وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ معیاری تعلیم علاقے کی دیرینہ ضرورت ہے۔جس کے بغیر ترقی و خوشحالی اور روشن مستقبل کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔وزیراعلی نے کہا کہ صوبائی حکومت کرنل مجیب الرحمن شہید پبلک سکول اینڈ کالج کی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی اور اس ادارے کے اساتذہ اور طلبا کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر جلد حل کیے جائیں گے۔وزیراعلی حاجی گلبر خان نے یقین دلایا کہ وہ درپیش مسائل کا جائزہ لینے کے لیے بہت جلد خود پبلک سکول اینڈ کالج جوٹیال کا خصوصی دورہ کریں گے۔یوں تو تعلیم کا فروغ ہی ہم جیسے ترقی پذیر ملک میں انتہائی مشکل رہا ہے اور ہزارہا کاوشوں کے باوجود اس راہ میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں ہمارے معاشرتی رویے بھی ہیں جن کی وجہ سے لوگوں اور خاص طور پر والدین کو قائل کرنے کا ہدف پورا نہیں ہو رہا ہے وہاں اگر بات کی جائے معیاری تعلیم کی تو اس ہدف کے حصول کے لئے معاشرتی اثرو رسوخ رکھنے والے تمام ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس سلسلے میں اپنی کاوشوں کے ذریعے اپنا حصہ ڈالنا ہو گا اقوام عالم نے تعلیم جیسے انتہائی اہم ہدف کو حاصل کرنے کے لئے میدان عمل آ کر کئی اہم کامیابیاں حاصل بھی کی ہیں ہر ملک اور ہر قوم کے اہم ترین اہداف میں تعلیم کا ہدف اور خاص طور پر معیاری تعلیم کا حصول ہے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے اس کے حصول کے لئے ممالک منصوبہ بندیاں کرتے ہیں اور عالمی ادارے بھی اس مقصد کے حصول میں ممالک کی مدد کیا کرتے ہیں۔ اقوام علم کے مشترکہ اہداف میں بھی تمام عمر کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کا حصول ممکن بناناقطع نظر رنگ، نسل، جنس اور مذہب کے مسلسل اور مفت، جامع، مساوی تعلیم کی بلا امتیاز فراہمی، پری پرائمری جماعتوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی ہر سطح پر کی جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے تربیت یافتہ اساتذہ فراہم کیے جائیں۔سیکنڈری کی سطح پر تعلیم میں تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ تربیت بھی ضروری ہے مخصوص شعبوں میں مختلف مہارتوں پر کام کیا جائے اور موجود مہارتوں کو بڑھایا جائے۔تعلیم میں موجود مختلف بنیادی معاشرتی رکاوٹوں کو ختم کر کے مساوات کو فروغ دیا جائے خاص طور پر جنس، عمر، نسل، رنگ، زبان، مذہب اور سیاست سے دور ہونا بھی ضروری ہے۔ معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی بھر سیکھنے کے مواقع تک رسائی اور ان کا جاری رہنا بھی ضروری ہے۔یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو اس سلسلے یعنی صرف تعلیم نہیں بلکہ معیاری تعلیم کی بلا امتیاز رنگ، مذہب، نسل اور جنس کے فراہمی کو ممکن بنا رہے ہیں اور ان کی کاوشوں کو نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے اور یہی وہ ادارے ہیں جو کہ خاموش انقلاب کا سبب بن رہے ہیں۔ ان اداروں میں نہ صرف معیاری تعلیم بلکہ بچوں کی جسمانی، ذہنی، معاشرتی اور سماجی مہارتوں پر بھی خصوصی طور توجہ دی جاتی ہے تاکہ ایک مکمل اور مفید انسان معاشرے کو فراہم کیا جا سکے ۔افسوسناک بات ےہ ہے کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم زوال پذیر ہے لیکن حقیقتا یہ مسئلہ زوال پذیر ہونے سے بھی زیادہ گمبھیر ہوچکا ہے۔ پاکستان میں نظام تعلیم کا زوال پذیر ہونا اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا غیر منظم و بے مقصد ہونا اصل مسئلہ ہے۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان نے نظام تعلیم پر سے اپنا کنٹرول دانستہ طور پر نہ صرف ختم کر دیا ہے بلکہ اسے مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بنیادی طور پر دو ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔ اول یہ کہ نظام تعلیم سے قومی تربیت کا عنصر ختم ہوگیا ہے اور دوئم یہ کہ تعلیم اس قدر مہنگی ہو گئی ہے کہ متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو گئی ہے۔ ایک واضح اور بامقصد قومی پالیسی کے تحت ہر سطح پر بچوں اور نوجوانوں کی فکری تربیت کسی بھی بیدار قوم کے لئے آگے بڑھنے میں ممدود و معاون ثابت ہوتی ہے۔ قوموں کی ترقی کے لئے تعلیم و تربیت جسم میں دوڑتے خون کی طرح ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کا المیہ ہے کہ اس جانب عملی طور پر کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ تعلیم کے لئے ہمارے بجٹ کا حجم ثبوت کے طور پر کافی ہے۔ دوسرے ملکوں کے سیکولر اور اسلام دشمن نصاب کواپنا کر ہم اپنی نسلوں کو بے مقصد اور لادین بنا رہے ہیں اور ایسی نسل سے یہ توقع رکھنا کہ ان میں نظم و ضبط پیدا ہو گا یا یہ کہ وہ قومی مسائل کا ادراک اور قومی خدمت کا شعور رکھیں گے ایک خواب عبث ہے۔ ہمارے نظام تعلیم اور ملازمت کے مواقع کے درمیان ربط کا فقدان ہے جس کی بنا پر بڑی تعداد میں نوجوان یورپ، جنوبی امریکا اور آسٹریلیا کا رخ کررہے ہیں۔ یہ نوجوان پاکستان کے لئے بھی کارآمد ہو سکتے ہیں اگر انہیں قومی سطح پر مرتب شدہ بامقصد تعلیم دی جائے مگر افسوس اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ دروازہ بھی بند ہو گیا کیونکہ تعلیم اب ایک صوبائی معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔جب تک ہمارا اپنا تیار کیا ہوایکساں نظام تعلیم نافذ نہیں ہوگا، ہمارا ایک مربوط اورمنظم طریقے سے ترقی کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان کے تمام بورڈز کو توڑ کر نیا بورڈ بنانے اور مرکزی نظام تعلیم نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹر تک تعلیم مفت ہونی چاہیئے اور نصاب ایک ہونا چاہئے۔ غیر ملکی سلیبس پڑھنے والوں کے لئے ملک کی تمام جامعات میں داخلے کو ممنوع قرار دیا جائے۔ اگر حکومت عوام کے لئے مفت صحت اور مفت تعلیم کا انتظام کر دے تو پاکستان میں گھٹتے ہوئے مڈل کلاس کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے ملک میں تمام ہی سرکاری اسکولوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولیات بھی نہیں پہنچ پائی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ کو بھی انٹرنیٹ تک فوری اور بہتر رسائی دستیاب نہیں۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس سے اساتذہ اور طلبہ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے تعلیمی معیار پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ بچیوں کو والدین دیہی علاقوں میں اس لیے اسکول بھیجنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ بہت سے اسکولوں میں واش روم جیسی بنیادی سہولت نہیں ہوتی۔لڑکیوں کے اسکولوں کی چار دیواری نہیں ہوتی اور کئی اسکولوں میں تو بیٹھنے کے لیے کلاس روم اور پینے کا پانی بھی مہیا نہیں۔ ہر سال چاروں صوبے اور وفاق کئی ہزار ارب روپے خرچ کرتے ہیں۔ لیکن نتائج قابل اطمینان بھی نہیں ہوتے۔ملک کے چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان، کشمیر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تعلیم کی بہتری اورفروغ کے لیے رواں مالی سال کی مجموعی قومی آمدن کا ایک اعشاریہ 91 فی صد مختص کیا گیا ہے جو لگ بھگ دو ہزار 32 ارب روپے کی خطیر رقم بنتی ہے۔ ایک جانب یہ رقم ٹھیک طور پر خرچ نہیں کی جاتی اور اس میں بیشتر رقم تنخواہوں کی ادائیگی میں خرچ ہوتی ہے جب کہ تعلیم کے لیے انفراسٹرکچر کی فراہمی، تحقیق اور تعلیمی معیار کو بڑھانے پر بہت کم رقم بچ پاتی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہر ملک کو اپنے جی ڈی پی کا چار فی صد تعلیم پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں تعلیمی نظام ان وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر انحطاط کا شکار اور کرپشن میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے منصوبے مکمل نہیں ہو پاتے اور حتی کہ تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل درسی کتابیں تک دستیاب نہیں ہوپاتیں۔ ملک کے تعلیمی نظام میں نجی شعبہ بہتر تعلیم بچوں کرنے کا ذریعہ رہا ہے اور کئی تعلیمی اداروں کا معیار ترقی یافتہ اقوام سے کم نہیں۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ ایسے نجی اداروں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا غریب اور حتی کہ متوسط طبقے کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہیں۔ ایک عام کسان، مزدور یا کم تنخواہ کا حامل اپنے بچوں کو ایسے مہنگے نجی اسکولوں میں پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہی وجوہات کی بنا پر ملک میں طبقاتی نظام جڑ پکڑ رہا ہے۔ غریب کے بچوں کے لیے کچھ اور تعلیم ہے جب کہ امیروں کے بچوں کی تعلیم کے لیے الگ ہی نظام ہے۔ملک میں تعلیم کی ہیئت بدل دی گئی ہے۔ تعلیم صرف پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ ایسے میں تعلیم، تعلیم نہیں رہتی بلکہ وہ تجارت بن جاتی ہے۔تعلیم کو تجارت بنانے کے ساتھ، تربیت کو اس سے کوسوں دور کر دیا گیا ہے اور اب تعلیم اور تربیت کو ایک ہی معنی میں لینے کے بجائے اسے دو الگ سانچوں میں ڈھال دیا گیا ہے۔ ملک میں جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے تعلیم کو فوقیت ہی نہیں دی بلکہ صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا۔ اب تعلیم ان کی فہرست میں کہیں دور ہے اور جو ملک تعلیم کو سنجیدگی سے نہیں لیتے وہاں کسی بہتری اور حقیقی ترقی صرف خواب ہی رہ جاتی ہے۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کے مستقبل کی خاطر حکومت تعلےمی نظام کی بہتری پر توجہ دے اور اس کے لےے مطلوبہ اقدامات بروئے کار لائے۔
