وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کرنے، ہراسانی اور افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ کر دیا ہے۔ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے نیشنل سائبر کرائمز انوسٹی گیشن ایجنسی رولز کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق ریاستی اداروں اور سرکاری شخصیات کے خلاف پروپیگنڈے پر سخت کارروائی ہو گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سائبر کرائمز میں ملوث افراد کو پانچ تاپندرہ سال سزا اور بھاری جرمانہ ہو سکے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ گیارہ ماہ بعد این سی سی آئی اے پورے اختیارات کے ساتھ فعال ہو گئی ہے، این سی سی آئی اے سائبر کرائمز کے خلاف کارروائی کیلئے عالمی اداروں سے رابطے کی مجاز ہو گی۔نگراں حکومت نے دسمبر 2023 میں این سی سی آئی اے قائم کرنیکی منظوری دی تھی، ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ ختم ہو جائیں گے اور متعلقہ افسران ایک سال تک اتھارٹی میں خدمات دیں گے۔ ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے منفی اثرات سماج پر واضح ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ہر بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ جب لوگ آنکھیں اور کان بند کر کے دوسروں کی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے اپنی عقل کا استعمال کریں اور معاملے کی تھوڑی تحقیق کر لیا کریں۔ جس ڈیوائس سے لوگ سوشل میڈیا کی پوسٹیں دیکھتے اور آگے بھیجتے ہیں اسی پر معلومات کی سرچ بھی اتنی ہی آسان ہے جتنا کہ ہر آنے والی بات کو آگے بھیجنا۔ اگر سماج میں بہتان طرازی اور ڈِس انفارمیشن کے واقعات زیادہ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آسانی سے پروپیگنڈا کا شکار ہونے کا رجحان رکھتے ہیں اور سنسنی خیزی سے متاثر ہوتے ہیں۔ کسی سماج میں ایسے افراد کی تعداد کا زیادہ ہونا سماجی امن ہم آہنگی اوراستحکام کیلئے بیحد خطرناک ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کی ایک سے ایک مثال ملتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا جائزہ لینا ہو تو ہمارا سماج اس کیلئے بہترین تجربہ گاہ بن چکی ہے جہاں انٹر نیٹ نسبتا سستا اور سمارٹ فون کی قوتِ خرید کی بدولت سوشل میڈیا تک رسائی آسان ہو گئی ہے مگر لوگوں کو معلومات کے اس سمندر میں تیرنے کی تربیت نہیں۔ وہ بغیر سوچے کسی اونچی لہر میں جا پھنستے ہیں اور اس طرح چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے پروپیگنڈا مشینری کے پرزے کے طور پر استعمال ہونے لگتے ہیں۔حالیہ برسوں میں اس کے نت نئے نمونے دیکھنے کو ملے ہیں اورسماجی بے چینی اور امن عامہ پر اس کے اثرات بہت واضح ہیں۔اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی اہم ذمہ داری ہے کہ اس کے خدشات کا جائزہ لے اور سدباب کے اقدامات کرے۔موثر سائبر قوانین اور عوامی شعور ہی سے سوشل میڈیا کے بطور پروپیگنڈا ٹول استعمال ہونے کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اگر بہت سے لوگوں میں یہ شعور آ جائے کہ انہوں نے کسی بات کو بغیر تحقیق کے آگے نہیں بڑھانا اور ایسا کرنے سے اگر کوئی سماجی بے چینی عدم تحفظ کسی قسم کے نقصان یا افترا پردازی کا سبب بنے تو اس کے خلاف قانون کی سخت پکڑ ہونی چاہیے۔ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کا چیلنج آج کی دنیا کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کی جانب سے آنکھیں بند کرنا اس سے بڑا خطرہ ہے۔کچھ عرصہ قبل سینیٹ آف پاکستان میں سوشل میڈیا پر فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو سخت سزا دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے کسی رکن نے بھی اس قرارداد کے خلاف کوئی بات نہیں کی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پاکستان کے دفاعی اداروں پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر عائد کیا جاتا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی بطور جماعت ان تمام الزامات سے انکار کرتی آئی ہے۔ پی ٹی آئی کا موقف رہا ہے کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی ادارے سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔سینیٹ میں یہ قرارداد ایسے وقت میں آئی تھی کسانوں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر افواہوں اور منفی باتوں کے ذریعے ہیجان اور مایوسی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے متعلق افواہیں اور سوشل میڈیا پر مایوسی پھیلا کر تاثر دیا جاتا ہے کہ ریاست وجود کھو چکی ہے لیکن ہم قوم کے ساتھ مل کر ہر مافیا کی سرکوبی کریں گے۔قرارداد میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ملکی سرحدوں کے تحفظ و دفاع میں مسلح افواج اور دفاعی ایجنسیوں نے بے پناہ قربانیاں دیں فوج اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔قرارداد میں کہا گیا کہ دشمن ہمسائیوں کے ہوتے ہوئے مضبوط فوج اور سیکیورٹی ایجنسی ناگزیر ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پاک فوج کے خلاف بدنینتی پر مبنی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، سینیٹ کا ایوان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔اس سے قبل تحریری طور پر جو قرارداد جمع کروائی گئی تھی اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ دفاعی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث افراد کو عوامی عہدے سے دس سال تک کے نااہلیت کی سزا ضروری ہے۔ تاہم جس وقت بہرہ مند تنگی نے یہ قرارداد پیش کی اس وقت انہوں نے دس سال کی نااہلیت کا تذکرہ نہیں کیا اور صرف سخت سزا کا مطالبہ کیا۔دنیا کے تمام ممالک اپنے سیکیورٹی اداروں کی ساکھ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرے تو ایسے افراد کی روک تھام ضروری ہے۔جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا تھا کہ ہمیں ملٹری اداروں کی طرف سے شہدا کی قربانیوں کا ادراک ہے اور اگر یہ قرارداد ان کے تحفظ کے لیے ہے تو بالکل درست اقدام ہے۔ لیکن اگر کوئی سیاست میں مداخلت، جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بات کرنے کو روکنا چاہتا ہے تو یہ درست اقدام نہیں ہے۔ اپریل 2021 کے دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں قومی اسمبلی سے ایک بل منظور کیا گیا تھا جس میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر تنقید کے الزام میں دو سال قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔اگر اقتدار میں آنے والی تین بڑی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہر بار پاکستان کے اداروں اور فوج کی عزت کرنے جیسی قراردادیں اور قوانین منظور کی گئی ہیں۔ سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کے درمیان فاصلوں کو کم کردیا ہے اور بہت سے معاشی اور معاشرتی فوائد بھی دیے ہیں، وہیں پر سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز کو شرپسند گروہوں نے غیر قانونی، تخریبی، غیر اخلاقی اور منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا ہے، ایسے شرپسند عناصر کے پراپیگنڈے کی وجہ سے بہت سے سادہ لوح افراد کی زندگیاں تباہ کی گئیں، کئی خودکشی پر مجبور ہوگئے، گزشتہ کچھ عرصے سے مخصوص گروہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کررہا ہے۔اس گروہ کا ہدف پاکستان کی سلامتی کے ذمے دار ادارے اور شخصیات ہیں۔ اس گروہ کے ارکان غلط اور بے بنیاد معلومات، ٹیمپرڈ ویڈیوز پھیلا کر سادہ لوح سوشل میڈیا یوزرز کو گمراہ کررہے ہیں، عوام میں نفرت اور تقسیم کے بیج بو رہے ہیں، دہشت گردوں، شرپسندوں اور تخریب کاروں کو مظلوم بنانے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔انتخابی عمل کو مشکوک اور الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا زوروں پر ہے، پاکستان کے مفادات کے بجائے افغانستان اور ایران کے مفادات کو ترجیح دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔سیاسی اختلاف کی بنیاد پر توہین و تضحیک اور بہتان تراشی کی مہم چلانا غیرجمہوری ہی نہیں بلکہ غیرقانونی بھی ہے ۔مذہبی تعلیمات اور اخلاقی قدریں بھی ایسے رویے کی اجازت نہیں دیتی ہیں، وطن کے مفادات کے خلاف مہم چلانا تو ناقابل معافی جرم ہے، دنیا کی کوئی ریاست ایسے لوگوں کے ساتھ نرم پالیسی اختیار نہیں کرتی۔ جو گروہ پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔آج بھی کچھ عناصر قومی سلامتی کے اداروں کے بارے میں گمراہ کن پراپیگنڈا کررہے ہیں، پاک فوج کے شہدا کی تذلیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کے لیے لوگوں کو اکسا رہے ہیں، انہیں نہ تو سادہ لوح کہا جاسکتا ہے نہ وہ بیوقوف ہیں، وہ جو کچھ کررہے ہیں، پورے منصوبے کے تحت کررہے ہیں، ریاست پاکستان کے وسائل پر پلنے والا ایک متمول طبقہ اپنی باری آنے پر ریاست اور عوام کے مفادات کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ایسے عناصر کے خلاف جو ملک و قوم کو گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے تقسیم کر رہے ہیں سخت کارروائی ازحد ضروری ہے ۔
