صوبائی وزیر بلدیات حاجی عبد الحمید نے کہا ہے کہ معذور افراد کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے اگلے بجٹ میں گانچھے کے معذور افراد کے لئے سنٹر بنائیں گے ۔صوبائی حکومت نے معذور افراد کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے خصوصی گرانٹ جاری کی اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں معذور افراد کے کوٹے پر ہر صورت عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ۔صوبائی وزیر بلدیات نے بلتستان بلائنڈ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام خپلو میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معذور افراد کے کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کریں گے پچھلے دنوں محکمہ زراعت خپلو آفس میں بلائنڈ ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوںاس واقعے کی شفاف تحقیقات کریں گے ذمہ دار کو سزا ملے گی۔ قراقرم ڈس ایبلٹی فورم کے سابق صدر حسن بلتی نے کہا کہ معذور افراد خصوصی افراد نہیں ، ہم کوئی سپیشل افراد نہیں معذور افراد کے حقوق کیلئے ہم ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بلتستان بلائنڈ ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد طفیل نے کہا کہ سرکاری اداروں میں ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے سرکاری اداروں میں مختص کوٹے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے پانچ فیصد کوٹہ مقرر ہے لیکن اس پر عملدرآمد کم ہی ہوتا ہے۔معذور افراد کیلئے ملازمتوں کا کوٹہ ہونے کے باوجود ایسے افراد کے لیے نوکری حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ خصوصی افراد کی خصوصی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے وفاقی اور صوبائی محکموں میں ملازمت کے مقرر کردہ کوٹہ کو بڑھا کر کم از کم دس فیصد کرنا چاہیے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے کی تشکیل کیلئے خصوصی افراد کے ساتھ مثبت اور خوشگوار رویہ معاشرے کو زندہ رکھنے اور اسے مزید آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہے۔ خصوصی افراد کی شکایات کے فوری طور پر ازالہ کرنے کیلئے یہ لازمی ہے کہ معذور افراد سے متعلق مختلف سرکاری عمارات میں دفاتر کو گرائونڈ فلور پر منتقل کر دیں۔جس گھر میں بھی پیدائشی یا حادثاتی طور پر کوئی معذور فرد موجود ہو تو ایسی صورت میں معذور کی ذاتی تکلیف کے علاوہ پورے خاندان کے افراد بھی بڑی مشکل میں ہوتے ہیں اس ضمن میں اسپیشل افراد کی بہتری کیلئے کام کرنے والے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔معذور افراد جسمانی معذوری کا شکار تو ہو سکتے ہیں لیکن مجبور ہرگز نہیں ہیں سرکاری ملازمتوں میں وفاقی اور صوبائی محکموں میں ملازمت کیلئے مقرر کردہ کوٹہ پر صرف نچلے درجے کے ملازمتوں پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ بڑی ملازمتوں میں بھی ان کے حصے کو یقینی بنایا جانا چاہئے کیونکہ آج کل باہمت خصوصی افراد میں اعلی تعلیم یافتہ اور مہارت یافتہ افراد بھی موجود ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ اول تو نوکری کا اشتہار ہی نہیں آتا، اگر اشتہار آ بھی جائے تو جاب نہیں دیتے کہ آپ نابینا ہیں، ان کے خیال میں نابینا تو کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ انٹرویو کے دوران انہیں تنگ کیا جاتا ہے، ان تمام ملازمتوں پر معمولی معذوری کے شکار افراد کو اس کوٹے کے تحت تعینات کیا جاتا ہے۔نابینا افراد کا مطالبہ ہے کہ معذور افراد کے کوٹے میں تفریق ختم کرنے کے لیے اس میں سے کچھ حصہ صرف نابینا افراد کے لیے مقرر کیا جائے۔ نابینا افراد کیلئے حصولِ تعلیم ہی انتہائی مشکل ہے، سکول نہایت کم ہیں، نابینا افراد کئی گنا زیادہ محنت کر کے ڈگری حاصل کرتے ہیں اور پھر بھی ان کا حق انہیں نہیں ملتا۔صرف جاب ہی کی مشکل نہیں بلکہ کوئی عام انسان کسی معذور سے شادی کرے، ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اکثر دو معذور ہی آپس میں شادی یا رشتہ قائم کرتے ہیں لیکن ایسا بھی کم ہی ہوتا ہے کیونکہ معذور لوگوں کی شادی کو خود ان کے کھر والے اہمیت نہیں دیتے اور اسے بوجھ میں اضافہ سمجھتے ہیں۔ماضی میں سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے معذور افراد کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ 1981 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لئے ایک فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا تھا۔ 1998 میں اسے دو فیصد اور پھر 2015 میں مزید بڑھا کر تین فیصد پر لے جایا گیا، پھر پانچ فیصد کر دیا گیا تاہم قانون پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی شکایات عام ہیں۔ عالمی بینک اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کے دس فیصد افراد گونگے، بہرے، نابینا یا ذہنی و جسمانی طور پر معذور ہیں، اسلامی شعار اور عالمی قوانین کی روشنی میں معذور افراد ہر طرح سے معاشرے کا کارآمد حصہ ہیں اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری محض اہلِ خانہ ہی پر نہیں پورے معاشرے اور ریاستی مشینری پر عائد ہوتی ہے، تاہم ان کے حقوق کے لئے صرف قانون بنا دینا کافی نہیں ہے اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، ۔ اس ضمن میں سرکاری وکلا کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ معذور افراد کی بھرتیوں کا اشتہار اخبارات میں دیا گیا ہے اور بھرتیوں کے لئے کمیٹیاں بھی بنا دی گئی ہیں، تاہم معذور افراد کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومتیں بھرتیوں کا طریقہ کار آسان کے بجائے مشکل بنا رہی ہیں جس کی وجہ سے اس قانون سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ حکومت کو چاہئے کہ معذور افراد کی ملازمتوں میں بھرتیوں کا طریق کار آسان بنانے سمیت تمام ممکن سہولتیں مہیا کرے۔خصوصی افراد کا کہنا ہے حقوق سے متعلق آگاہی کے فقدان، دفاتر میں آنے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ میسر نہ ہونے اور دفاتر میں بھی خصوصی افراد کے لیے بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد نوکری نہیں کر پاتے ہیں۔ ہزاروں ایسے خصوصی افراد ہیں جو تعلیم، ہنرمندی اور صلاحیت ہونے کے باوجود سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا پندرہ سے بیس فیصد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جبکہ ان کے لیے جاب کوٹہ صرف پانچ فیصد ہے۔ خصوصی افراد کے نوکری نہ کرنے کی ایک وجہ آگاہی نہ ہونا ہے، ایسے افراد کا خاندان یہ سمجھتا ہے کہ وہ آفس کیسے جائے گا۔ اس کے علاوہ دفاتر میں خصوصی افراد کے لیے بنیادی سہولتیں خاص طور پر واش روم میسر نہیں ہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں خصوصی افراد کو جتنی تنخواہ آفر کی جاتی ہے وہ آدھی تو دفتر آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ پر ہی خرچ ہو جاتی ہے۔خصوصی افراد کو نوکری کے حصول کے لیے معذوری کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہی انتہائی مشکل ہے۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی ایک لاکھ کے قریب خصوصی افراد کو خدمت کارڈ کے ذریعے ماہانہ وظائف دیتی ہے، اس اتھارٹی کا سالانہ بجٹ ڈھائی ارب کے قریب ہے جو خصوصی افراد پر خرچ ہوتا ہے۔ محکمہ لیبر بھی خصوصی افراد کے حوالے سے کام کرتا ہے جو ملازمت میں ان کیلئے مختص کوٹہ کو یقینی بنا رہا ہے پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی اور اخوت نے مل کر ہزاروںخصوصی افراد کو بلاسود قرضے فراہم کیے جن کی ریکوری 100 فیصد ہے۔ معذورافراد کیلئے سب سے بڑا مسئلہ بنیادی تربیت، تعلیم، ٹیکنیکل اسکلز، انفراسٹرکچر تک رسائی، ٹرانسپورٹ اور علاج معالجے کی درست سہولیات کا نہ ہونا ہے۔موجودہ صورتحال میں لازم ہے کہ تمام سرکاری اور نجی ادارے خصوصی افراد کیلئے احساس پیدا کریں۔ خصوصی افراد کے تمام قانونی اور آئینی حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے۔ معاشرے کی ترقی میں خصوصی افراد کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا عام آدمی کا۔ ملازمتوں کے کوٹہ کے نفاذ سے خصوصی افراد کو مالی طور پر بااختیار بنانے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے میں مدد ملے گی ،خصوصی افراد کی ہنر مندی ، ان کیلئے مختلف شعبوں میں ملازمت کے مواقع کیلئے اقدامات کئے جائیں۔صوبوں نے سرکاری اور نجی شعبے میں خصوصی افراد کی ملازمت کے حوالے سے قوانین بنائے ہیں، کاروباری برادری کو خصوصی افراد کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینا چاہیے ، کسی خصوصی طالب علم کو ملک کے کسی بھی اسکول میں داخلے سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے،خصوصی بچوں کی تعلیم کیلئے اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی مناسب تعداد ہونی چاہیے قومی اور صوبائی حکومتیں خصوصی افراد کے حوالے سے اپنے بہترین تجربات کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں ۔معذور افراد کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے، انہیں پبلک ٹرانسپورٹ میں خصوصی سہولیات فراہم کی جائیں ۔تعلیمی اداروں میں برابری کی سطح پر داخلے دیے جائیں اور خصوصی طور پر صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔وراثتی جائیداد رکھنے سے متعلق معذور افراد کو مکمل حق حاصل ہو ۔ حکومت ایسا انفراسٹرکچر بنائے جس میں معذور افراد کی ضرورتوں کو مدنظر رکھا جائے ۔
