پنجاب میں اسموگ کے باعث اکتوبر میں سانس کے امراض میں مبتلا انیس لاکھ سے زائد افراد اسپتال لائے گئے۔وزارت صحت کے مطابق دمے کے ایک لاکھ انیس ہزار اور دل کے تیرہ ہزار 773 مریض سامنے آئے۔صرف نومبر کے چودہ دنوں میں پنجاب بھر میں سات لاکھ سات ہزار 695 افراد پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے جبکہ دمے کے 47 ہزار 558 اور دل کے پانچ ہزار 734 مریض رپورٹ ہوئے۔گزشتہ روز لاہور 637 ائیر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست تھا جبکہ اسلام آباد 264 کے ساتھ دوسرے اور راولپنڈی 253 کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔لاہور میں پاکستان انجینیئرنگ سروسز میں فضائی آلودگی سب سے زیادہ رہی اور اے کیو آئی 1218 ریکارڈ کیا گیا۔پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اسموگ کی بگڑتی صورتحال پر لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرتی ہوں، لاہور اور ملتان میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈائون ہوگا، دونوں شہروں میں ہفتے سے اگلے اتوار تک تعمیرات پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ہیلتھ ڈیسک اور اسپتالوں میں اسٹاف کی چھٹیاں منسوخ کردی ہیں، محکموں کو ادویات وافر کرنے کی ہدایت کی جب کہ شہری موٹر سائیکل پر ایمرجنسی کے سوا باہر نہ نکلیں اور ماسک کا استعمال کریں۔ اسموگ ہیلتھ کرائسس میں تبدیل ہو چکا ہے، پنجاب حکومت اسموگ کی روک تھام کیلئے ہر ممکن اقدام کررہی ہے اور اسموگ کی روک تھام کیلئے دس سال کی پالیسی دے دی ہے۔حکومت کے مختلف محکمے اسموگ کی روک تھام کیلئے دن رات کام کررہے ہیں، زگ زیگ ٹیکنالوجی پر نہ آنے والے بھٹے مسمار کیے جارہے ہیں تاہم اسموگ پر قابو پانا ایک لانگ ٹرم پراسیس ہے، اس پر قابو پانے کیلئے تین ماہ کے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اسموگ کے باعث اسکول مزید ایک ہفتے تک بند رہیں گے، کالجز اور یونیورسٹیز میں آن لائن کلاسز ہوں گی، ریسٹورینٹس کو شام چار بجے تک کا وقت دیا ہے تاہم ریسٹورنٹس سے کھانا لے جانے کی اجازت رات آٹھ بجے تک ہوگی۔ایوی ایشن ذرائع کے مطابق پنجاب میں دھند سے فلائٹ آپریشن متاثر ہوا ہے جس کے باعث گیارہ پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں اور تین کو متبادل ائیرپورٹس پر اتارا گیا جب کہ 53 پروازیں تاخیر کا شکار بھی ہوئیں۔ دوحہ سے ملتان کی پرواز کو اسلام آباد اتارا گیا اور بعد ازاں موسم ٹھیک ہونے پر پرواز کو واپس ملتان لایا گیا، جدہ سے لاہور کی پرواز کو بھی اسلام آباد اتار لیا گیا جب کہ دمام سے سیالکوٹ کی پرواز لاہور ائیرپورٹ پر اتارا گیا۔ لاہور سے کوالالمپور کی پرواز،لاہور سے بینکاک کی پرواز بھی آج صبح تک ٹیک آف نہ کرسکی جب کہ کراچی اسلام آباد کے مابین سات پروازیں تاخیر کا شکار ہیں۔لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ سے متعلق کیس میں کہا ہے کہ حکومت کو اسموگ پر کم سے کم دس سال کی پالیسی بنانی چاہیے۔سماعت کے دوران عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ وزیر اعلی پنجاب واپس آئیں تو آپ کو اسموگ پرطویل مدتی پالیسی پر بات کرنی چاہیے، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں الیکٹرک بسیں چلانے کے لیے بجٹ مختص کردیا ہے، اگلے سال جون سے قبل یہ الیکٹرک بسیں سڑکوں پر ہوں گی جب کہ ہم فوڈ سیکیورٹی سے متعلق اقدامات بھی کررہے ہیں۔ سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے اور بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں، زمینی سطح کا درجہ حرارت بھی بڑھا ہے، ہم اس پر بھی کام کررہے ہیں۔ اربن فاریسٹ کے لیے کام شروع ہے، مارچ میں عدالت کو اس کی رپورٹ دیں گے، اس پر عدالت نے کہا کہ آپ بیجنگ ماڈل دیکھ کر عدالت کی معاونت کریں۔ عدالت نے حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اعلان کرے زرعی زمین پر ہائوسنگ سوسائٹیاں نہ بنائی جائیں، زیر زمین پانی محفوظ کرنے والا ایک پودا ہے جس کو زیادہ سے زیادہ لگایا جائے اور دس مرلہ گھروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا لازمی قرار دیا جائے۔چند روز قبل پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ لاہور میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر انڈین پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان سے بات کریں گی۔ تاہم انڈین پنجاب کی حکومت سائنسی دلائل اور حقائق کا حوالہ دے کر سموگ کی وجہ بننے کے ان الزامات کی تردید کر رہی ہے۔لاہور میں رواں ماہ ائیر کوالٹی انڈیکس متعدد مرتبہ ایک ہزار سے اوپر ریکارڈ کیا گیا۔ جب یہ ہندسہ تین سو سے اوپر جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماحول انسانوں کی صحت کے لیے خطرناک ہو گیا ہے۔بعض علاقوں میں تو یہ انڈیکس تقریبا تین ہزار کی سطح تک جا پہنچا۔ماہرین کے مطابق ایے کیو آئی یا ایئر کوالٹی انڈیکس فضا میں آلودگی کے تناسب کو ماپنے کا ایک آلہ ہے جس کی مدد سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کسی علاقے کی فضا کتنی صاف یا آلودہ ہے۔مختلف ممالک میں اس کو جانچنے کا طریقہ کار یا آلات مختلف ہو سکتے ہیں تاہم عالمی سطح پر قائم کردہ معیار کے مطابق اے کیو آئی کو کل چھ کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔صفر سے پچاس تک اے کیو آئی کو صاف ستھری فضا مانا جاتا ہے جس سے کسی انسان کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں۔سوتک بھی اے کیو آئی قابلِ قبول ہوتا ہے تاہم ایک سو پچاس تک جانے کی صورت میں ایسے افراد کو خطرہ ہو سکتا ہے جو پہلے سے بیمار یا کمزور ہوں۔جب اے کیو آئی 201 اور 300 کے درمیان ہوتا ہے تو ایسی فضا کو انسانوں کے لیے انتہائی غیر صحت مند تصور کیا جاتا ہے اس کیٹیگری کو ہیلتھ الرٹ میں شمار کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک کے لیے صحت کے خطرات ہوں گے۔جب یہ تین سو سے تجاوز کر جائے تو فضا انتہائی خطرناک تصور ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ایمرجنسی صورتحال کی ہیلتھ وارننگ جاری کی جاتی ہے۔انڈیا اور پاکستان میں کٹائی کے بعد فصلوں کی باقیات کو جلانا اس سموگ کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ آگ صرف اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ زمین کو اگلی فصل کے لیے جلدی تیار کیا جا سکے۔انڈین پنجاب کے ماہرین کے دعوں کے برعکس، انڈیا کے مرکزی تعلیمی اداروں کے ماہرین اسی آگ کو دلی کی آلودگی کا سبب سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آلودگی میں اس آگ کا حصہ بہت ہی معمولی ہے۔امریکی خلائی ادارے ناسا کے سیٹلائٹ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا کی طرف پاکستان کے مقابلے میں زیادہ آگ لگی ہوئی دیکھی جاتی ہے۔ پاکستان کا شہر لاہور انڈیا کی سرحد کے قریب ہے اس لیے وہ سرحد پار سے آنے والے دھوئیں سے باآسانی متاثر ہو سکتا ہے۔ پنجاب حکومت کے پاس امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا سیٹلائٹ ڈیٹا اور محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار اور معلومات کی بنیاد پر شواہد موجود ہیں کہ انڈین پنجاب سے آنے والا دھواں لاہور اور گرد و نواح میں سموگ کی ایک اہم وجہ ہے۔ مشرق سے چلنے والی ہوا انڈین پنجاب میں بننے والی فضائی آلودگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان کی طرف لے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہوائیں اس کے مخالف چل رہی ہوتی ہیں تو لاہور میں اے کیو آئی کم ہو کر دوسوکے قریب آ جاتا ہے۔ دونوں ملکوں خاص طور پنجاب کے دونوں حصوں میں آلودگی کا باعث بننے والے عوامل اور زرعی عادات ایک جیسی ہیں۔ پنجاب میں اکتوبر اور نومبر میں ہلکی اور معتدل ہوائیں چلتی ہیں۔ آلودگی کے ذرات اور دھوئیں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ہوا کی رفتار چھ کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔کہا جاتا ہے کہ آلودہ ذرات اور دھوئیں کی کسی بھی سمت میں نقل و حرکت کے لیے ہوا کی رفتار چھ کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اکتوبر سے مشرقی ہنجاب میں ہلکی ہوا چل رہی ہے۔ صرف دو بار ہوا کی رفتار چار کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تھی۔اسلام آباد جسے ملک کے پرفضا شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے یہاں بھی فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سموگ کے حوالے سے پنجاب حکومت نے سکول بند کر دیے ہوں بلکہ تین سالوں سے ہر سال یہی معمول رہا ہے اور نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں سکولوں کو بند کیا جاتا رہا ہے۔اس حوالے سے ایک عارضی حل مصنوعی بارش کو بھی کہا گیا تھا اور گزشتہ برس اس کے لیے متحدہ عرب امارات کے اشتراک سے کلائوڈ سیڈنگ بھی کی گئی تھی۔حکومت کی جانب سے فصلیں جلانے کے عمل کو روکنے کے لیے سپر سیڈرز نامی مشین متعارف کروانے کا عمل شروع کیا ہے جس کے ذریعے فصل کی کٹائی اور بیج بونے کا عمل ایک ساتھ ہو سکے گا۔ تاہم تاحال اس حوالے سے حکومت کی جانب سے مشین کی خریداری پر سبسڈی دی گئی ہے، اور یہ منصوبہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔پاکستان وہ پہلا ملک نہیں ہے جہاں سموگ کا مسئلہ اس قدر شدت اختیار کر گیا ہے بلکہ ماضی میں بیجنگ اور لندن بھی سموگ کی لپیٹ میں رہے ہیں اور اس سے نکلنے میں انہیں برسوں لگے ہیں۔ہم ان ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر سموگ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
۔
