گلگت بلتستان کے گورنر سید مہدی شاہ نے کے پی این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکردو روڈ میں ٹنلز کی تعمیر کیلئے این ایچ اے کے چیئرمین سے ملاقات کررہے ہیں بہت ہوگیا اب مزید ہم لاشیں نہیں اٹھا سکتے ہیں‘ ٹنلز کی عدم تعمیر کی وجہ سے اب تک سینکڑوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں‘کئی گھر اجڑ گئے‘ اب سنجیدہ لینا ہوگا‘ ہمارے دشمن ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں‘ اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوسکتی ہے۔جب میں وزیراعلی تھا تو میں نے سکردو روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ باہر کی کسی کمپنی کو دلانے کی کوششیں کیں تاکہ روڈ عالمی معیار کے مطابق بنے مگر ٹھیکہ ملکی کمپنی کو ملا پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ٹنلز کی عدم تعمیر کی وجہ سے بڑی تعداد میں مسافر لقمہ اجل بن گئے جاں بحق ہونے والوں میں پاک فوج کے جوان بھی شامل ہیں مزید جانیں ضائع ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف میں خود ایف آئی آر درج کرواﺅںگا ۔گلگت بلتستان میں ایک ہی نعرہ ہے کہ ٹنلز بناﺅ زندگی بچاﺅ شاہراہ بلتستان کو محفوظ نہ بنایا گیا تو یہاں بہت بڑا حادثہ پیش آسکتا ہے پھر ہم سب کی سبکی ہوسکتی ہے اگر خدانخواستہ حساس ادارے کا کوئی ہائی پروفائل حادثے کی زد میں آگیا تو دشمن ملک کیا کچھ نہیں کہے گا اس سے بہتر ہے کہ جنگی بنیادوں پر ٹنلز کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے بصورت دیگر بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ٹنلز ضرور بنیں گی اور بننی چاہئیں ٹنلز کی تعمیر کا مطالبہ عوام کا بنیادی حق ہے عوام چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی کو محفوظ بنایا جائے عوام کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ مطمئن رہیں این ایچ اے کے چیئرمین اور دیگر ذمہ داران سے اس بابت ملاقات متوقع ہے ان شا اللہ ان کے سامنے ڈٹ کر عوامی مطالبہ پیش کریں گے۔گلگت سے سکردو تک بی ایس ایف کے جوانوں کا لانگ مارچ اکےس دسمبر 2024 کو شروع کیا گیا، جس کا مقصد گلگت سکردو روڈ کی ناقص تعمیر کے خلاف آواز بلند کرنا اور ایف ڈبلیو او کو اس اہم شاہراہ کو بہتر انداز میں تعمیر کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔یہ شاہراہ خطے کے عوام کے لیے زندگی کی رگ ہے، لیکن اس کی ناقص تعمیر کی وجہ سے آئے روز حادثات پیش آتے ہیں، جن میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ اس لانگ مارچ میں شامل بی ایس ایف کے جوان نہ صرف اپنے حقوق بلکہ پورے علاقے کے عوام کی زندگی کے تحفظ کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔مارچ کو گلگت بلتستان کے دیگر تنظیموں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔لوگ ےہ پوچھ رہے ہےں کہ اگر ٹینڈر میں ٹنلز کا ذکر نہی تھا تو کرنل صاحب نے سکردو میں بریفنگ میں پانچ ٹنلز کا وعدہ کیوں کیا ‘کیوں عوام کو سبز باغ دکھائے گئے‘کیوں جھوٹے وعدے کیے گیا؟اگر ٹنل کا ذکر ہی نہیں تھا تو اسی وقت عوام کو اگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔اب چار سال بعد یاد آرہا ہے کہ ٹنل نہیں بنانی اگر ذکر نہیں تھا تو کچھ جگہوں پر ٹنلز کا باقائدہ نشان کیوں لگائے گئے تھے ۔ٹنل کے بغیر سکردو روڈ نامکمل ہے چاہے این ایچ اے بنائے یا ایف ڈبلیواو سکردو روڈ پر ٹنلز ضرور بننا چاہیں۔ٹنلز بناﺅ زندگی بچاﺅ مہم پر نامور عالم دین علامہ شیخ محمد حسن جعفری اپوزیشن لیڈر کاظم میثم انجمن تاجران کے صدر غلام حسین اطہر اسلامی تحریک کے سینئر رہنما شیخ احمد ترابی بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ ہےں ۔شیخ حسن جعفری نے کہا ہے کہ طلبہ تنظیم کی جانب سے ٹنلز کی تعمیر کیلئے شروع کی جانے والی آگاہی مہم خوش آئند ہے یہ ژندہ قوموں کی نشانی ہے اگر ٹنلز کی عدم تعمیر کی صورت میں حالات خراب ہوئے تو ذمہ داری اداروں اور حکومت پر عائد ہوگی اب تک شاہراہ بلتستان پر سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں کئی گھر اجڑ گئے ہیں پھر بھی ٹنلز بنانے میں غیر معمولی تاخیر سمجھ سے باہر ہے شاہراہ بلتستان پر ٹنلز ‘حفاظتی شیڈز بنانے کے ساتھ ساتھ شغرتھنگ شاہراہ کی فوری تعمیر کو بھی یقینی بنایا جائے بصورت دیگر یہاں سے خطرناک تحریک اٹھ سکتی ہے اپوزیشن لیڈر کاظم میثم نے کہاکہ گلگت بلتستان کے نوجوانان باشعور ہوچکے ہیں جب یوتھ باشعور ہوتو قومی حقوق پر کوئی ڈاکہ نہیں مار سکتا ہماری امیدیں یوتھ سے وابستہ ہیں یوتھ تمام میدانوں میں آگے بڑھے تاکہ روایتی فرسودہ نظام کا خاتمہ ہوسکے حقوق پر شب خون مارنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہوگی اس کے بغیر یہ ہماری جان نہیں چھوڑیں گے ‘ شاہراہ بلتستان موت کا کنواں بن گئی ہے اس شاہراہ پر ٹنلز کی تعمیر اور شغرتھنگ شاہراہ کی تعمیر ناگزیر ہے جب تک ٹنلز نہیں بنیں گی اور شغرتھنگ شاہراہ تعمیر نہیں ہوگی تب تک انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا رہے گا ‘جب تک سب متحد نہیں ہوںگے تب تک ہم اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہوںگے‘ حقوق مشترکہ جدو جہد کے بغیر نہیں مل سکتے ہیں بلتستانی قوم جب تک متحد نہیں ہوگی تب تک ہم اپنے حقوق کے حصول میں کامیاب نہیں ہوںگے۔سکردو روڈ ایک اہم شاہراہ ہے جسے بلتستان کی شہہ رگ کہا جاتا ہے، لیکن اس کی تعمیر کے دوران معیار کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ اگرچہ سڑک کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے، مگر اس میں حفاظتی تدابیر اور معیار کی کمی ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔ ملوپہ جیسی جگہوں پر ٹنلز یا حفاظتی فلائی اوورز کی ضرورت ہے، لیکن پورے روڈ کی سیفٹی کو صرف یہاں تک محدود کرنا کافی نہیں۔ سکردو روڈ کے دیگر حصوں میں بھی خطرات موجود ہیں، جیسے تنگ اور اندھے موڑ، پہاڑوں سے گرنے والے پتھر اور قدرتی آفات، جن کے لیے سیفٹی والز پر توجہ دینا ضروری ہے۔اگر صرف ملوپہ میں حفاظتی اقدامات کیے جائیں اور باقی حصوں کو نظرانداز کیا جائے تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔ سڑک کو مکمل طور پر عالمی معیار اور محفوظ بنانا چاہیے، جہاں حفاظتی دیواریں، فلائی اوورز اور دیگر ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اس طرح سکردو روڈ نہ صرف خوبصورت بلکہ ایک محفوظ اور معیار کے مطابق راستہ بن سکے گا، جو مقامی لوگوں اور سیاحوں دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔جی بی کی قانون ساز اسمبلی کے سابق سپیکر حاجی فدا محمد ناشاد کہہ چکے ہےں کہ ہم چاہتے ہیں سکردو روڈ کی تعمیر ڈی جی ایف ڈبلیو کے اعلان کے مطابق کی جائے، ہمیں بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ گلگت سکردو روڈ پر پانچ بڑے ٹنل بنائے جائیں گے مگر اب یہ ٹنل بنتے نظر نہیں آ رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں بڑی تشویش پیدا ہو رہی ہے، ایف ڈبلیو او ٹنلز کی تعمیر کا اپنا وعدہ پورا کرے۔ڈائریکٹر جنرل ایف ڈبلیو او لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے بریفنگ دیتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ سکردو روڈ کو جدید طرز پر بنایا جائے گا اور پانچ بڑے ٹنل بنائے جائیں گے مگر ٹنلز پر تاحال کام شروع نہیں کیا گیا جس کے باعث عوام تشویش میں مبتلا ہو رہے ہیں، ٹنلز پر کام ہونے کی صورت میں کئی کلومیٹر کی مسافت کم ہو گی، ٹنلز کی عدم تعمیر سے سکردو روڈ کی تعمیر کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ٹنلز کی تعمیر کیلئے ایف ڈبلیو او اور ایک چینی کمپنی کے مابین باقاعدہ معاہدہ بھی ہوا تھا اس کے باوجود بھی کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔وزےر اعلی نے وزےر مواصلات سے گفتگو میں کہا تھاکہ مانسہرہ سے سکردو تک موٹر وے تعمیر کرنے کی بات خوش آئند ہے۔ہمیں امید ہے کہ آپ مانسہرہ سے سکردو تک موٹروے کی تعمیر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ گلگت بلتستان میں روڈ انفرسٹرکچر کی بہتری سے گلگت بلتستان میں غربت کا خاتمہ ہوگا۔تتہ پانی کے مقام پر بھی اکثر شاہراہ بند رہتی ہے جس کی وجہ سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے متبادل شاہراہ کی تعمیر کا کام شروع کیا ہے۔اس متبادل شاہراہ کو شاہراہ قراقرم سے ملانے کیلئے سٹیل پل درکار ہے۔ اس شاہراہ کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹیل پل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ تتہ پانی کے متبادل روڈ کو فعال کیا جاسکے۔ گلگت چترال ایکسپریس وے پر کام جاری ہے۔ اس اہم شاہراہ پر کام کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان کے روڈ انفرسٹرکچر کے چند میگا منصوبے پی ایس ڈی پی سے منظور ہوچکے ہیں ان منصوبوں کا ٹینڈر ہونے کے بعد کام شروع ہوچکا ہے۔ان منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے درکار فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ شاہراہ قراقرم میں حالیہ بس حادثے سمیت کئی دلخراش ٹریفک حادثات ہوئے ہیں جن میں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ شاہراہ قراقرم کو ٹریفک حادثات سے محفوظ رکھنے کیلئے موٹر وے پولیس تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے ےقےن دلاےا تھاکہ یہاں کے روڈ انفراسٹرکچر کو مثالی بنائیں گے۔ مانسہرہ سکردو موٹر وے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ روڈ انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے بعد ایک کروڑ سیاح گلگت بلتستان آسکتے ہیں۔گلگت بلتستان کو اپنے آنے والے نسلوں کیلئے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات کو روکا جائے۔ بائی لاز اور منصوبہ بندی کیلئے صوبائی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔سوال ےہ ہے کہ اگر روڈ پر ٹنلز تعمےر کرنے کا وعدہ کےا گےا تھا پھر کونسی وجوہات ہےں کہ ٹنلز تعمےر نہےں کی گئےں حالانکہ ان کی عدم تعمےر حادثات کا موجب بن رہی ہےں اور قےمتی جانوں کا ضےاع ہو رہا ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو احتجاج پر مجبور کرنے کی بجائے ٹنلز کی تعمےر کو ترجےحی بنےادوں پر ےقےنی بناےا جائے۔
