مصنوعی ذہانت کی دنیا


وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ریاض فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو فورم کے موقع پر دو طرفہ ملاقات ہوئی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ سعودی وژن 2030  پاکستان کے کلیدی پالیسی مقاصد سے ہم آہنگ ہے، ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے مضبوط پاکستان سعودی اقتصادی شراکت داری کا اعادہ کیا اور تجارتی سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے دائرہ کار میں جاری دو طرفہ تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے خطے میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی بے پناہ تباہی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔شہباز شریف نے کہا پاکستان ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن ہے نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت میں ماہر بنا رہے ہیں۔یہ دور آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا دور ہے دنیا کے مختلف ممالک میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ذریعے نہ صرف طب بلکہ کئی شعبوں میں تحقیق کے لیے اس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ دفاعی میدان سمیت کئی شعبوں میں اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے استعمال سے آنے والی تبدیلیاں جہاں ٹیکنالوجی میں ایک نیا سنگِ میل ثابت ہو رہی ہیں ، وہیں ماہرین کو اس بارے میں کئی خدشات اور تحفظات کا سامنا بھی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کسی بھی مخصوص چیز یا موضوع پر انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے ذخیرے کو یکجا کرکے اس کو پروگرامنگ کی مدد سے مواد کی شکل میں تبدیل کرکے پیش کیا جائے۔مصنوعی ذہانت کے ساتھ مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب اس نظام کا مقابلہ انسانی ذہانت سے کرنا شروع کردیا جائے یا وہ اس سے آگے نکل جائے۔ایسے میں یہ انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور ان خدشات کا اظہار خود اس کے موجد جیفری ہنٹن نے بھی کیا تھا۔پاکستان  قومی مصنوعی ذہانت کی پالیسی کا مسودہ تیار کر چکا ہے جس کا مقصد پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت اور معاشرے کی طرف فعال کرنے کے لیے صارف کی سہولت اور شواہد پر مبنی، مستقبل کے حوالے سے چست پالیسی فریم ورک کی تیاری بتایا جاتا ہے۔پالیسی مسودے میں کہا گیا کہ پاکستان کے پاس نوجوان آبادی کو تعلیم دے کر ڈیجیٹل دنیا سے فائدہ اٹھانے کا ایک منفرد موقع موجود ہے جو ہمارے قومی مستقبل کو سدھارنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔اس کا مقصد شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی کے ذمے دارانہ اور شفاف استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی پالیسی کی تیاری پاکستان کو علم پر مبنی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے اہم سنگ میل ہے۔ لیکن ابھی اس پر بہت سا کام باقی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ٹیکنالوجیز کا مستقبل ہے اور اس کی آمد کو اب روکا نہیں جا سکتا۔ خاص طور پر خدمات کے شعبے میں اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کا یہ واحد راستہ ہے۔اس سلسلے میں قابل عمل فریم ورک اپنانے کے لیے ضروری نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ایک قومی حکمتِ عملی بنانا ضروری ہوگیا ہے۔ پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں چونسٹھ فی صد نوجوان ہیں اور ان کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ اتنی بڑی نوجوان آبادی کے ساتھ ملک کو نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہر شعبے میں معاشی فوائد سمیٹنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اس کیلئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔پاکستان میں مصنوعی ذہانت میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے اور یہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کسی قانونی فریم ورک کی کمی ہے۔ پالیسی سازوں کو اس مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں ہی حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکا اور مثبت استعمال کو بروئے کار لایا جاسکے۔پاکستان تمام ممالک کے لیے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک منصفانہ، غیر مشروط اور مساوی رسائی کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک رسائی پر غیر ضروری پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس بہت تیزی سے ہماری زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہے۔بے شمار کام اے آئی کے سپرد کیے جارہے ہیں جس کی مدد سے طلبہ و طالبات اور دفاتر میں ملازمین کو اپنے کام میں مزید آسانی میسر ہوجاتی ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے حالیہ برسوں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے، جس نے صنعتوں کو تبدیل کیا اور ہمارے کام اور زندگی گزارنے کے طریقوں کو حیرت انگیز انقلاب کی طرف لے جا رہی ہے۔ اے آئی بڑی تعداد میں ڈیٹا کو انسانوں سے زیادہ تیز اور درست طریقے سے پراسیس کر سکتی ہے۔ اے آئی مخصوص شعبوں میں مہارت رکھتی ہے۔ماہرین کیا کہتے ہیں؟ اے آئی اگلے پانچ سے دس سالوں میں انسانی ذہانت سیبھی آگے نکل جائے گی۔ اے آئی بے شمار شعبہ جات میں ملازمتوں کو خود کار بنا سکتی ہے، جس سے یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ یہ بہت جلد انسانی ملازمین کی جگہ بھی لے لے گی۔گزشتہ عرصے کے دوران چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ باٹس اور مڈجرنی جیسے امیج جنریٹرز بڑی تیزی سے ایک سماجی حقیقت بن گئے ہیں۔مشین لرننگ کا اہم مرحلہ ٹریننگ کہلاتا ہے جس میں ایک کمپیوٹر پروگرام کو بڑی تعداد میں ڈیٹا فراہم کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں ایسی معلومات شامل کی جاتی ہیں تاکہ اسے معلوم ہوسکے کہ یہ ڈیٹا کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس پروگرام کو مختلف ہدایات دی جاتی ہیں۔یہ پروگرام پھر ڈیٹا کے اندر ایسے نمونے تلاش کرتا ہے اور آپ کے دیے گئے اہداف حاصل کرتا ہے۔لاکھوں برسوں کے دوران قدرتی ماحول میں مختلف جانوروں میں مخصوص صلاحیتیں پیدا ہوئیں۔ اسی طرح جب اے آئی تربیتی ڈیٹا کو لاکھوں بار پرکھتا ہے تو اس میں خاص صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں جس سے مخصوص کاموں کے لیے اے آئی ماڈل بنتے ہیں۔الفاظ اور اصطلاحات میں اربوں مرتبہ موازنوں کی مدد سے یہ کوئی سوال پڑھ سکتا ہے اور اس کا جواب تیار کر سکتا ہے۔ یہ موبائل فون پر پریڈکٹو ٹیکسٹ مسیجنگ جیسا ہے، لیکن بہت بڑے پیمانے پر۔آئندہ دس برسوں میں چیٹ باٹس کسی بھی شعبے میں ایک ماہر کے طور پر موجود ہوں گے۔ آپ ایک ماہر ڈاکٹر، ماہر استاد، ماہر وکیل یا کسی سے بھی بات کر سکیں گے اور اس نظام سے اپنے کام کروا سکیں گے۔اے آئی اس وقت آواز ریکارڈ کرتا ہے جب آپ بولتے ہیں، یہ پس منظر کے شور کو حذف کر دیتا ہے، آپ کی باتوں کو فونیٹک یونٹس میں تبدیل کر دیتا ہے اور پھر اس کا موازنہ اپنی لائبریری میں موجود لینگویج سانڈز سے کرتا ہے۔آپ کی باتوں کو پھر تحریر میں تبدیل کیا جاتا ہے جہاں سننے میں کسی غلطی کے امکان کی تصحیح کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ آپ کے سوال کا جواب دیا جاتا ہے۔اس قسم کی مصنوعی ذہانت کو نیچرل لینگویج پراسیسنگ کہتے ہیں، یعنی قدرتی انداز میں کسی زبان کو سمجھنا۔یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو فون بینکنگ کے عمل میں کسی ادائیگی کرنے کی تصدیق سے فون سے شہر کا موسم دریافت کرنے تک سب چیزوں کے پیچھے کارفرما ہے۔سیلف ڈرائیونگ یا خودکار گاڑیاں کئی دہائیوں سے اے آئی کی بحث کا حصہ رہی ہیں اور سائنس فکشن نے انہیں ہمارے خیالات کا حصہ بنا دیا ہے۔سیلف ڈرائیونگ اے آئی کو خودمختار ڈرائیونگ بھی کہتے ہیں۔ اس میں گاڑیوں میں کیمرے، ریڈار اور رینج سینسنگ لیزر نصب کیے جاتے ہیں۔اے آئی کو لاکھوں گھنٹوں تک یہ تربیت دی گئی ہے کہ اچھی ڈرائیونگ کیسی ہوتی ہے اور اس سے یہ اس قابل ہوا ہے کہ اصل دنیا میں کار چلا سکے اور حادثوں سے بچ سکے جبکہ انسانوں کی ڈرائیونگ کے حوالے سے پیشگوئی کرنا قدرتی طور پر ناممکن ہے۔اے آئی ماڈل ہماری  زندگیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کو ادھار لینا چاہیے یا قرضے پر گھر لینا چاہیے۔ یہ آپ کو آن لائن اشتہارات کے ذریعے بتاتا ہے کہ آپ کو کیا خریدنا ہے۔کچھ لوگوں کے مطابق مصنوعی ذہانت پر تمام تر تحقیق کا یہی مقصد ہے اور دوسروں کے لیے یہ بس سائنس فکشن تک محدود خیال ہے کہ یہ ہماری سمجھ بوجھ سے کہیں ذہین نظام بن جائے گا اور ہم اسے قابو میں نہیں رکھ سکیں گے۔انٹرنیٹ پر تصنیفات اور ڈیجیٹل کتابوں کا متن اتنا زیادہ تھا کہ کچھ مہینوں میں چیٹ جی پی ٹی لفظوں کو بامعنی انداز میں جوڑنا سیکھ گیا جس کے بعد انسانوں کو اس کے جوابات کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔چیٹ جی پی ٹی نے ایک بہت بڑا شماریاتی ماڈل تیار کرنے کے لیے الفاظ کے درمیان تعلق کا اس قسم کا قریبی تجزیہ کیا جسے وہ پیشین گوئیاں کرنے اور نئے جملے بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔اس کے لیے بھاری مقدار میں کمپیوٹنگ پاور درکار ہوتی ہے جس سے اے آئی انفرادی لفظ، جملے یا کئی صفحات پڑھ لیتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ انہیں کیسے بار بار استعمال کیا گیا۔ یہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہو جاتا ہے۔گزشتہ سال ڈیپ لرننگ کے ماڈلز میں نئی جدتوں نے مصنوعی ذہانت کو لے کر خوشی کے ساتھ تشویش کی لہر بھی پیدا کی ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔سائنس فکشن کے وعدے اور انتباہ حقیقت میں تبدیل ہو گئے ہیں اور اب ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں مصنوعی ذہانت اپنی عجیب و غریب غیرانسانی صلاحیتیں دکھانا شروع ہوگئی ہے۔