بڑھتی ہوئی معاشرتی تقسیم پر تشویش

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت84 ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج کی اسلام آباد میں قانونی تعیناتی کے خلاف پروپیگنڈے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ زہر اگلنے، جھوٹ اور معاشرتی تقسیم کا بیج بونے کے خاتمے کیلئے سخت قوانین وضوابط بنائے اور ان پر عمل درآمد کرائے۔آئی ایس پی آر کے مطابق فورم نے پاکستان کے امن و استحکام کے لیے شہدائے افواجِ پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں، پاکستانی شہریوں اور اسلام آباد میں حالیہ پر تشدد مظاہروں میں جام شہادت نوش کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کو زبردست خراجِ عقیدت کیا۔ فورم نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی اور کشمیری عوام کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کا اعادہ کیا۔ترجمان پاک فوج کے مطابق کانفرنس کے شرکا نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غزہ میں جاری مظالم کی پر زور مذمت کی اور غزہ میں جاری فوجی جارحیت کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی قانونی اقدامات کی بھی حمایت کی۔کانفرنس کے شرکا کو بیرونی اور اندرونی خطرات کے تناظر میں موجودہ صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی گئی، شرکا نے روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں کا جائزہ بھی لیا۔ فورم نے انسداد دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنز کا جامع تجزیہ کیا اور بلوچستان میں دہشت گردوں بالخصوص کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی مجید بریگیڈ کے خلاف آپریشن پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دشمن قوتوں کی ایما پر کام کرنے والے دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو بے اثر کرنے کا عزم کیا۔ترجمان پاک فوج کے مطابق فورم نے پاک فوج کی دارالحکومت کی اہم سرکاری عمارتوں کومحفوظ بنانے اور قابل احترام غیر ملکی وفود کو دورہ پاکستان کے دوران محفوظ ماحول فراہم کرنے کی غرض سے پاک فوج کی قانونی تعیناتی کے خلاف کیے جانے والے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے پر تشویش کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے شرکا نے کہا کہ یہ مربوط اور پہلے سے تیار کردہ پروپیگنڈہ بعض سیاسی عناصر کے مذموم عزائم کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے جس کا مقصد پاکستان کے عوام، مسلح افواج اور اداروں کے درمیان دراڑ پیدا کرنا ہے، بیرونی عناصر کی مدد سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کی ایسی مذموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔جاری اعلامیے کے مطابق فورم نے حکومت پر زور دیا کہ زہر اگلنے، جھوٹ اور معاشرتی تقسیم کا بیج بونے کے خاتمے کے لیے سخت قوانین وضوابط بنائے اور ان پر عمل درآمد کرائے۔ شرکا نے جعلی خبریں پھیلانے والوں کی نشاندہی کرکے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ فورم نے دہشت گردوں بالخصوص فتنتہ الخوارج کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین کے بے دریغ استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغان عبوری حکومت کو اپنی سر زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے واضح اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔فورم نے اقتصادی ترقی کو فروغ دینے، غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈان اور دہشت گردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے میں حکومتی کوششوں کی حمایت جاری رکھنے کا عزم کیا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اس موقع پر آرمی چیف نے ملکی سلامتی و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے درپیش کسی بھی قسم کی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پیشہ وارانہ مہارت، آپریشنل تیاریوں اور پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کی اہمیت پر زور دیا۔یہ درست ہے کہ معاشرتی تقسیم بڑھ رہی ہے' ماضی میں بھی اس معاشرے کے انسان بھی ایسے ہی تھے، ان میں کمزوریاں اور خامیاں بھی تھیں، لیکن وہ خوبیاں بھی لازمی تھیں، جن کی بنیاد پر انسانیت کا شرف قائم رہتا ہے۔معاشرے کے افراد میں وضع داری، لحاظ، برداشت اور رکھ رکھائو کا چلن عام تھا، بڑے سے بڑے اختلاف کے باوجود فریقین ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے تھے، ایک دوسرے کے موقف کو سن سکتے تھے، ایک دوسرے کو چھوٹ دینے اور گنجائش نکالنے پر آمادہ ہو جاتے تھے، اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی خوبیوں سے انکار نہیں کرتے تھے،سچائی کو جھٹلانے کی کوشش نہیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے رویوں میں کیڑے نکالنے اور کردار کشی سے گریز کرتے۔یہ باتیں بہت تعلیم یافتہ اور مذہبی لوگوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں تھیں۔ بلکہ معاشرے کے عام آدمی کے معمولات کا حصہ بھی تھیں۔ پڑھے لکھے اور دین دار لوگ تو اور زیادہ اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھتے تھے۔عام آدمی اور دنیا دار قسم کے لوگ بھی اپنے سماجی کردار سے غافل نظر نہیں آتے تھے۔ دین اور دنیا کے مابین ایسا بعد نہیں تھا، جیسا آج کھائی دیتا ہے۔ آج ہمارے یہاں دین اور دنیا کے سلسلے میں رویہ اس حد تک بدل چکا ہے کہ دونوں الگ الگ سیاروں کے لوگ نظر آتے ہیں۔تاہم اپنے خیالات، نظریات اور تصورات کے باجود یہ سب لوگ بھی معاشرے میں عزت اور سکون کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کے افکار و خیالات سے سخت اختلاف رکھنے والے لوگ بھی ان کی شخصی خوبیوں اور کردار کے حسن کو جھٹلانے اور زک پہنچانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ آج ہم ایک نہایت پیچیدہ انتشار کا شکار اورانتہا پسند رویوں سے مغلوب دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا ہے۔ پہلے دنیا دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھی۔اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ آج تقسیم در تقسیم کا عمل اس حد تک گہرا ہو چکا ہے کہ مرکزیت یا وحدت کا تصور ہی باقی نہیں رہا۔ اس تقسیم نے اتنے اور ایسے مسائل پیدا کر دیئے ہیں جن کا حل ممکن نظر نہیں آتا۔پہلے ہمارے ہاں ایک اخلاقی نظام تھا، اس کی قدروں کو تسلیم کیا جاتا تھا، آج مادر پدر آزادی کا یہ حال ہے کہ نہ قدروں کا خیال ہے، نہ اخلاق سے کوئی واسطہ ہے۔عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ اختلاف کو ذاتی مخالفت، بلکہ دشمنی سمجھا جاتا ہے، دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹانا اپنی بقا سمجھا جاتا ہے، اس لئے معاشرے میں گھن لگ چکی ہے۔دنیا کے اکثر ممالک میں کسی بھی شہری کے لیے اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنا عام سی بات ہے لیکن اس پسندیدگی کو بنیاد بنا کر کسی دوسری سیاسی جماعت کے حامی کو ذاتی بنیادوں پر ہدفِ تنقید بنانا، لڑنا جھگڑنا اور یہاں تک کہ مخالف سیاسی نظریہ رکھنے والوں سے بات چیت کرنا ہی چھوڑ دینا شاید پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔دوسروں کے لیے عدم برداشت، بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا، یہ تمام وہ رویے ہیں جنہوں نے پاکستان میں عوام کو تقسیم کر رکھا ہے اور بظاہر وقت کے ساتھ یہ رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔اس شدید تقسیم کو کوئی صیحح سمجھتا ہے تو کسی کی رائے یہ ہے کہ یہ رویے ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔لوگوں میں پائی جانے والی یہ تقسیم پچھلے چند سال میں زیادہ دیکھی گئی ہے 'پاکستان میں سیاست کی بنیاد پر عدم برداشت اور تقسیم پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے لیکن بعض طبقات ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ تقسیم ہونی ہی تھی۔یہ تقسیم اس لیے بڑھی کیونکہ ماضی میں لوگوں میں اتنا سیاسی شعور ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکتے' سیاسی شعور ہونا اچھی بات ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے لیڈر کے خلاف کوئی بات ہی برداشت نہ کریں۔صورتحال یہ ہے کہ جہاں کسی ایک سیاسی جماعت کا سپورٹر دوسری سیاسی جماعت کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے جو اسے ناگوار گزرتی ہے تو وہ ان کے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے ماضی کی تقاریر اور حرکتیں یاد کروانا شروع کر دیتا ہے ۔طبقاتی تقسیم بھی معاشرتی نظام کی ایک حقیقت ہے۔ معاشرے میں مختلف طبقات موجود ہوتے ہیں جن کے لوگوں کا تناسب  ان کے معاشی حالات، روزگار کے مواقع اور تعلیمی سطح سے ہوتا ہے۔ یہ تناسب کی کمی معاشرتی فاصلوں اور اعتماد کی کمی کا سبب بنتی ہے۔ جب لوگ احساس کرتے ہیں کہ ان کے معاشری مستقبل کی توقعات میں نا انصافی ہے، تو وہ متاثر ہوتے ہیں اور ان کے احساسات میں غصے کی بھرمار ہوتی ہے۔ جب طبقاتی تقسیم جرائم کی سزا پر اثر انداز ہوتی ہے، تو نظام عدل کے فیصلے انصاف کی بجائے اجتماعی ناانصافی کو بڑھاتے ہیں۔ یہ نظام کا اعتراض ہے جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ کم آمدنی والی طبقہ، عدلیہ سے بہتر سزا کا متوقع نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ امیر طبقہ عدالتی فیصلوں سے آرام دہ و ممکن راحت آمیز اور خوشی کے انداز میں سزا طلب گار ہوتا ہے۔معاشرے میں طبقاتی تقسیم اور جرائم کی سزا میں طبقاتی تقسیم کا وجود، انصاف اور برابری کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔ جرائم کی سزا واری کو طبقاتی تفرقہ پر منحصر کرنا منطقی نہیں ہے اور اسے یکساں بنانے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کو قوت و رفاقت دینے کے ساتھ ساتھ، انصاف اور یقین کو بڑھانے کے لئے ہمیشہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہم ایک عادل و مساوی معاشرتی نظام کی تشکیل دے سکیں۔ بہرحال موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ معاشرتی تقسیم کی خلیج کو پاٹنے کیلئے سب سیاسی جماعتیں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے۔