وزیر قانون غلام محمد نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں مئی2025 میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے جس کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں' بلدیاتی نمائندوں کے آنے سے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں گے' بجٹ عوام پر ہی خرچ ہو گا اورمسائل گھر کی دہلیز پر حل ہوں گے۔کچھ عرصہ قبل بھی وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے آفیسران کیلئے تین روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ عوام کے مسائل ان کے دہلیز پر حل کرنے،نئی قیادت کو سامنے لانے اور اختیارات کی حقیقی معنوں میں نچلی سطح پرمنتقلی کیلئے بلدیاتی انتخابات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہماری حکومت اختیارات کو نچلی سطح تک منتقلی کیلئے پر عزم ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں 2004 سے بلدیاتی انتخابات تعطل کا شکار رہے ہیں۔ وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014کو فی الفور صوبے میں نافذ العمل کرانے کا فیصلہ کیا اور عوام کو اس بات کا عندیہ دیا کہ موجودہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو ہرصورت یقینی بنائے گی۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے حد بندی اور حلقہ بندی کرانا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے دوسرا اہم مرحلہ حلقہ بندیوں کا تعین کرنا ہے۔ شفاف انداز میں حلقہ بندیوں کیلئے خصوصی کمیٹیوں کی تربیت کا انعقاد چیف الیکشن کمشنر کا احسن اقدام ہے۔چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے بنائے گئے کمیٹیوں کے آفیسران اس تربیت سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنے اضلاع میں ہر قسم کی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر علاقے کے بہترین مفاد اور خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پر حلقہ بندیاں کریں گے۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے جو علاقے اور عوام کی خوشحالی اور ترقی کیلئے معاون ثابت ہوں گے لیکن تاحال الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا۔صوبائی وزیر بلدیات حاجی عبد الحمید بھی کہہ چکے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کیلئے فنڈز کا بندوبست ہوگیا ہے حد بندی اور حلقہ بندی کے 75 فیصد امور بھی نمٹائے گئے ہیں الیکشن کے انعقاد کیلئے ایک ارب دس کروڑ روپے درکار تھے جو وفاق نے فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے اس طرح بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے لہذا الیکشن رواں سال مئی یا جون میں کرانے کی کوشش کریں گے ۔بلدیاتی نظام حکومت کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے ۔کسی ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہے اس کے لیے اس ملک کا بلدیاتی نظام اور ان اداروں کو حاصل اختیارات ملاحظہ کرلیں آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا۔پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سے ہی بلدیاتی نظام حکومت سے پہلوتہی اختیار کی ہے اور اس نظام کے پنپنے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے جبکہ اس کے برعکس جسے ہم آمرانہ ادوار حکومت کہتے ہیں ان ادوار میں بلدیاتی نظام نہ صرف مضبوط ہوا بلکہ منتخب نمائندوں کو اتنے اختیارات اور وسائل دیئے گئے جن سے عوامی مسائل کے حل میں نہایت مدد ملی ۔جنرل ایوب خان کابی ڈی سسٹم ہو یا جنرل مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام اس کا براہ راست فائدہ عوام کو ہی پہنچا ہے ۔کچھ سیاسی حلقوں کے مطابق جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظام میں بھی عوام کو ڈیلیور کرنے کے لیے بہت کچھ تھا ۔دنیا کے جمہوری ملکوں میں برسر اقتدار جماعتوں کی ساری توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز رہتی ہے کیونکہ ان ملکوں کے عوام اپنے منتخب نمائندوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے منشور اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں یا نہیں۔پاکستان میں اشرافیہ نے کرپشن کو جس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ہر شعبہ کرپشن زدہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر بلدیاتی نظام بھی کرپشن سے کسی حد تک آلودہ تھا تو اس نظام میں عوام کی براہِ راست شرکت اور علاقائی سطح پر جواب دہی کی وجہ سے اس نظام میں موجود خرابیوں کے دور ہونے کی قوی امید بھی موجود تھی۔ ناظمین کے نظام میں چھوٹی موٹی خرابیوں کی موجودگی کو بہانہ بنا کر ہماری اقتدار مافیا کیوں کمشنری نظام پر اصرار کررہی ہے، یہ کوئی راز نہیں بلکہ یہ شرم ناک حقیقت ہے کہ یہ باری باری چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آنے والے نہیں چاہتے کہ اس کے اقتدار کلی میں کمی آئے۔وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ بلدیاتی نظام خصوصا ناظمین کے نظام کی وجہ اس کے صوبائی اختیارات نہ صرف چھن جاتے ہیں بلکہ سیکڑوں ناظمین کو کنٹرول کرنا اس کے بس سے باہر ہوجاتا ہے جب کہ ایک کمشنر اور چند ڈپٹی کمشنروں کو قابو میں رکھنا اس کے لیے انتہائی آسان ہوتا ہے اور ان بیورو کریٹس سے یہ مافیا اپنی مرضی کے کام کرواسکتی ہے، چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی حکمرانوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ بلدیاتی نظام کی مخالفت درمیانہ طبقات سے تعلق رکھنے والے وہ سیاست دان اور صوبائی حکمران بھی کرتے ہیں جو عوامی سیاست کے دعوے دار ہیں اور عوام کو قوت کا سرچشمہ کہتے نہیں تھکتے۔ جمہوری ملکوں کے حکمرانوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ترقی یافتہ جمہوریتوں میں صوبائی یا قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے بلدیاتی انتخابات جیت کر علاقائی عوام کے مسائل حل کرنا ضروری ہوتا ہے اور بلدیاتی کارکردگی ہی وہ سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جو قانون ساز اداروں میں رسائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن ہماری شاہانہ جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کی زحمت کی جاتی ہے نہ بلدیاتی اداروں کو کام کرنے دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے منتخب نمائندوں کے پاس نہ انتظامی اختیارات ہوتے ہیں نہ مالی وسائل ہیں ایسے بے اختیار منتخب نمائندے بھلا کس طرح عوامی مسائل حل کرسکتے ہیں؟ بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی اختیارات دینے سے گریز کی ایک وجہ جاگیردارانہ نظام بھی ہے ۔کیونکہ جاگیردارانہ ذہنیت سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں اپنے کلی اختیارات سے دست بردار ہونا نہیں چاہتیں کیوںکہ اس سے ان کے مالی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔ہماری سیاسی اشرافیہ اگر بلدیاتی نظام کی مخالفت کرتی ہے اور کمشنری نظام پر اصرار کرتی ہے تو اس کی یہ پالیسی سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کے اقتدار میں تقسیم کو پسند نہیں کرتی اور اقتدار کلی کی مالک بنی رہنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے اسے یہ ڈر بھی لاحق ہے کہ خاندانی حکمرانیوں کے ذریعے اس نے سیاست اور اقتدار پر جو ناجائز قبضہ جما رکھا ہے، بلدیاتی نظام سے اسے خطرہ لاحق ہوجائے گا اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔لیکن عوامی سیاست کرنے والوں اور عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنے والوں کو تو بلدیاتی نظام سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ مڈل کلاس اپنی بے عملی، سیاسی بصیرت کی کمی، منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بلدیاتی انتخابات میں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی تو اس کا علاج سرگرم منصوبہ بند اور عوامی منشور کی سیاست ہے نہ کہ بلدیاتی انتخابات کی مخالفت اور کمشنری نظام کی حمایت۔انتظامیہ کی مکمل ناکامی کے بعد بلدیاتی نظام ہی ایک ایسی امید ہے جو گلی محلوں تک پھیلی ہوئی اور تیزی سے مضبوط ہوتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے آگے ایک مضبوط دیوار بن سکتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر بلدیاتی نظام مضبوط نہیں ہوسکا اور اس کی راہ میں خود جمہوری نمائندے ہی رکاوٹ بنتے ہیں، جو خود کو جمہوری تو کہتے ہیں لیکن وہ بلدیاتی نظام کو منظم یا مضبوط نہیں کرنا چاہتے ہیں۔جمہوری معاشرے کے لیے بلدیاتی نظام انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ بلدیاتی نمائندے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام کے بہت قریب ہوتے ہیں اور عوام اپنے مسائل باآسانی ان تک پہنچا سکتے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا تو ایک بہت بڑا حلقہ ہوتا ہے، وہ پورے حلقے کے لوگوں کے مسائل نہیں سن سکتے،انہیں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرنا ہوتی ہے، قومی اسمبلی کے اندر قانون سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں، دیگر بڑے اجتماعات میں شرکت کرنا اور کئی طرح کے کام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں زیادہ نہیں جاسکتے۔ جس کی وجہ سے عوام اپنے مسائل حکومت تک نہیں پہنچا سکتے۔یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی نظام کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے جو نمائندے منتخب ہوتے ہیں وہ عوام کے قریب ہوتے ہیں، اس کے ذریعے اختیارات انتہائی نچلی سطح تک عوامی حقیقی نمائندوں تک منتقل ہوجاتے ہیں۔ہم امید رکھتے ہیں کہ مئی میں ہر قیمت پہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے گا۔
