موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے مسائل

گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام گلاف ٹو پراجیکٹ کے تحت دو روزہ صوبائی سطح کی کمیونیکیشن اینڈ کوآرڈینیشن ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات دنیا بھر کی طرح ہمارے خطے پر بھی گہرے اثرات ڈال رہے ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام اداروں اور کمیونٹی کے درمیان موثر رابطہ اور شراکت داری ناگزیر ہے۔ گلاف ٹو پراجیکٹ اس ضمن میں ایک اہم قدم ہے، جو نہ صرف ماحولیاتی تحفظ بلکہ کمیونٹی کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے گلاف ٹو پراجیکٹ پر عملدرآمد کے ذمہ دار اداروں سے تلقین کی کہ وہ مقامی کمیونٹی کے ساتھ ملکر گلاف پراجیکٹ کے منصوبوں کی پائیداری اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں تاکہ اس منصوبے کے دور رس نتائج برآمد ہوسکے۔ انہوں نے شرکا کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے جدید طریقوں، کمیونیکیشن کے جدید وسائل، اور کوآرڈینیشن کی اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کی زد میں آنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ کاربن اخراج کے لحاظ سے پاکستان کا کاربن اخراج دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان دنیا میں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دو بڑے موسمی نظاموں کا خمیازہ بھگتتا ہے۔ ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی کا باعث بن سکتا ہے، جیسے ہیٹ ویو، اور دوسرا مون سون کی بارش لاتا ہے۔موسمیاتی واقعات، ماحولیاتی انحطاط اور فضائی آلودگی، یہ تینوں عوامل مل کر 2050 تک پاکستان کے جی ڈی پی میں بیس فیصد تک کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات لوگوں کے طرزِ رہائش اور ان کے ذرائع معاش پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں حصے دار نہیں ہیں، نہ ہی ان کا ان تبدیلیوں میں کوئی براہ راست عمل دخل ہے۔ اس کے باوجود ان ممالک کو ان تبدیلیوں کے اثرات و نتائج کو تسلیم کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ پاکستان اس وقت کر رہا ہے۔ پاکستان پچھلے کئی برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید موسمی حالات، جیسے سیلاب، خشک سالی، زلزلے اور طوفان جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں موسم کے مزاج تبدیل ہوئے ہیں جن کے باعث بن موسم برساتیں، مون سون کی بارشوں میں طغیانی و سیلاب کے باعث لاکھوں لوگوں کا متاثر ہونا، فصلوں کو نقصان اور آئندہ آنے والے زرعی موسم کیلیے بیجوں کا ٹھیک وقت پر نہ لگنا اور فصلوں کا وقت پر تیار نہ ہوکر زمینداروں اور کسانوں کا نقصان شامل ہے۔ پورا نظام موسم کے تبدیل ہونے سے درہم برہم ہوا ہے اور ان تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے ٹھیک نہ کرنے کا خمیازہ پورا خطہ بھگت رہا ہے۔ملک میں کئی سال سے سورج اپنے پورے جوش کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کے باعث گرمی کی لہر میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہیٹ ویو ایک ایسی کیفیت ہے جس میں تیز جھلسا دینے والی دھوپ کے ساتھ حبس زدہ ماحول بن جائے اور ہوا کی جگہ لو چلنے لگے۔ گرمی کی اس شدید لہر کے دوران بعض اضلاع میں درج حرارت اب باون ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کرچکا ۔ یہ کیفیت صحت کیلیے اتنی خطرناک اور ناقابلِ برداشت ہے کہ اس سے انسانی صحت پر جان لیوا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سے ہی شہریوں کو خبردار کیا تھا۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے جو ہر سال مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ گرین ہائوس گیسز کیا ہیں؟ یہ زمین کی فضا میں موجود ایسی گیسز ہیں جو زمین کی سطح کا درجہ حرارت بڑھاتی ہیں، جو چیز انہیں دیگر گیسوں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ وہ اس ہیٹ ریڈی ایشن کو جذب کر لیتی ہیں جو سیارہ خارج کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں گرین ہائوس اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ انسانوں کی جانب سے ایسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جن سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور یہی بڑھتا ہوا درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ ہے۔انسان کی جانب سے تیل، گیس اور کوئلے کا بڑھتا ہوا استعمال اور جنگلات کا تیزی سے کاٹا جانا ایسے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے گرین ہائوس گیسوں کی مقدار بڑھ رہی ہے اور زمین کی سطح کا درجہ حرارت بھی۔ یہ درجہ حرارت کس رفتار سے بڑھ رہا ہے اس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ اب تک دنیا کا مجموعی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے۔ پاکستان سمیت کئی خطوں میں تیز اور بے موسم کی بارشیں، ریکارڈ برف باری، ہوا میں نمی کے تناسب کا معمول سے زیادہ بڑھنا یا کم ہونا، کہیں زیادہ سردی پڑنا یا زیادہ گرمی پڑنا یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز کو کم کرنے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کیلیے پاکستان کو ایک کثیرالجہتی نکتہ نظر اپنانا ہوگا، جو فوری اور طویل مدتی خطرات کے اثر کو زائل کرے۔ قلیل مدت میں، شجر کاری کے علاوہ صاف اور پائیدار توانائی کے ذرائع کو اپنانے سے ہی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے اگر ان کا سامنا کرنے کیلئے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو کل قدرتی آفات کا سامنا کرنا ہوگا۔ کلائمیٹ چینج کے باعث فوسل فیول انڈسٹریز میں مرحلہ وار کمی نہ ہونے اور کاربن کا اخراج روکنے میں عزم کی کمی، قحط، خشک سالی، سیلاب، سطح سمندر میں اضافے، ماحولیاتی عدم مساوات، غذائی عدم تحفظ، ورلڈ فوڈ مارکیٹ کے  بحران، خوراک اور خصوصا زرعی پیداوار میں کمی، آبادیوں کی نقل مکانی، پانی اور توانائی کی سپلائی چین متاثر ہونے اور  گلیشیئرز پگھلنے سے دنیا کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ متوقع اثرات پہلے سے زیادہ شدید ہیں اور دنیا تیزی سے خطرناک نتائج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ غریب اور کمزور ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث عالمی امن اور سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ غریب یا کم آمدنی والے ممالک تو شاید اس حساسیت کو فی الحال نہ سمجھ سکیں لیکن اپنے عوام کی سیکیورٹی، فلاح و بہبود اور وسائل کے درست استعمال کو ترجیح بنانے والے ممالک کیلئے یہ سب سے بڑا مسئلہ  بن کر سامنے آیا ہے۔ ان عوامل سے اقوام متحدہ خود بھی فکر مند ہے۔ اسی لئے ہر روز دنیا کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ تمام ممالک کوسوچ و بچار کر کے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس عالمی رہنمائوں کو وارننگ دے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں کے دوران ماحولیاتی مساوات نظرانداز نہیں ہونی چاہیے۔ ماہرین نے بھی رائے دی ہے کہ  ماحولیاتی انصاف یا موافقت کا مسئلہ حل کئے بغیر ہماری معیشتیں، غذائی تحفظ اور عالمی استحکام خطرے میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ  کلائمیٹ فنانس ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کلائمیٹ چینج کو عالمی امن کے لئے نیا خطرہ قرار دیتے ہوئے فوری اقدام کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ امریکی شہر نیو یارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں ورلڈ پیس ڈے پر انتونیو گوتریس نے کہا ماحولیاتی ایمرجنسی آج امن کیلئے نیا چیلنج ہے جو ہماری سلامتی، ذریعہ معاش اور زندگی کیلئے بڑا خطرہ ہے، امن کا مطلب صرف لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کرہ ارض کا مسئلہ ہے۔اس ادارے نے خبردار کیا ہے کہ گرمی کی شدت اور بن موسم بارشوں نے پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے اور اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھ سکتی ہے اور اگر یہ بڑھی تو پاکستان جو پہلے ہی غذائی تحفظ کے لحاظ سے شدید خطرے کا شکار ہے، مزید مسائل میں گھر جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے برسوں میں اہم غذائی اور نقد آور فصلوں جیسے گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی کر چکا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمیں بے حد محتاط ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب ہم نہیں ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ جانے کی وجہ سے ان سے بچنا ہم پر لازم ہو چکا ہے۔ اس کے لئے عالمی سطح پر اقدامات کے لئے تو واویلا یقینا جاری رکھنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر فرد کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لئے اپنے حصے کا کردار بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔