راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 190 ملین پائونڈ کے ریفرنس میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے چودہ سال قید اور ان کی اہلیہ مجرمہ بشری بی بی کو سات سال قید کی سزا سنا دی، جس کے بعد بشری بی بی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے عمران خان پر دس لاکھ اور بشری بی بی پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، جرمانے کی عدم ادائیگی پر عمران خان کو مزید چھے ماہ جب کہ بشری بی بی کو تین ماہ کی قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔احتساب عدالت نے القادر یونیورسٹی کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔قانونی ماہر اشتر اوصاف کے مطابق عدالت نے کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں، کابینہ ارکان سے بھی حقائق چھپائے گئے، عمران خان پر بطور وزیر اعظم اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات بھی تھے، انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے ٹرسٹ بنایا، شہزاد اکبر ان کے معاون خصوصی تھے، برطانوی ادارے کو بھی گمراہ کیا گیا، یہ سارا معاملہ براہ راست سابق وزیر اعظم خود دیکھ رہے تھے۔ماہر قانون راجا خالد کا کہنا تھا یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، برطانوی کرائم ایجنسی کی جانب سے قومی خزانے میں جمع کروانے کے لیے دیے جانے والے 190 ملین پائونڈ کی خطیر رقم بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض کے جرمانے کی ادائیگی کے لیے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع کروائی گئی، اور بدلے میں مالی فوائد حاصل کیے، عمران خان نے بطور وزیر اعظم کابینہ سے بھی جھوٹ بولا، حقائق چھپائے، بند لفافے میں تفصیلات رکھ کر کابینہ کی منظوری لی گئی۔جبکہ بانی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ شرمناک فیصلہ سامنے آیا ہے، نواز شریف کے بیٹے نے کئی ارب کی پراپرٹی خریدی لیکن ان سے کوئی سوال نہیں ہوا، یہ جائیداد ملک ریاض کو بیچی گئی، آپ ایون فیلڈ بنائیں، منی لانڈرنگ کریں، لندن میں جائیداد بنالیں، کیس معاف کروا لیں۔فیصلہ سنانے سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا دو سال سے زیادتیاں ہورہی ہیں، اگر انصاف پر مبنی فیصلہ ہوا تو بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی بری ہوں گے۔پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلہ جو بھی ہوگا ہمیں کوئی اچھی امید نہیں، ہم اس کو اعلی عدالتوں میں بھی لڑیں گے، بانی پیچھے نہیں ہٹے اپنے اصولی موقف ہر قائم ہیں۔190 ملین پائونڈ کیس کا سنایا جانے والا فیصلہ تین بار پہلے موخر کیا گیا۔ عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف یہ ریفرنس ٹرائل ایک سال کے عرصے میں مکمل ہوا، نیب ریفرنس کا ٹرائل گزشتہ سال اٹھارہ دسمبر کو مکمل ہوا تھا، کیس کا فیصلہ ابتدائی طور پر 23 دسمبر کو سنایا جانا تھا۔بعد ازاں عدالت نے چھٹیوں اور کورس کے باعث سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کا فیصلہ چھے جنوری کو سنایا جائے گا۔تاہم چھے جنوری کو بھی فیصلہ نہیں سنایا جاسکا اور یہ ایک بار پھر موخر کردیا گیا تھا۔تیرہ جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید نو بجے سے کمرہ عدالت میں موجود تھے تاہم عمران خان، بشری بی بی اور ان کے وکلا کمرہ عدالت میں نہیں پہنچے۔14 جنوری کو احتساب عدالت کی جانب سے تحریری حکمنامہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا مگر بانی پی ٹی آئی نے کمرہ عدالت آنے سے انکار کیا۔احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید کی جانب سے تحریر کیے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ دو گھنٹے انتظار کے باوجود ملزمان عدالت میں پیش نہ ہوئے، عمران خان نے فیصلہ سننے کے لیے کمرہ عدالت آنے سے انکار کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ریفرنس کا فیصلہ اب سترہ جنوری کو سنایا جائیگا، آئندہ تاریخ پر ملزمان اور متعلقہ افراد بر وقت حاضری یقینی بنائیں۔ایک سو نوے ملین پائونڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے پچاس ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹائون لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے 140 ملین پائونڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔عمران خان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، 140 ملین پائونڈ تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئے تھے اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹائون کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالی ریفرنس تھا جس کو یکم دسمبر 2023 کو احتساب عدالت میں دائر کیا گیا، ملزمان پر 27 فروری 2024 کوفرد جرم عائد ہوئی تھی،نیب نے ٹرائل کے دوران پینتیس گواہان کے بیانات ریکارڈ کروائے، عمران خان کے وکلا کی جانب سے گواہان پر جرح بھی کی گئی۔وکلائے صفائی نے 38 سماعتوں کے بعد جرح مکمل کی، ملزمان کو 342 کے بیانات مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت نے پندرہ مواقع فراہم کیے، ملزمان نے اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا۔بشری بی بی کی ضمانت قبل از گرفتاری ٹرائل احتساب عدالت جبکہ بانی پی ٹی آئی کی ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ نے منظور کی تھی جبکہ ملزمان کی درخواست بریت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو فیصلے کا اختیار دیا تھا۔ملزمان کی جانب سے سولہ گواہان کو عدالتی گواہ کے طور پر طلب کرنے کی درخواست عدالت نے مسترد کی تھی،نیب کی جانب سے چھے رکنی پراسیکیوشن ٹیم نے کیس ٹرائل میں حصہ لیا۔ریفرنس کے کل آٹھ ملزمان تھے جن میں چھے بیرون ملک فرار ہیں، صرف بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی نے ٹرائل کا سامنا کیا،چھے جنوری 2024 کو عدالت نے فرحت شہزاد گوگی، زلفی بخاری اور شہزاد اکبر سمیت چھے ملزمان کو اشتہاری قرار دیا تھا۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ کے مطابق برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ پیسہ ضبط کرکے پاکستان کو دیا کہ یہ پاکستان کا پیسہ ہے لیکن اس پر سب سے بڑا ڈاکا ڈالا گیا، کابینہ نے بند لفافہ منظور کرکے یہ پیسہ اسی شخص کے حوالے کردیا جس سے یہ ضبط کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آپ ملک سے باہر ایک جرم کریں اور وہ پیسہ آپ سے ضبط کرلیا جائے اور حکومت پاکستان کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے دیا جائے اور حکومت نے یہ پیسے عوام کو دینے کے بجائے بانی پی ٹی آئی سمیت دو سے تین کرداروں نے طے کیا کہ ہم نے پانچ پانچ کیرٹ کی انگوٹھیاں لینی ہیں، زمان پارک میں 25 کروڑ کا گھر نیا بنانا ہے۔ میں نے جب سے سیاست شروع کی ہے تب سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عمران خان کا ذریعہ آمدن کیا ہے، ان کے پاس کون سی آمدنی آرہی تھی جس سے یہ پچیس کروڑ کا گھر بنایا گیا یا فرحت شہزادی کو لے کر دی گئی، یہ دو سو کنال کی زمین کس نے دی اور کہاں سے آئی، دراصل یہ اس چیز کی رشوت تھی جو این سی اے نے پیسہ پاکستان کو دیا لیکن عمران خان اور ان کی اہلیہ نے یہ پیسہ ان ہی کے حوالے کردیا جس سے ضبط کیا گیا تھا، یہ تقریبا اسّی سے نوے ارب کا گھپلا ہے۔حالیہ سزا سے پہلے اسلام آباد کی احتساب عدالت سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو توشہ خانہ کیس کے تحائف کو مالیت سے کم قیمت پر خریدنے کے الزام میں چودہ چودہ سال قید کی سزائیں سناچکی ہے ۔عمران خان اور بشری بی بی پر ایک ارب ستاون کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا اور عمران خان کو عدالت کی جانب سے دس سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔قبل ازیں ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو خریدے گئے سرکاری تحائف سے ہونے والی آمدن اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔عمران خان اور بشری بی بی نے جیولری سیٹ نوے لاکھ روپے کی رقم کی ادائیگی کے عوض وصول کیا۔قیمت کا اندازہ لگانے والے پرائویٹ فرد سے لگوائی گئی جیولری سیٹ کی قیمت انتہائی کم تھی۔ جیولری سیٹ کی اصل قیمت لگانے کے لیے دبئی کے ماہر سے بھی رابطہ کیا گیا۔ نیب نے عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف گراف جیولری سیٹ کا ریفرنس فائل کیا تھا جس میں جیولری سیٹ میں نیکلس، ایئر رنگز، بریسلٹ اور ایک انگوٹھی شامل تھی۔نیب کے مطابق جیولری سیٹ کی کل مالیت ایک ارب ستاون کروڑ چالیس لاکھ روپے تھی جس کی عمران خان اور بشری بی بی نے نوے لاکھ رقم ادا کی تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ اس سزا کو معطل کرتی ہے یا برقرار رکھتی ہے ۔ہماری سیاست کی یہ ریت رہی ہے کہ سیاستدان ہمیشہ اپنے خلاف سنائی جانے والی سزائوں کو انتقامی کارروائی سے تعبیر کرتے ہیں اور پھر ڈیل ہونے کی صورت میں یہ سزائیں معطل بھی کر دی جاتی ہیں ۔
