وزیراعلی گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق نے نمل یونیورسٹی میں زیر تعلیم گلگت بلتستان اسٹوڈنٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ سالانہ کنونشن میں کہا ہے کہ نوجوان کل کا مستقبل اور ہمارا سرمایہ ہیں ، ملک کی سب سے بڑی آبادی نوجوانوں کی ہے اسلئے ضروری ہے کہ نوجوان نسل اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے ، دنیا میں بڑے سے بڑا کارنامہ نوجوانوں کی بدولت انجام پایا ہے ، نوجوان حصول علم کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا بلند حوصلے سے مقابلہ کریں ، ترجمان نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان اپنے طلبا و طالبات اور نوجوان کے مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہے ، موجودہ انفارمیشن وار فئیر کے دور میں سچائی تک پہنچنے تک رکاوٹوں کا سامنا ہے اسلئے نوجوان نسل تحقیق و جستجو کے سہارے سچائی تک پہنچنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ گلگت بلتستان میں دیرپا امن کیلئے ہمیں ہم آہنگی اور برداشت سے کام لینا ہے ، عثمان وزیر ، ثمینہ بیگ اور ننھا شیراز ہماری نوجوان نسل کیلئے موٹیویشن ہیں ، ہماری صلاحیتیں کسی طور متنازعہ نہیں ہیں اسلئے اپنے استعداد کو زنگ آلود بنانے کی بجائے مثبت سوچ اور جہد مسلسل سے کام لیں۔ کل کا روشن پاکستان اور باوقار گلگت بلتستان آپ ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ نوجوان ہی کسی ملک کسی ملک کا مستقبل اور قیمتی سرمایہ ہیں 'کسی بھی قوم کی تاریخ کو بدلنے اور ایک نیا رخ و راستہ دینے والے ہمیشہ نوجوان ہی ہوتے ہیں تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کے زینے عبور کیے ہیں تو مرکزی کردار نوجوان ہی رہا ہے تاریخ کے اوراق اس بات کو بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں جب بھی کسی مظلوم نے پکار دی ہے غیرت مند بن کر اس مجبور و مظلوم اور مقبوض کی آواز پر لبیک کہنے والا اور دشمن کے چنگل سے چھڑانے والا یہی نوجوان تھا ۔نوجوان نسل قوم کا مستقبل ہوتی ہے اور کسی بھی ریاست کے تابناک مستقبل کا دارومدار اس کی نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔ نوجوانوں نے ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے۔ ایک عظیم اور آئیڈیل ریاست اپنے نوجوانوں کے شب و روز کیلئے فکرمند ہوتی ہے کہ انہی نوجوانوں نے ستاروں پر کمند ڈالنے کا فریضہ سرانجام دینا ہوتا ہے۔ریاست پاکستان کے عظیم نوجوانوں نے بھی مستقبل میں اس ملک کا سرمایہ حیات بننا ہے۔ اس لیے ان نوجوانوں کی اخلاقی، علمی، مذہبی، فکری آبیاری انتہائی لازمی عنصر ہے۔ اگر ہم نوجوان نسل کو فکری انتشار اور اخلاقی بے راہ روی سے محفوظ نہ رکھ سکے تو پورے معاشرے کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ نوجوانوں کی اہمیت اور ان کا رول اقوام متحدہ نے بھی محسوس کیا اور اس تعلق سے 1985میں پہلی بار نوجوانانِ عالم کا بین الاقوامی دن قرار دیا گیا۔اس کے بعد اکیسویں صدی کے آغاز سے نوجوانوں کے رول اور ان کے مسائل میں باقاعدگی سے دلچسپی لینا شروع کیا۔ 1998میں ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں جنرل اسمبلی نے ہر سال بارہ اگست کو نوجوانوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا اور اس کا نفاذ 2000 میں ہوا۔ تب سے لے کر آج تک اقوامِ متحدہ ہر سال 12اگست کے دن کو نوجوانوں کے رول اور ان کے مسائل کے حوالے سے کوئی نہ کوئی عنوان مقرر کرتا ہے اور اس دن نوجوانوں کے تئیں مختلف مسائل اور ایشوز کو مخاطب کیا جاتا ہے۔موجودہ دور میں نوجوانوں کا تحفظ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور آج نوجوان نسل اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہی ہے اس لیے نوجوانوں کو تعلیم کے تعلق سے ہمہ گیر انداز سے بیدار کیا جائے۔قوتوں، صلاحیتوں، حوصلوں، امنگوں، جفا کشی، بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی، فتح و شکست، ترقی وتنزلی اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، معاشرتی ہو یا ملکی، سائنسی ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی۔ غرض کہ سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا رول نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔ روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا، عرب بہاریہ ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب غرض کہ ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ رہا ہے۔ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعہ سے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی،سماجی ہو یا عسکری ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انہی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ خیر اور شر بھی انہی کے ذریعہ سے پھیلایا جاتا ہے۔یہ نوجوان جو تاریخ رقم کرتے ہیں وہ برسوں تک بعد میں آنے والوں کے لیے ایک سبق ہوا کرتی ہے یہ نوجوان نسل ِ انسانی میں وہ شہ رگ کی مانند ہے کہ اگر یہ کٹ گئی یعنی یہ نوجوان زائل ہوگیا تو پھر ہماری تباہی و تنزلی میں کوئی دوسری شئے رکا وٹ نہیں بن سکتی۔پستی کی علامت یہی ایک سبب ہے کہ ہمارا نوجوان جو کل اثاثہ تھا وہی تباہ ہورہا ہے اگر آج ان نوجوانوں کی صحیح نہج پر تربیت نہ کی گئی، ان کی سمت کا تعین نہ کیا گیا، ان کو ان کے روشن مستقبل سے روشناس نہ کرایا گیا تو کل ہمارے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔آج ہی انہیں بتانا ہوگا کہ احساس و ضمیر کسے کہتے ہیں'معاشرہ و سماج کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ نوجوان کو صحیح معنوں میں رہنمائی دی جائے اس کو مقصد ِ حیات بتایا جائے۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان کا تعلیمی شوق خود اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کوشش یہی ہوتی ہے کسی طرح ان کتابوں سے جان چھوٹ جائے اور بعد میں کسی سفارش کے ذریعے نوکری مل جائے جو چند ایک شوق رکھتے ہیں وہ پاکستان کے محکمہ تعلیم کی طرف دیکھ کر باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہیں پر راحت محسوس کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کا محکمہ تعلیم ان چیزوں کا متحمل نہیں ہے کہ یہاں ایک پڑھنے والا بچہ صحیح طریقے سے تمام لوازمات کے ساتھ پڑھ سکے دونوں طرف معاملہ الٹ ہے طلبا میں شوق نہیں محکمہ تعلیم کے پاس وہ معیار نہیں اگر ہے تو معلم اس احساس سے عاری ہوتا ہے کہ اس نوجوان کا مستقبل کیا ہے؟بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان سوشل میڈیا کی لت کے نشے کی حد تک عادی ہوچکے ہیں اور سوشل میڈیا کا انتہائی زیادہ استعمال نوجوانوں کی دانشورانہ، تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کو بتدریج ختم کررہا ہے۔ ارباب اختیار اگر نوجوان نسل کے اچھے مستقبل اور ریاست پاکستان کے روشن دور کے متلاشی ہیں تو سوشل میڈیا کے استعمال پر مخصوص بندشیں لگائی جائیں۔ اور صرف تعمیری استعمال کی اجازت دی جائے۔ گمراہ کن اور فساد پر مبنی سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں نوجوانوں کو سائنسدان، دانشور اور لیڈر بنا کر نکالا جائے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کیلئے ماہرین کی رائے پر مبنی لیکچرز اور کورسز کا اہتمام کیا جائے۔ پاکستان کو خودکفیل سائنسدان نوجوانوں، کمپیوٹر ماہرین نوجوانوں اور خلائی علوم کے ماہرین نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح معاشی علوم کے ماہر نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ ترکی، ایران، انڈونیشیا، برونائی دارالسلام، چین کے تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے ریسرچ سینٹرز کھولے جائیں اور انہیں نئی چیزیں اور تخیلات دریافت کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔مسجد، مدرسہ، اسکول، کالج، کھیل کا میدان اور سوشل میڈیا، ان سب عناصر نے مل کر اقبال کے شاہین پیدا کرنے ہیں۔ پاکستان کو کرپٹ اور بے ایمان نوجوان نسل کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کو عظیم مسلم نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ پوری قوم اور تمام ادارے تہیہ کریں کہ عظیم ترین نوجوان نسل کی آبیاری کرنی ہے جو شعور اور آگہی سے مالامال ہو۔ اس مملکت خداداد کو اوج ثریا سے ہم کنار کرنے کے متحمل ہوں۔نوجوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دور ہوتا ہے۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کر سکتا ہے۔ انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپرواہی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔دور حاضرمیں نوجوان طبقہ بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف غیر متوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تو دوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل سے دو چار ہے تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پر یشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک طرف ناقص تعلیم و تر بیت اور حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کر دہ مسائل نے اس کو پریشان کر رکھا ہے تو دوسری طرف نت نئے افکار کے پیدا کردہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہوا ہے جن سے سماج کا یہ اہم طبقہ تذبذب اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل پا رہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکے۔ اس سلسلے میں ماں باپ، علما اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ رول ادا کریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں قوم وملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے موثر رول ادا کر سکے۔ قوموں اور تحریکوں کے لیے یہی طبقہ امید کی کرن اور مستقبل کی تعمیر کا ضامن ہے۔
