قیام پاکستان کے صرف چوبیس سال بعد سرزمین پاکستان دولخت ہو گئی۔ اس سانحہ کا اصل ذمہ دار کون کون تھا۔ بظاہر فوجی حکمران جنرل آغا محمد یحیی خان، شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور انڈین پرائم منسٹر اندرا گاندھی کے الگ الگ کردار پر بحث کی جاتی رہی ہے تاہم یہ حادثہ حکومت اور سیاستدانوں کی عاقبت نااندیشی 1970 کے انتخابات کے بعد ایک سال تک قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد پذیر نہ ہونا، انتقال اقتدار کا نہ ہونا، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن، مکتی باہنی کا کردار اور بھارت کی طرف سے غیر قانونی طور پر اپنی افواج کا مشرقی پاکستان میں داخلہ اس سانحہ کے فوری محرکات تھے۔1948 میں قائداعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ اس پر مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کے حوالے سے تحریک شروع کی گئی کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔مشرقی پاکستان میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ بھی اپنے نوجوان طالب علموں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ مغربی پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں اور مغربی پاکستان کے سیاستدان اور بیوروکریسی پاکستان کے مشرقی حصے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کا 56فیصد تھی جبکہ 1956 میں نافذ کئے گئے پہلے دستور پاکستان میں ملک کے دونوں حصوں کے حقوق کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم کو یکے بعد دیگرے مغربی پاکستان کی حکومت اور سیاستدانوں کے ایما پر وزارت عظمی سے سبکدوش کیا گیا جس کی وجہ سے 1954 تک مشرقی پاکستان کے بڑے اور مقتدر سیاسی رہنما عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے مشرقی پاکستان کے حقوق کے لئے سرگرم عمل ہو گئے۔ مسلمانانِ برصغیر نے اپنی سیاسی جدوجہد اور ازاں بعد مکمل آزادی کے لئے 1906 میں مسلم لیگ کے نام پر ایک بڑی سیاسی جماعت قائم کی تھی اس جماعت کا قیام ڈھاکہ میں عمل میں آیا تھا۔ اسی طرح 1940 میں قرارداد پاکستان کے حوالے سے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پیش کرنے کا اعزاز بھی مولوی اے کے فضل حق کو حاصل ہوا جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ 1958 سے 1969 تک فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت رہی جس کی وجہ سے سیاسی اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا اور ملک میں ایک گھٹن کی فضا رہی۔ 1969 میں جنرل یحیی خان نے ایوب خان سے اقتدار چھین کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ خدا خدا کرکے ملک میں 1970 کے انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تو مشرقی پاکستان میں 98فیصد نشستیں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے حاصل کیں جبکہ مغربی پاکستان میں اکثریت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو اس خیال کے حامی تھے کہ انہیں متحدہ پاکستان کا وزیراعظم نہیں ہونا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اثر و رسوخ جنرل یحیی خان پر زیادہ تھا اس لئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کئے جانے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کے اراکین کو ڈھاکہ جانے سے روک دیا اس موقع پر کسی اخبار کی یہ شہ سرخی بہت مشہور ہوئی کہ بھٹو نے اِدھر ہم، ادھر تم کا نعرہ دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ جو اراکین اجلاس میں شرکت کریں گے، ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اسی دوران 25مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کی نگرانی جنرل ٹکا خان کے سپرد کی گئی۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف تعصب اور نفرت کی ایک مہم شروع کی گئی اور مشرقی پاکستان کے ہزاروں لاکھوں افراد نے بھارت کی طرف مہاجرت شروع کر دی۔ بھارتی ذرائع کے مطابق ان مہاجرین کی تعداد 30لاکھ سے زائد تھی۔ وزیراعظم بھارت اندرا گاندھی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لئے ہتھکنڈے اور سازشیں شروع کر چکی تھیں اور اس ضمن میں بھارتی فوج کو بھی مشرقی پاکستان میں آپریشن کے لئے تیار کیا جا رہا تھا۔جہاں تک1971 کے زمانے اور واقعات کا تعلق ہے پاکستان میں اب تک سوائے اس بحث کے کسی نے آج تک کوئی اور سبق نہیں سیکھا کہ سقوطِ ڈھاکہ کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان ہمارا وہ بازو تھا جس کی وجہ سے قیام پاکستان ممکن ہو سکا۔ اگر ہم نے اپنے اس بھائی سے حسن سلوک نہیں کرنا تھا تو ہمارا وجود کیسے برقرار رہ سکتا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی میدان میں جو گہما گہمی نظر آ رہی ہے اور جس طرح سیاست دان ایک دوسرے پر ہر قسم کی الزام تراشی کر رہے ہیں تقریبا تمام اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ احتسابی عمل جس کے بے شمار تقاضے تھے، اس کی شفافیت پر حرف آ رہا ہے۔ سیاست دانوں نے نہ صرف یہ کہ ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ سقوط ڈھاکہ جیسے عظیم قومی سانحے سے بھی کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔یہ قائداعظم کا پاکستان تھا۔ قائداعظم نے اپنے حسن ِ تدبیر سے ہندو بنئے کی عیاری اور انگریز حکمرانوں کی مکاری کو شکست ِ فاش دی تھی۔ گزشتہ چالیس برسوں میں مختلف حکمرانوں نے قوم اور قومی خزانے کے علاوہ ملکی سالمیت اور اتحاد کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اظہر من الشمس ہے اس کے باوجود بیشتر سیاست دان اپنے تحفظ اور بقا کے لئے اپنے جیسے دوسرے سیاست دانوں کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر بالفرضِ محال اس ملک میں قانون اور انصاف کی حکمرانی نہیں ہو سکی تو ہم سب بحیثیت قوم اس کے ذمہ دار ہیں۔الیکٹرانک میڈیا اور قومی پریس کو جتنی آزادی آج حاصل ہے،بلکہ پرویز مشرف جیسے آمر کے دور میں بھی تھی۔ وہ1971 میں ہر گز نہ تھی۔ اس دور میں یحیی خان اور بعدازاں جنرل محمد ضیا الحق کے دور میں بھی پریس پر بے پناہ پابندیاں تھیں، ہمارے اخبار نویس ہر دور میں آزادیء صحافت کا پرچم تھامے رہے ہیں۔1971 میں جنرل محمد یحیی خان نے صحافت کو پابند ِ سلاسل کر رکھا تھا۔ قوم کو تمام معاملات کی غلط تصویر پیش کی جا رہی تھی اس صورت حال سے بی بی سی برٹش براڈ کاسٹنگ سروس اور دیگر غیر ملکی صحافتی ذرائع اور بالخصوص پاکستان دشمن بھارتی پریس نے بے پناہ ناجائز فائدہ اٹھایا۔ مکتی باہنی کی ظالمانہ کارروائیوں کو تحریک آزادیء بنگلہ دیش کا نام دیا۔ پاکستان کے خلاف مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مکنی باہنی کی طرف سے نفرت کا ایک طوفان بپا کیا گیا اور بنگالی عوام کو ہر طریقے سے مغربی پاکستان کے خلاف اشتعال دلایا گیا۔ یہاں تک کہ جب دشمن کی منزل قریب آ گئی اور پاکستانی فوج کو یہ بتا دیا گیا کہ وہ ہر طرف سے گھیرے میں آ چکے ہیں، تو مشتعل ہجوم نے ریڈیو پاکستان اور دیگر حساس اداروں اور تنصیبات پر حملے شروع کر دیئے۔ بلوہ کرنے والوں نے سرکاری ملازمین پر بھی تشدد کیا اور جو شخص بھی مجیب الرحمن کے حق میں نعرہ نہیں لگاتا تھا، اس کو زدو کوب کرتے اور اس کے خاندان تک کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھ دیتے، چونکہ اگرتلہ سازش کیس (1968) کے پس منظر میں پاکستان کی بیورو کریسی شیخ مجیب الرحمن کے حق میں نہ تھی، اِس لئے حکومتی سطح پر جتنی بھی بے تدبیری ہو سکتی تھی، اس کا ارتکاب کیا گیا اور پاکستان کے تشخص اور اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کی گئی۔سقوط ڈھاکہ پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں نہ صرف سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عظیم المیہ کے عنوان سے تمام حالات و واقعات پر اپنا موقف پیش کیا ہے، بلکہ مکتی باہنی میں شامل بعض بھگوڑے فوجی افسروں اور بھارت نواز را ہزنوں نے پاکستان کے خلاف جی بھر کر زہر اگلا ہے۔ جب سقوطِ پاکستان پر جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا گیا تو اس کی رپورٹ تین دہائیوں تک پاکستانی عوام کے لئے منظر عام پر نہیں لائی گئیں اور پہلی دفعہ بھارتی میڈیا نے اس کو طشت ازبام کیا۔ اگرچہ پاکستان میں بھی بعدازاں اس کے بیشتر حصوں کو منظر عام پر لایا گیا، لیکن بعض حصوں کو پردہء اخفا میں رکھا گیا اور اس رپورٹ کی روشنی میں حکومت پاکستان نے نہ تو کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی اقدام کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم نے راقم الحروف کے نام ایک خط میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سقوطِ ڈھاکہ سقوطِ بغداد کے بعد تاریخِ اسلام کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ پاکستان آرمی کے اعلی افسروں اور پاکستان کے بہت سے سینئر اور معروف لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے قومی تاریخ کے اس المناک سانحے کو قرطاس و قلم پر منتقل کیا ہے۔
