وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اقتصادی اعشاریئے واضح کر رہے ہیں 2025 پاکستان کی معاشی ترقی کا سال ثابت ہوگا، معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے، ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تومعاشی استحکام بھی ہوگا۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ مہنگائی 4.1 فیصد پر آگئی ہے، تمام ارکان نے 2024 کے دوران ملک میں معاشی استحکام کے لیے اہم کردار ادا کیا۔شہباز شریف نے کہا کہ پانچ ماہ کے دوران ترسیلات زر میں چونتےس فیصد اضافہ ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے بڑھ کر بارہ ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، یہ ترقی اور خوشحالی کا سفر تب ہوگا جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا، معاشی استحکام سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، چاول کی برآمد سے ملک کو چار ارب ڈالر کا خطیر زرمبادلہ حاصل ہوا، این ایل سی کے ذریعے روس تک سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے ساتھ کئی شعبوں میں معاہدے پروان چڑھ رہے ہیں، حکومت نے اے ڈی آرز کے ذریعے بینکوں سے بہتر ارب روپے وصول کیے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے، دہشت گردی کا سر کچلنے کے لیے سب کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ ملک میں جب امن ہوگا تو ترقی ہوگی، ملکی ترقی کے لیے امن کا قیام ناگزیر ہے، دہشت گردی کا سرکچلے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ نو ماہ میں اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، امن وامان کا معاملہ ایک چیلنج بن چکا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ چینی، تیل کی سمگلنگ میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، یہ کامیابیاں ٹیم مینجمنٹ کے مرہون منت ہیں۔فتنہ الخوارج کا مکمل خاتمہ کرےں گے‘ دشمن گھات لگائے بےٹھا ہے‘ڈےجےٹل محاذ پر پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے‘ دوست نما دشمن باہر بےٹھ کر مہم چلا رہے ہےں جنہےں روکنا ہو گا۔ اسلام آباد پر یلغار چڑھائی ہوئی، سوشل میڈیا پر جھوٹ کا طوفان اٹھایا گیا، ڈیجیٹل محاذ پرپاکستان کے خلاف زہراگلا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر حقائق کو مسخ کرکے پروپیگنڈا کیاجاتا ہے، ڈیجیٹل دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سرحد پار سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں، سرحدپارسے ہونے والی کارروائیوں کا منہ توڑجواب دیاہے اور دیں گے، پاکستان کے اندردشمنوں کے سہولت کار موجود ہیں، دشمن کے سہولت کارپاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے سازشوں میں مصروف ہیں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دشمن ہمیں نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیوں میں مصروف ہے، ہمیں معلوم ہے کہ ملک دشمنوں کو کون کون سے ممالک سہولت فراہم کر رہے ہیں لیکن ہمارا قومی مفاد سپریم ہے، صوبوں کے ساتھ مل کرامن امان کی صورت حال کوبہتربنایا جائے گا۔کچھ عرصہ قبل فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا تھا کہ حکومت نے حال ہی میں ایک اہم مراسلے کے ذریعے ٹی ٹی پی کو فتنہ الخوارج کے نام سے نوٹیفائی کیا ہے جس کے بعد اس دہشتگرد تنظیم کو اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے گا کیونکہ یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا دین اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نوٹیفکیشن میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے تمام سرکاری محکموں کو یہ بھی احکامات دیے کہ تمام سرکاری دستاویزات میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے منسلک افراد کے لیے مفتی یا حافظ جیسے القابات نہیں استعمال کیے جائیں بلکہ ان کے ناموں سے پہلے لفظ خوارج کا استعمال کیا جائے۔اس تبدیلی کا مقصد اس تنظیم ٹی ٹی پی کی اصل فطرت اور نظریات کی عکاسی کرنا ہے۔بعض روایات ہیں کہ خوارج کی ابتدا دورِ نبوی ہی میں ہو گئی تھی۔ خوارج کا طریقہ جنگ گوریلا وار کی طرز پر تھا یعنی وہ چھاپا مار حملے کرتے تھے۔ وہ کسی علاقے میں تیزی سے یلغار کرتے، غیر محفوظ شہروں پر اچانک حملہ کر دیتے، اس کے بعد وہ اسی تیزی سے واپس چلے جاتے تاکہ سرکاری فوج کے تعاقب سے بچ نکلیں۔جب اموی عہد کے اواخر میں مرکزی حکومت میں انحطاط آیا تو خوارج نے دوبارہ غارت گری شروع کر دی۔ خوارج سے اتفاق کرنے والے اور ان کی نسل کے افراد اب بھی مراکش، یمن اور مصر میں پائے جاتے ہیں ۔حال ہی میں القاعدہ، داعش اور طالبان کے بعض گروہ بھی خارجی اصولوں پر اور ان کے عمل کو درست سمجھتے ہوئے ان ہی کی طرح اپنی گوریلا وار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ خوارج ہی کے اصول پر تمام مسلمان دنیا کی حکومتوں کو کافر اور ان کے خلاف کارروائی کو درست سمجھتے ہیں۔فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کے کمانڈر رحیم اللہ عرف شاہد عمر کی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہلاکت پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے کیونکہ وہ سرحد پار دہشتگرد حملوں میں شدت لانے میں بڑا کردار ادا کر رہا تھا۔خوارجی شاہد عمر کی ہلاکت، جو غالبا اندرونی اختلافات یا ایک کروڑ انعامی رقم کے نتیجے میں ہوئی، فتنہ الخوارج کی اندرونی ٹھوٹ پھوٹ کو ظاہر کرتی ہے جو لالچ اور طاقت کی مسلسل کشمکش سے جنم لے رہی ہے۔افغان طالبان کے فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کو پناہ دینے کے انکار بھی کھلے جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں، اور خوارجی شاہد عمر کی افغان سرزمین پر موجودگی افغان طالبان کی دہشتگردی کی حمایت اور شراکت داری کو بے نقاب کرتی ہے۔فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کو پناہ دے کر افغان طالبان خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والی قوت میں تبدیل ہو چکے ہیں، جو نہ صرف پاکستان کی سلامتی بلکہ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔افغان طالبان کا فتنہ الخوارج اور دیگر دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے سے انکار دہشتگرد اتحادیوں کو ترجیح دینے کے ان کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔فتنہ الخوارج کے خطرے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو افغان طالبان کی جانب سے مسلسل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو دہشتگردی کے خلاف کارروائی کرنے میں ان کی عدم دلچسپی اور اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔اگر افغان طالبان فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات، بشمول سرحد پار کارروائیاں کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔افغان طالبان کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں دہشتگردی کو جاری رکھنے کی ضمانت دیتی ہیں جس سے علاقائی عدم استحکام اور عالمی بے اعتمادی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔صوبہ کنڑ میں ٹی ٹی پی خوارج کے ارکان کا قتل اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کے افغانستان میں اڈے ہیں اور ان کے کمانڈر بغیر کسی پابندی کے آزادانہ گھوم رہے ہیں۔عمر خالد خراسانی اور ملا فضل اللہ جیسے ٹی ٹی پی رہنماﺅں کی ماضی میں ہلاکتیں افغان سرزمین پر ان کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی بار بار ہلاکتیں اس حقیقت کو بھی ثابت کرتی ہیں کہ دہشتگرد گروپ خاص طور پر ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیمیں پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہیں۔افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشتگردوں کی بار بار ہلاکتوں سے افغان عبوری حکومت کے دعوے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں جو مسلسل ان کے وجود سے انکار کرتی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ ترین رپورٹ میں بھی واضح طور پر افغانستان میں علاقائی اور بین الاقوامی دہشتگرد گروپوں ٹی ٹی پی، داعش اور القاعدہ کی موجودگی اور محفوظ پناہ گاہوں اور افغان عبوری حکومت کی جانب سے ان کی حمایت کی تصدیق کی گئی ہے۔ رپورٹ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں پاکستان کے بار بار موقف کی توثیق کرتی ہے۔ پاکستان خاص طور پر ٹی ٹی پی اور داعش کے دہشتگرد حملوں کی وجہ سے متاثر ہے جو کھلے عام افغانستان کی سرزمین سے کام کرتے ہیں۔ افغان حکومت کو علاقائی اور عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے دہشتگرد گروہوں کے خلاف حقیقی معنوں میں کارروائی کرنی چاہےے۔نور ولی کی اقتدار کی ہوس ایک بار پھر عیاں ہو گئی ہے جو اختلافات کو قتل و غارت اور خونریزی کے ذریعے حل کر رہا ہے۔ دھوکہ دہی اور اندرونی لڑائی نے ٹی ٹی پی کی بکھرتی ہوئی قیادت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی میں محسود اور باجوڑ کی قیادت کے حصول کے لیے تنازع اس واقعے کی بنیادی وجہ بنی ہے۔افغان سرزمین ان کی بدامنی کا میدان جنگ بنی ہوئی ہے، جو خطے کے امن کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ تحریک خوارج پاکستان ٹی ٹی پی جو دین کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہےں، اس کا اصل میں دین کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں، یہ مجرموں کا ایک ٹولہ ہے جو صرف اقتدار اور طاقت کے لیے سرگرم ہے۔
