامنے لایا جا سکے اور صوبے میں کھیلوں کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔انتہائی افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو اپنا ہنر نکھارنے کے مواقع نہیں مل رہے بلکہ صوبے کی مجموعی کھیلوں کی ترقی بھی متاثر ہو رہی ہے۔گلگت بلتستان میں کھیلوں کی اکیڈیمز اور اسٹیڈیم کی تعمیر سے نہ صرف مقامی کھلاڑیوں کو بہتر سہولیات ملیں گی بلکہ بین الاقوامی ٹیموں کے لیے بھی یہ مقام پرکشش بن سکتا ہے۔ صوبے کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے لانے کے لیے کھیلوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے، کھیل نہ صرف نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں بلکہ وہ صوبے کی مثبت تصویر پیش کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر صوبے میں کھیلوں کی مناسب سرپرستی کی جائے تو یہاںکے نوجوان عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔سہولتیں نہ ہونے کے باعث ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی کب تک محض اپنی ذاتی کوششوں اور شوق کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہیں گے؟دنیا بھر میں اسپورٹس کے شعبے کو کسی بھی دیگر تعلیمی و پروفیشنل شعبے کی طرح اہمیت دی جاتی ہے۔ حکومتیں نہ صرف اسپورٹس کے مختلف شعبوں کے لیے گرانٹس کا انتظام کرتی ہیں اور بہترین تربیت یافتہ افراد کی زیرِ نگرانی ٹریننگ اور کوچنگ کی بہترین سہولتیں فراہم کرتی ہیں، بلکہ اس بات کو بھی ممکن بناتی ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے ایسے مقابلوں میں بہترین کھلاڑیوں کی شرکت ہو، جو نمایاں نام اور مقام بنا سکیں۔ حکومت کی زیرِ نگرانی ٹریننگ اکیڈمیوں کا قیام، تربیت دینے کے لیے کوچز اور انسٹرکٹرز کے علاوہ بین الاقوامی مقابلوں اور گیمز میں حصہ لینے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔گلگت بلتستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ مگرکئی ایسے نوجوان ہیں جو سہولتوں کی عدم فراہمی، وسائل کی کمیابی اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے سبب گمنامی کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔تعلیم، صحت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کی عدم فراہمی اور دیگر شعبہ جات میں تو عوام کو حکومت اور متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی کا سامنا ہے ہی، اسپورٹس بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے جس میں حکومت کی دلچسپی محض بورڈز بنانے اور ان میں من چاہے افراد کی تعیناتی تک ہی محدود نظر آتی ہے۔ پاکستان میں اسِ ضمن میں بہت کم کام دیکھنے میں آتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی لیول پر طالبِ علموں کے لیے محض اسپورٹس کوٹہ ہی کافی نہیں، بلکہ اسپورٹس کی باقاعدہ تربیت کے لیے ایسے ٹریننگ کیمپس اور ادارے بنانے کی بھی ضرورت ہے جہاں سے نوجوان استفادہ کر سکیں۔ہمیں اسپورٹس کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک روشن خیال، پرعزم، اور مثبت معاشرے کے طور پر دنیا کے سامنے لانا ہے، جو اسپورٹس کی اہمیت سے واقف ہے اور بلا تخصیص جنس و مذہب ٹیلنٹ کو پروان چڑھاتا ہے۔ ہمیں ایسے پالیسی سازوں کی ضرورت ہے جو اسپورٹس کی اہمیت کو سمجھیں اور ہمارے نوجوانوں میں موجود ٹیلنٹ کو ابھاریں، سینچیں اور آگے بڑھائیں ' اگر حکومتی سرپرستی نہ ملی، تو کئی ستارے گمنامی کی نذر ہوتے رہیں گے۔پولو ایک ایسا کھیل ہے جسے بادشاہوں کا کھیل کہا جاتا ہے۔ برصغیر و ہند کی تاریخ یہ بتاتی ہے پولو کھیلنا یہاں کے شاہی خاندان کے افراد کا شوق ہوا کرتا تھا۔گلگت بلتستان میں باقاعدگی سے پولو کھیلی جاتی ہے اور وادی شندور میں ہونے والے پولو مقابلے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے شائقین پاکستان آتے ہیں۔پولو میںکھلاڑیوں کو خود بھی محنت کی ضرورت ہے اور چونکہ پولو کے لیے جہاں بہت پیسہ درکار ہے وہاں اس میں مہارت بڑھانے کے لیے بہت وقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اسے الیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کھیل صرف وقت کا ضیاع ہیں یا پھر فارغ وقت گزارنے کا ذریعہ ہیں ۔ یہ لوگ بچوں کو صرف تعلیم پر زور دینے کیلئے مجبور کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ کھیلوں کی اہمیت اور ان کے بے شمار فوائد سے انجان ہیں حالانکہ کھیل انسان کی شخصیت کو سنوارنے میں بے حد اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ کھیل کود سے انسان میں فرماں برداری ، تحمل مزاجی،صبر، انتظام اور قوتِ برداشت بڑھتی ہے ۔ انسان اتفاقِ رائے سے کام کرنا اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ جاتا ہے ۔ اور اس میں دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے اسے شکست دینے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ ہر کھیل کے اپنے قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جو کہ کھلاڑی کو نظم و ضبط کا پابند بناتے ہیں ۔کھیل کے دوران جب کھلاڑی ناکام ہو جائے تو وہ ہمت نہیں ہارتا اور نہ ہی غصہ یا ناراض ہوتا ہے کیونکہ ایک کھلاڑی بخوبی جانتا ہے کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے ۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ کھیل روح کی غذا بھی ہے ۔ کھیل سائنسی طرزسے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کھیل سے انسان کا دماغ تیز ہوتا ہے اور صحیح کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔جسم کے اعضا طاقتور اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ۔ انسان کی طبیعت بھی ہشاش بشاش رہتی ہے ۔ کھیلنے سے انسان کا جسم بالکل فِٹ رہتا ہے اور بیماریاں بھی دور رہتی ہیں ۔ کیونکہ کھیل ورزش کی ہی ایک قسم ہے اور بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں تو اس معاشرے کے اسپتال ویران ہوتے ہیں اور ایسے معاشرے کی ترقی اور خوشحالی یقینی ہوتی ہے ۔ کھیلوں کے ذریعے قومیں کافی حد تک اپنی ایک شناخت بناتی اور اپنے ملک کا نام روشن کرتی ہیں ۔ اس لئے کھیلوں کی اہمیت نہ صرف طلبا اور جوانوں میں نا قابلِ تردید ہے بلکہ قوموں کی عظمت اور شناخت بھی کھیلوں سے منسلک ہے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کھیل نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ملک کی خوشحالی اور ترقی میں بھی ایک خاص حیثیت رکھتے ہیں ۔کھیل وقت کا ضیاع نہیں بلکہ یہ وہ وقت ہے جو انسان کی مصروفیت بھری زندگی کو خوشگوار بناتا ہے ۔کھیل حوصلہ اور باہمی اعتماد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ فوری فیصلہ لینے میں بھی مدد کرتے ہیں اور ہمارے سوچنے کے عمل کو بہتر بناتے ہیں۔یہ کردار سازی، قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور اہداف کے تعین کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں بھی مدد کرتے ہیں'اخلاقیات، نظم و ضبط، ذمہ داری سیکھنے اور باہمی اعتماد کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
