آزادی کی روشن صبح

گلگت بلتستان کے عوام کیلئے آج کا دن لازوال دن ہے'اس دن انہوں نے اپنی قوت بازو سے آزادی کی نعمت حاصل کی'آزادی بے شمار جانوں کی قربانی سے عبارت ہے' یہ پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی۔گلگت بلتستان کے عوام آج یوم آزادی نہایت جوش و خروش سے منا رہے ہیں۔1947میں جب ہندوستان تقسیم ہوا تو گلگت بلتستان کے لوگوں اور خاص طور پر سکائوٹس نے انتہائی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے علاقے کو آزاد کرایا اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا گیا۔ یکم نومبر کو ہر سال گلگت کی آزادی کا دن منایا جاتا ہے۔ 1947 میں آج ہی کے دن ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے گلگت میں متعین گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو مقامی فورس گلگت سکائوٹس نے فوجی بغاوت کے ذریعے گرفتار کیا اور اس کے ساتھ ہی گلگت میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ جمہوریہ گلگت کے نام سے یہاں ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ راجہ شاہ رئیس خان اس کے صدر اور کرنل مرزا حسن خان فوجی سربراہ مقرر ہوئے۔ پندرہ روز بعد گلگت کے عوام نے اسلامی رشتے کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور اس حوالے سے ہنزہ و نگر دونوں ریاستوں کے سربراہوں نے بھی بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ باقاعدہ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے عوامی جذبات وخواہشات کی عملی توثیق بھی کر دی۔ یہ گلگت  بلتستان کی آزادی کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد  بلتستان میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ کم و بیش چھ ماہ کی خونریز جنگ کے بعد چودہ اگست 1948 کو  بلتستان کا علاقہ ڈوگرہ استبداد کے چنگل سے آزاد ہوا۔ اس جنگ میں گلگت سکائوٹس، سکستھ جموں اینڈ کشمیر انفنٹری کے مسلمان فوجی،  بلتستان کے عوام اور چترال سکائوٹس نے یکجان ہوکر جس جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا وہ دنیا کی عسکری تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ چونکہ گلگت  بلتستان کی تحریک آزادی کی جڑیں اسلام اور پاکستان سے جڑی ہوئی تھیں، اس لئے ا س علاقے کے حریت پسندوں کا اسلام اور پاکستان کے ساتھ والہانہ جذبے کا مظاہرہ فطری امر تھا۔ ڈوگروں کے ایک سو سات سالہ جارحانہ اور ظالمانہ تسلط سے نجات حاصل کرنے کیلئے گلگت  بلتستان کے عوام نے بھرپور قومی و ملی یکجہتی کے ساتھ جن پرخطر، کٹھن اور مشکل مراحل کو عبور کیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آزادی کی اس جنگ میں شریک مجاہدین کے پاس نہ بھاری اسلحہ تھا اور نہ ہی وہ عسکری طور پر تربیت یافتہ تھے۔ بس یقین محکم اور عزم و استقلال کے ساتھ نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری کی صدائیں بلند کرتے ایک طرف گلگت سے لے کر تراگبل گریز تک جبکہ دوسری طرف سکردو سے لے کر کارگل و لداخ اور زانسکار پدم تک کے وسیع و عریض خطے کو آزاد کرالیا، وہ واقعات تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اس دوران معرکہ بونجی، روندو ایکشن، سکردو چھائونی پر حملہ، معرکہ تھورگو پڑی، پرکوتہ ایمبوش، گریز، تلیل، بانڈی پورہ، دراس، کارگل، نوبراہ، لداخ اور پدم میں لڑی جانے والی گھمسان کی جنگیں عالمی عسکری تاریخ میں بے مثال ہیں۔تقسیم ہند کے منصوبہ کے تحت برٹش انڈیا نے گلگت لیس ایگریمنٹ کینسل کردیا اور گلگت ایجنسی مہاراجہ کے حوالے کیا اسطرح جب انگریز پولیٹیکل ایجنٹ رخصت ہوا تو مہاراجہ نے پہلے کرنل بلدیو سنگھ پٹھانیہ کو گلگت کا گورنر مقرر کیا پھر اس کی جگہ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کردیا۔احمد شجاع پاشا مسئلہ کشمیر نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل گلگت کے کیپٹن حسن خان دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس حاصل کرنے کے بعد وطن پہنچے تو انہیں ان کے مسلمان سپاہیوں کے ساتھ سرینگر سے گلگت جانے کا حکم ملا۔انہوں نے واپس کشمیر پہنچنے سے قبل ہی بغاوت کا منصوبہ بنایا اور جب مہاراجہ نے 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کا اعلان کیا تو گلگت سکائوٹس کے مقامی فوجیوں کے ساتھ مل کر کرنل حسن خان نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔گلگت سکائوٹس نے مقامی افراد کی مدد سے گورنر کے محل کو گھیرے میں لے لیا گورنر گنسارا سنگھ نے اپنے دو ملازمین کے ساتھ بڑی دلیری اور جرات کے ساتھ مقابلہ کیا بالآخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیا اسے حراست میں لیا گیا اور یکم نومبر 1947 کو ڈوگرہ حکومت سے آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا گیا۔ شاہ رئیس خان کو آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا صدر قرار دیا گیا  بعدازاں گورنر گھنسارا سنگھ کو قیدیوں کے تبادلے میں ہندوستان کے حوالے کیا گیا ۔اسی پس منظر میں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں قائم ہونے والی آزاد حکومت صرف سولہ دن تک برقرار رہی پھر حکومت پاکستان نے اس علاقہ کو معاہدہ کراچی 28  اپریل 1949کے تحت پاکستان کے زیر انتظام لے لیا۔جنگ آزادی گلگت بلتستان کے وقت گلگت میں تعینات برٹش میجر ولیم بروان کمانڈنٹ گلگت سکوٹس کی وفات کے چودہ سال بعد اس کی یادداشتوں کو کتاب کی شکل دے کر میجر برائون کی بیوہ مارگریٹ نے شائع کروایا اس طرح انگریز میجر الگزینڈر بروان سے منسوب کرکے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کا نام دیا گیا جو کہ ایک نوآبادیاتی نقطہ نظر ہے۔ جنگ آزادی ہند 1857 کو بھی انگریزوں نے غدر یا بغاوت کا نام دیا تھا چونکہ ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جبری قبضہ اور تسلط کو چیلنج کیا تھا اس لئے تقریبا تمام برطانوی اور یورپی لکھاریوں نے اسے بغاوت ہند کا نام دیا مگر مشہور فلاسفر کارل مارکس نے اسے جنگ آزادی ہند کا نام دیا تھا۔ہندوستان کے مقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے بھی اس بغاوت کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا ہے حالانکہ اس جنگ آزادی ہند میں حصہ لینے والوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بری طرح شکست دیکر بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور جنگ کے بعد اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے براہ راست سپرد کردیا تھا۔1857 میں انڈیا میں تعینات انگریز سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا نے برطانوی پارلیمنٹ کو اس واقعے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے سب سے پہلے اسے بغاوت کا نام دیا پھر اس کے بعد برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جس وقت انقلاب گلگت رونما ہورہا تھا اس وقت ولیم برائون کی عمر صرف چوبیسواں سال تھی انہوں نے اپنا پچسواں جنم دن گلگت میں منایا تھا اور انقلاب گلگت کے وقت وہ گلگت سکائوٹس کے کمانڈنٹ تھے انقلاب گلگت کے بعد گلگت سے واپسی پر جولائی 1948 کو ولیم برائون کو حکومت پاکستان نے فرنٹیر کانسٹیبلری میں ملازمت دی جو صوبہ سرحد میں نارتھ وزیرستان پولیس فورس کہلاتی تھی اور اگلے دو سالوں تک اس نے وہاں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ گلگت  بلتستان کے عوام نے آزادی کے بعد1965ئ1971 اور 1999 میں کارگل جنگ کے دوران جوانمردی کے ساتھ وطن عزیز کے دفاع میں ناقابل فراموش کارنامے سر انجام دیئے۔1947 سے اب تک گلگت  بلتستان کے ہزاروں جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوکر معذور و اپاہج ہو چکے ہیں۔ معلوم نہیں کتنے لوگ بے خانماں ہوئے اور کتنے سہاگ لٹ گئے۔ جبکہ بلتستان اور کارگل و لداخ کے ہزاروں خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ یہ سب کچھ یہاں کے لوگوں نے وطنِ عزیز پاکستان کی محبت میں قبول کیا۔ 2009  میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے محدود خود مختار صوبے کا درجہ دے دیا۔ جس کے تحت اب تک تین حکومتیں الیکشن کے ذریعے بن چکی ہیں۔گلگت بلتستان کے لوگوں اور عوامی نمائندوں کا پر زور مطالبہ ہے کہ اس علاقے کو باقی صوبوں کی طرح مکمل آئینی حیثیت دی جائے۔اس لیے حکام کو چاہیے کہ عرصہ دراز سے آئینی حیثیت کے منتظر خطے کے عوام کو ان کا حق دینے میں لیت و لعل سے کام نہ لیا جائے۔آزادی کی یہ نعمت تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پورا کریں اور اس خطے کی ترقی و بہبود کیلئے اپنی تمام تر توانائیوں و صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں تاکہ یہ سرزمین ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔