معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے کہا ہے تمباکو کی مصنوعات معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں تمباکو مصنوعات کے خلاف اسمبلی سے منظور ہونے والے ضابطے پر عملدرآمد کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔تمباکو مصنوعات معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اس لعنت پر فوری قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں اس کے برے نتائج مرتب ہو سکتے ہیں انہوں نے سماجی تنظیم سیڈو کی تمباکو مصنوعات کے خلاف کاوشوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی سے تمباکو مصنوعات کے خلاف بل کی منظوری ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ان شااللہ اس بل پر عملدرآمد کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔کسی بھی ملک کے نوجوان اس کا مستقبل ہوتے ہیں۔ان کی بہترین انداز میں تعلیم و تربیت ہی اس ملک کی ترقی کے ضامن ہوتی ہے ۔پاکستان کی غالب آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔یہ نوجوان ہی اس ملک کا مستقبل ہیں۔بدقسمتی سے ان نوجوانوں میں معاشرتی بگاڑ کے ذرائع وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئی برائیاں جنم لے رہی ہیں ۔ان برائیوں میں سے ایک سگریٹ کی لت ہے ۔یہ ایک ایسی برائی ہے جو نئی نہیں ، مگر گزرتے سالوں کے ساتھ اس کے اثرات میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہ آ سکی۔یہ بارہ سے پندرہ سال کے بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔اور اکثر سمارٹ لگنے کی خواہش میں اس عمر میں جو نوجوان سگریٹ شروع کرتے ہیں وہ پھر اس سے جان نہیں چھڑا پاتے۔کئی تو آگے بڑھ کر چرس اور دیگر نشہ آور ادویات استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔سگریٹ کے دھوئیں میں ایسے کئی کیمیائی مادے ہوتے ہیں جن کا تعلق کینسر سے ثابت ہو چکا ہے۔یہ کیمیائی مادے آہستہ آہستہ انسان کے جسم میں سرایت کرتے چلے جاتے ہیں اور آخر ایک دن پھیپھڑوں ، منہ یا حلق کے سرطان کا باعث بنتے ہیں۔سرطا ن سے اگر بندہ بچ بھی جائے تو بھی اس کی سانس کی نالیوں میں موجود خلیات سگریٹ کے دھوئیں سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ نالیوں کی صفائی کا نظام آہستہ آہستہ ناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے اور بندہ دائمی کھانسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ساتھ ہی یہ دھواں دمے کا بھی باعث بنتا ہے۔سگریٹ نوشی ہماری جسمانی صحت کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری آب و ہوا کو بھی آلودہ کر رہی ہے، اس کے دھوئیں میں موجود زہریلے کیمیائی مادے اسے بھی متاثر کرتے ہیں جو اس لت سے دور رہتا ہے۔ جونقصانات سگریٹ نوش کو ہوتے ہیں وہ تو ہوتے ہی ہیں ، ساتھ ہی جوافراد اس کے ساتھ بیٹھے ہوں ، سگریٹ کا دھواں ان کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اس طرح سگریٹ نوش کے گھر والے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔خاص طور سے بچوں کے لیے یہ انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور طرح طرح کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر تمباکو نوشی ایک دن میں تقریبا پانچ سو افراد کو موت کی وادی میں دھکیل رہی ہے۔اس لت سے بچے، بوڑھے اور جوان کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔یہ عفریت نہ صرف کینسر، بلکہ دل کی بیماری اور فالج کا بھی باعث بن رہا ہے، اگر بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں سالانہ اسی لاکھ افراد اس کی وجہ سے موت کا شکار بنتے ہیں۔عوامی مقامات پر تمباکو نوشی باقاعدہ ایک جرم ہے۔قانون میں اسکی خلاف ورزی پر سزائیں اور ایک لاکھ روپے تک کے جرمانے بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی عوامی مقام پر یا پبلک ٹرانسپورٹ میں اسکی خلاف ورزی کرے تو پولیس اسکو وہاں سے نکال باہر کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔اسی طرح کھلے عام سگریٹ کی فروخت بھی ممنوع ہے۔اسکول یا ہسپتال کے تقریبا پچاس میٹر حدود میں اسکے استعمال پر پابندی عائد ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمباکو نوشی سے ہونے والی اموات کو اور اسکی دیگر اقسام کی ہلاکت خیزیوں سے نہ صرف خود بچا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے انسانوں کو بھی بچایا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے اگر اسکی روک تھام میں ہم اپنا فرض ادا کریں۔اپنی ذمہ داریوں اور اس کے نقصانات کو پہنچانیں اور اس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے پھیلائو کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد لوگ تمباکونوشی کرتے ہیں جن میں سے اسی فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں تمباکو نوش لوگوں کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس اضافے کا بڑا سبب ان ممالک کا نوجوان طبقہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور چائنہ کے ساٹھ فیصد مرد حضرات سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ نوش آبادی میں بارہ فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ روزانہ ایک لاکھ بچے سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں۔سگریٹ، پائپ، سگار، حقہ، شیشہ اور تمباکو کو کھانے والا استعمال جیسا کہ پان، چھالیہ، گٹکا وغیرہ اور تمباکو سونگھنا جیسی تمام عادات خطرناک ہوتی ہیں۔ تمباکو میں موجود نکوٹین دماغ میں موجود کیمیکل مثلا ڈوپامائن اور اینڈروفائن کی سطح بڑھادیتا ہے جس کی وجہ سے نشہ کی عادت پڑ جاتی ہے۔ یہ کیمیکل خوشی یا مستی کی حسیات کو بیدار کردیتے ہیں جس سے جسم کو تمباکو مصنوعات کی طلب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ان عادات کو ترک کرنا کسی بھی فرد کے لئے بہت مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ جسم میں نکوٹین کی کمی سے طبیعت میں پریشانی، اضطراب، بے چینی، ڈپریشن کے ساتھ ذہنی توجہ کا فقدان ہوجاتا ہے۔ تمباکونوشی بہت آہستگی کے ساتھ جسم کے مختلف اعضا کو نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے اور ایک فرد کو کئی سالوں تک اپنے اندر ہونے والے نقصانات واضح نہیں ہوپاتے اور جب یہ نقصانات واضح ہونا شروع ہوتے ہیں تب تک جسم تمباکو کے نشے کا مکمل طور پر عادی ہوچکا ہوتا ہے اور اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔تمباکو اور اس کے دھوئیں میں تقریبا چار ہزار کیمیکل موجود ہوتے ہیں جن میں اڑھائی سو کے قریب انسانی صحت کے لئے نہایت نقصان دہ پائے گئے ہیں اور پچاس سے زائد ایسے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ تمباکو کے دھوئیں سے خون کی نالیاں سخت ہوجاتی ہیں جس سے ہارٹ اٹیک اور سٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس دھوئیں میں موجود کاربن مونو آکسائیڈ گیس ہوتی ہے جو خون میں آکسیجن کی کمی کا باعث ہوتا ہے۔تمباکو نوشی کی وجہ سے دل کا دورہ ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ عام افراد کی نسبت سگریٹ نوش کو دل کی بیماری ہونے کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔ تمباکو کا دھواں خون کی شریانوں کو سخت کرنے کا باعث بنتا ہے جس سے دل کے پٹھوں کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے اور دل کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ سگریٹ نوشی سے دماغ کے سٹروک جس میں دماغ کو خون کی فراہمی کم ہوجاتی ہے اور ہیمرج جس میں دماغ میں موجود خون کی شریانیں پھٹ جاتی ہیں، کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا تقریبا نوے فیصد لوگ موجودہ یا سابقہ تمباکو نوش ہوتے ہیں۔ جتنے زیادہ آپ سگریٹ پیتے ہیں اتنا ہی پھیپھڑوں کا کینسر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سگریٹ پینے والی خواتین میں بھی بریسٹ کینسر ہونے کا احتمال بہت بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح تمباکو نوشی منہ گلا خوراک کی نالی کا کینسر، معدہ کا کینسر ، جگر کا کینسر ،مثانہ کا کینسر،لبلبہ اور گردے کا کینسرکا باعث بھی بنتا ہے۔ دل کی بیس فیصد بیماریاں سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ دماغ کی کچھ نفسیاتی اور دیگر بیماریوں کا تعلق بھی تمباکو نوشی سے ہے۔ تمباکو چبانے اور سونگھنے والے افراد کو منہ، مسوڑھوں اور گلے کا کینسر ہونے کا بہت امکان ہوتا ہے۔ تمباکونوش وقت سے پہلے مرجاتے ہیں، جس سے جہاں ان کے خاندان اپنوں کی قربت سے محروم ہوجاتے ہیں وہیں وہ ان کی آمدنی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح تمباکونوش افراد کے خاندان کے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور ملکی طور پر بھی صحت کے اخراجات میں اضافہ ہونے سے ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔حکومتی اعداد وشمار کے مطابق حکومت جتنا ٹیکس تمباکو کی مصنوعات سے حاصل کرتی ہے اتنا ہی اس کے نقصانات کی وجہ سے صحت کی ضروریات پر خرچ کردیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تمباکو کے نقصانات کے حوالے سے زیادہ آگہی موجود نہیں ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ انسداد تمباکو نوشی کی مہم کو جارحانہ طور پر چلایا جائے جس میں حکومت، عوام، میڈیا، بزنس کمیونٹی، سکول کالج یونیورسٹی کے طلبا بھرپور حصہ لیں۔ سکول کے نصاب میں تمباکو نوشی کے نقصانات اور دیگر سماجی برائیوں کے حوالے سے مضامین شامل کرنے چاہئیں تاکہ یہ بچے بچپن سے ہی ان اہم معلومات سے آگاہ ہوں اور وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور محلے داروں کو مجبور کرسکیں کہ وہ یہ عادات ترک کریں۔ اس طرح یہ بچے بڑے ہوکر معاشرے میں اہم صحت مندانہ تبدیلی لانے کا باعث بھی بن جائیں گے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ شہری مقامات پر تمباکونوشی کے قانون کو سختی سے نافذ کروائے، تمباکونوشی کی مصنوعات پر مزید ٹیکس لگائے اور تمباکو نوشی کو ترک کرنے کے اداروں کا قیام عمل میں لائے ۔
