تعلیمی اداروں میں منشیات


 اینٹی نارکوٹکس فورس کا ملک بھر میں تعلیمی اداروں اور مختلف شہروں میں منشیات اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاﺅن جاری ہے، جس میں آٹھ کارروائیوں کے دوران نوملزمان کو گرفتار کرکے 78 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی 68 کلو گرام منشیات برآمد کرلی گئی ہے۔مختلف آپریشنز کے دوران سرگودھا میں یونیورسٹی کے قریب موٹرسائیکل سوار ملزم سے ایک کلو 600 گرام چرس برآمد کرلی گئی۔ گرفتار ملزم نے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو منشیات فروخت کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔علاوہ ازیں پشاور میں رِنگ روڈ پر کار کے خفیہ خانوں سے دس کلوافیون اور چھے کلوگرام چرس برآمد کرکے دو ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔ اسی طرح پشاور میں کوریئر آفس میں چار عدد پارسلز سے مجموعی طور پر بارہ کلوگرام چرس برآمد کرلی گئی۔ یہ پارسلز سیالکوٹ، لاہور اور گوجرانولہ بھیجے جا رہے تھے۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تنتالےس فیصد نوجوان الکحل اور دیگر نشہ آور اشیا استعمال کر رہے ہیں۔ طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ رجحان طلبا کی ذہنی و جسمانی صحت اور تعلیمی کارکردگی پر سنگین منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریبا نصف بچوں کی آبادی منشیات تک رسائی رکھتی ہے جن میں سے 44.9 فیصد شراب نوشی کرتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت ایک ٹائم بم بن چکا ہے جس سے ایک پوری نسل کے مستقبل کو خطرہ ہے، اگر ہم نے اس کو قابو کرنے کیلئے فوری اور سخت اقدامات نہ اٹھائے تو یقینا ہم اپنے مستقل کے معماروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو منظم نیٹ ورکس کے ذریعے ناجائز اشیا کی تقسیم کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ طالب علموں اور نوجوانوں میں منشیات کی لت کے خلاف حفاظت کی سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے متحد کوششوں کی اہم ضرورت ہے ۔تعلیمی اداروں میں منشےات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نشہ کی لت دولت مند گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں میں زیادہ ہے۔ کیونکہ پیسہ ان کے لیے کوئی پرابلم نہیں ہوتا اور نشہ بیچنے والے ایسے ہی امیر گھرانوں کے لوگوں کو پھانستے ہیں کیونکہ وہ آسان اور منافع بخش کاروبار کو ایسے ہی امیر زادوں سے بڑھاتے ہیں۔ نشے کی اقسام میں سے نوجوانوں میں آئس نامی قاتل نشے کا بڑھتا ہوا رجحان حد درجہ تشویشناک ہے۔ آئس سمیت کئی نئے نئے نشے اب پوش علاقوں کے نوجوانوں کی تفریح کا حصہ بن چکے ہیں۔ پارٹی ڈرگز کہلانے والی یہ منشیات پارٹیز سے نکل کر تعلیمی اداروں میں پہنچ چکی ہیں۔ اس سے قبل ہیروئن، چرس اور دیگر نشے عام تھے۔ آئس ان ناموں میں ایک نیا اضافہ ہے جو گزشتہ چند سالوں سے معاشرے میں پھیل رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں مقیم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد مسلسل اس لعنت کا شکار ہو رہی ہے۔اس کو سگریٹ کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی بآسانی استعمال کیا جاتا ہے اور بدبو نہ ہونے کی وجہ سے یہ دوسرے نشہ جات کی طرح بظاہر معیوب بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس نشے میں چوبےس سے اڑتالےس گھنٹوں تک جگانے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے پہلے پہل طلبہ اس کی طرف اس لئے راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ امتحان کی تیاری کرسکیں مگر اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک عذاب میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں۔ بعد میں وہ ان کے دماغ کو کمزور اور وجود کو کمزور کر کے انہیں جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کر دیتا ہے۔آئس کا نشہ ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر گرم کیا جاتا ہے ۔ اس کے لئے عموما بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض افراد اسے انجکشن کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے رینجرز نے کراچی میں چھاپہ مار کر آئس بنانے والے ایک گروہ کے آٹھ افراد کو حراست میں لیا تھا جو کراچی کے پوش علاقوں میں اس زہر کی سپلائی کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور کے پوش علاقوں، جامعات، ہاسٹلز اور فارم ہاوسز میں اس نشے کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ شہر اقتدار کی جامعات میں بھی بآسانی یہ آئس نامی زہر قاتل دستیاب ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی ملازمین اور دیگر افراد نوجوانوں کو آئس فراہم کرتے ہیں۔سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی خرید اور فروخت کی پاداش میں کم از کم دو برس قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید جیسی سزائیں جلد ہی متعارف کرائی جائیں گی۔پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی پر اتفاق ہوا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کے لیے ایک آزاد ادارہ اور اینٹی نارکوٹکس پولیس سٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ایسے واقعات پر قانونی ہی نہیں معاشرتی طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔نارکوٹکس کے معاملے پر پہلے سے ہی پاکستان کے بہت سخت قوانین موجود ہیں اور ان کی روشنی میں ملک میں موجود ان مسائل پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی ادارے اس طرح کی برائیوں سے بچ سکیں۔ یہ مسئلہ صرف سزاﺅں سے حل ہونے والا نہیں۔ ہمیں منفی رجحان کو معاشرتی اعتبار سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ یا طالبات کسی معاشرتی دباﺅ کی وجہ سے منشیات کے استعمال جیسے مسائل کا شکار ہیں تو پھر ان مسائل کا سد باب ضروری ہے۔یہ واقعہ ہماری معاشرتی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑی کمی سوک ایجوکیشن کا تصور نہ ہونا ہے۔ سوک ایجوکیشن کے ذریعے بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ آئین اور قانون کیا ہے اور اس پر عملدرآمد معاشرے کے آگے بڑھنے کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے۔ اختلاف کیسے کرنا ہے، معاشرتی ذمہ داریاں کیا ہیں، کسی کی بات بری لگے تو کیا کرنا ہے۔ یہ سکول کا کام ہے کہ وہ بچوں کو سوشلائز کریں اور مختلف موضوعات اور مسائل پر بحث کا آغاز کریں۔ مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ قانون کی عملداری کا ہے اور اگر اس میں خامیاں ہیں تو انہیں پہلے دور کرنا چاہیے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کے ذریعے نشہ کے دینی اور دنیوی نقصانات کو واضح کیا جائے۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کئی منشیات فروش گینگز اِن اداروں میں سرگرم عمل ہیں۔منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث کرداروں اور نیٹ ورکس کی صورت حال یہ ہے کہ اب کاروبارصرف مقامی لوگوں کے ہی پاس نہیں بلکہ اس میں بین الاقوامی گروہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔پنجاب پولیس نے گزشتہ ماہ چاکلیٹس اور ٹافیوں میں خطرنا ک ترین نشہ سپلائی کرنے والے ایک انٹرنیشنل گروہ جارڈن گینگ کو گرفتار کیا۔ منشیات سپلائی کرنے والا یہ گینگ ڈرگز سے بھری امپورٹڈ چاکلیٹس کوریئرسروس کے ذریعے فروخت کر رہا تھا۔مختلف غیر سرکاری اداروں، انسداد منشیات کے سرکاری اداروں اور کئی تحقیقاتی اداروں کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں نشے کے عادی افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے اور اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ملک میں منشیات کے استعمال کی اس غیر معمولی لہر اور منشیات اسمگلروں کی یلغار کے پیش نظر ایسے بحالی مراکز یعنی ری ہیب سنٹرز کی جتنی ضرورت ہے، اس کا عشر عشیر بھی ملک میں موجود نہیں۔ تعلیمی اداروں کو منشیات سے پاک کرنے اور طلبہ و طالبات کو منشیات کے استعمال سے روکنے کے لئے پولیس کی جانب سے مانیٹرنگ کرنے کے لئے خصوصی طور پر خفیہ ٹیمیں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں۔ جبکہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی مدد سے منشیات کے عادی طلبہ و طالبات کی نشاندہی کرنے کے حوالے سے بھی اقدامات شروع کر دیئے گئے ۔ماضی میں خفیہ اداروں کی جانب سے کی جانے والی ورکنگ کے ذریعے تیار کردہ رپورٹ سے انکشاف ہوا تھا کہ منظم گروہ کے ارکان کی جانب سے طلبہ و طالبات کا سہارا لیتے ہوئے مبینہ طور پر مختلف سوشل میڈیاز، جن میں واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعے طلبہ و طالبات کے ساتھ روابط قائم کئے جاتے تھے اور انہیں ان کی ڈیمانڈ کے مطابق منشیات کی سپلائی دی جاتی تھی۔ پو لیس کی خصوصی ٹیموں کی جانب سے مختلف تعلیمی اداروں میں جا کر طلبہ و طالبات کو منشیات کے استعمال کے نقصانات اور اس سے بچاﺅ کے حوالے سے مفید آگاہی فراہم کی جا رہی ہے ۔ پولیس کی جانب سے والدین اور اساتذہ سے بھی درخواست کی جاتی رہی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر خصوصی نظر رکھیں اور ان میں پائی جانے والی منفی سرگرمیوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔