گلگت بلتستان میں شمسی توانائی پلانٹ لگانے کا اعلان


وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں سو میگا واٹ کا شمسی توانائی کا پلانٹ لگے گا، یہ منصوبہ ایک سال کے اندر مکمل کرلیا جائے گا۔انہوں نے گلگت بلتستان میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا، اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان مین اپنی بہنوں اور بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے عطا آباد جھیل سے پن بجلی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا، اس کے علاوہ انہوں نے گریٹر واٹر سپلائی ہنزہ منصوبے کا بھی سنگ بنیاد رکھا، وزیر اعظم کی جانب سے گلگت بلتستان میں علاقائی گرڈ کی تعمیر کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا۔ سنگ بنیادرکھے جانیوالے منصوبوں میں دو پن بجلی منصوبے بھی شامل ہیں۔وزیر اعظم کہنا تھا گلگت بلتستان کے حوالے سے آج اجلاس میں بہت تفصیلی بات ہوئی، اجلاس میں سردیوں میں بجلی اور پانی کے مسائل سمیت تعلیم پر بات ہوئی، سڑکوں اور انفراسٹرکچر سے متعلق سیرحاصل گفتگو ہوئی۔سورج ایک انتہائی طاقتور توانائی کا ذریعہ ہے، سورج کی روشنی اب تک حاصل ہونے والی توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔زمین ، لیکن زمین کی سطح پر اس کی شدت دراصل کافی کم ہے ۔ یہ بنیادی طور پر دور سورج سے تابکاری کے بہت زیادہ ریڈیل پھیلائو کی وجہ سے ہے۔ ایک نسبتا معمولی اضافی نقصان زمین کے ماحول اور بادلوں کی وجہ سے ہوتا ہے ، جو آنے والی سورج کی روشنی کا چون فیصد تک جذب یا بکھر جاتے ہیں۔شمسی توانائی زمین پر بے شمار قدرتی عمل کو چلاتی اور متاثر کرتی ہے۔نسانی زندگی کی نقل و حرکت کا خاصا انحصار توانائی پر ہے۔ آج جس بڑے پیمانے پر توانائی کا استعمال ہو رہا ہے اس سے خدشہ یہ ہے کہ توانائی کے ذخائر بہت دنوں تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ توانائی کے یہ ذخائر اور ذرائع ماحول کو بھی آلودہ کر رہے ہیں۔ ہمیں توانائی کے نئے متبادل تلاش کرنے ہوںگے تاکہ توانائی کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی آلودگی سے بچایا جاسکے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم تیل، کوئلہ، لکڑی اور گوبر کے علاوہ دھوپ، ہوا، پانی اور دیگر توانائی کے قدرتی ذرائع کا استعمال کریں۔ مزید برآں شمسی توانائی جو کبھی نہ ختم ہونے والا ذریعہ ہے۔ روایتی توانائی کے ذرائع ہیں کوئلہ، معدنی تیل، لکڑی اور گوبر وغیرہ جب کہ غیر روایتی توانائی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں شمسی توانائی، آبی یا موجی توانائی، ہوائی توانائی،پودوں سے پٹرول کشید کرکے توانائی حاصل کرنا، جوہری توانائی، بائیو گیس اور ارضی حرارتی توانائی۔ کوئلہ، معدنی تیل اور برقاب توانائی حاصل کرنے کے تین اہم وسائل ہیں جن میں جوہری توانائی کا اضافہ ابھی حال میں ہوا ہے۔ کوئلہ توانائی کے حصول یا صنعتی ایندھن کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ کوئلے کی تین قسمیں ہیں۔ اینتھرا سائیٹ، بِیٹومینس اور لگنائیٹ۔ ان سب میں سب سے عمدہ قسم اینھتراسائیٹ کی ہوتی ہے جس میں دھواں کم نکلتا ہے اور بہت گرمی دیتا ہے۔ دوسری قسم میں دھواں نسبتا زیادہ نکلتا ہے مگر یہ بھی کافی گرمی دیتا ہے۔ تیسری قسم میں آنچ کم اور دھواں بہت ہوتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئلے کے علاوہ قدرتی تیل یا پٹرولیم توانائی حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ ہے۔ اور یہ نہایت کار آمد ایندھن بھی ہے۔ کچے قدرتی تیل سے ہمیں مٹی کا تیل، ڈیزل، پٹرول، اسپرٹ، کھانا پکانے کی گیس وغیرہ حاصل ہوتی ہے۔ ہماری روزانہ کی زندگی میں قدرتی تیل اور اس سے بنی ہوئی اشیا کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اسکوٹر، موٹر سائیکل، کار، بسیں، ریل گاڑیاں، جہاز، ہوائی جہاز ملیں اور فیکٹریاں وغیرہ پٹرول اور ڈیزل سے چلتے ہیں۔ غرض یہ کہ قدرتی تیل یا پٹرولیم ہماری معاشی زندگی کی شہہ رگ ہے۔زمین اندر سے بہت گرم ہے اور اس میں جگہ جگہ پر گرم پانی کی دھار یا سوکھی بھاپ کی تیز دھار پھوٹتی رہتی ہے۔ اس حرارت کو اگر توانائی میں بدل دیا جائے تو ہزاروں سال تک توانائی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ کوئلہ سے پٹرول بنانے کا طریقہ جنوبی افریقہ میں شروع ہوا۔ وہاں کوئلے کی کانیں وافر مقدار میں کوئلہ فراہم کر سکتی ہیں مگر یہ طریقہ بہت مہنگا ہے اور اس میں کوئلے کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کوڑا کرکٹ سے بھی توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکا میں سالانہ 25 کروڑ ٹن کوڑا پھینکا جاتا ہے۔ اس سے دس کروڑ ٹن کوئلے کے برابر توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پودوں سے بھی پٹرول حاصل کیا جاتا ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق گنے کے رس سے الکوحل بنائی جاتی ہے اور اس الکوحل کو بطور پٹرول استعمال کرکے گاڑی چلائی جا سکتی ہے۔  عہد حاضر کے سائنس داں سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے تجربات میں مصروف ہیں۔ ہوا کی طاقت کا استعمال دنیا کے کچھ ممالک نے آٹے کی چکیوں کو چلاکر کیا ۔ بہتے ہوئے پانی کوباندھ کے ذریعے روک کر بہت اونچائی سے گرا کر بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اگر سائنسی ترقی اسی رفتار سے ہوتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب سورج کی روشنی سے طاقت حاصل کرکے ہر وہ کام کیا جائے گا جو آج قدرتی تیل سے ہو رہا ہے اور جس کے ذخائر محدود ہیں۔ شمسی توانائی کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی ہے۔شمسی توانائی کو شمسی توانائی کے طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، کیونکہ دنیا کی کل یومیہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا تقریبا دو لاکھ گنا زمین ہر روز شمسی توانائی کی شکل میں حاصل کرتی ہے۔ بدقسمتی سے، اگرچہ شمسی توانائی بذات خود مفت ہے لیکن اس کے جمع کرنے، تبدیل کرنے اور ذخیرہ کرنے کی زیادہ لاگت اب بھی کئی جگہوں پر اس کے استحصال کو محدود کرتی ہے۔ شمسی توانائی طویل عرصے سے براہ راست تھرمل توانائی کے ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے، تکنیکی ترقی نے سورج کی حرارتی توانائی کے استعمال اور استعمال کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور شمسی توانائی کی پیداوار کے دروازے کھول دیے ہیں۔سب سے زیادہ استعمال ہونے والے فلیٹ پلیٹ جمع کرنے والے ایک سیاہ دھاتی پلیٹ پر مشتمل ہوتے ہیں، جو شیشے کی ایک یا دو چادروں سے ڈھکی ہوتی ہے، جو اس پر پڑنے والی سورج کی روشنی سے گرم ہوتی ہے۔ اس گرمی کو پھر ہوا یا پانی میں منتقل کیا جاتا ہے ، جسے کیریئر سیال کہتے ہیں، جو پلیٹ کے پچھلے حصے سے گزرتی ہے۔ گرمی کو براہ راست استعمال کیا جا سکتا ہے یا اسے اسٹوریج کیلئے کسی دوسرے میڈیم میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ فلیٹ پلیٹ جمع کرنے والے عام طور پر سولر واٹر ہیٹر اور گھر کو گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ رات کے وقت یا ابر آلود دنوں میں استعمال کے لیے گرمی کا ذخیرہ عام طور پر دھوپ کے دنوں میں گرم ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے موصل ٹینکوں کا استعمال کرکے مکمل کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا نظام سٹوریج ٹینک سے نکالے گئے گرم پانی کے ساتھ گھر کو فراہم کر سکتا ہے، یا فرش اور چھتوں میں ٹیوبوں کے ذریعے بہنے والے گرم پانی کے ساتھ، یہ جگہ کو گرم کر سکتا ہے۔حرارتی توانائی کی تبدیلی کا ایک اور طریقہ شمسی تالابوں میں پایا جاتا ہے، جوشمسی توانائی کو جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔۔ ایک وسیع علاقے سے موصول ہونے والی سورج کی روشنی کو ایک چھوٹے سیاہ رسیور پر مرکوز کرنے کے لیے، اس طرح روشنی کی شدت میں کافی اضافہ ہوتا ہے تاکہ زیادہ درجہ حرارت پیدا ہو سکے۔ اس گرمی کو پھر بوائلر چلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو بدلے میں بھاپ ٹربائن الیکٹرک جنریٹر پاور پلانٹ کے لیے بھاپ پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح، شمسی توانائی سے چلنے والے ڈی سیلینیشن یونٹس نمکین پانی کو پینے کے پانی میں تبدیل کر کے سورج کی توانائی کو بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر گرمی میں تبدیل کر کے نمکین پانی کو صاف کرتے ہیں ۔توانائی کے متبادل ذرائع کے طور پر ہائیڈروجن کی صاف اور قابل تجدید پیداوار کے لیے شمسی ٹیکنالوجی بھی ابھری ہے۔ فوٹو سنتھیس کے عمل کی نقل کرتے ہوئے ، مصنوعی پتے سلکان پر مبنی آلات ہیں جو شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کرتے ہیں ، جس سے عملی طور پر کوئی آلودگی نہیں ہوتی۔ صنعتی استعمال کے لیے ان آلات کی کارکردگی اور لاگت کی تاثیر کو بہتر بنانے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے ۔اگرچہ سورج کی روشنی مفت ہے، لیکن شمسی نظام کو ڈیزائن کرنے میں مواد اور دستیاب جگہ کی قیمت پر غور کیا جانا چاہیے۔ کم کارآمد سولر پینل زیادہ پینلز کا مطلب ہے، زیادہ جگہ پر قبضہ کرتے ہوئے، اتنی ہی مقدار میں بجلی پیدا کرنے کے لیے۔ مواد کی قیمت اور کارکردگی کے درمیان سمجھوتہ خاص طور پر خلائی نظام شمسی کے لیے واضح ہے۔ گلگت بلتستان میں اگرچہ پانی سے بہت زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن یہاں کے باسی بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ سے دوچار ہیں حالانکہ ان کی بجلی کی ضرورت اتنی زیادہ نہیں ہے اب شمسی توانائی کا پلانٹ لگانے کا اعلان خوش آئند ہے اور امید ہے یہاں کے مکینوں کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل سکے گی۔