چھبیسویں آئینی ترمیم کا لاینحل قضیہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ بہت طویل مشاورتی عمل کے بعد آئین سازی کا عمل آگے بڑھتا جارہا ہے اور پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کا آئین سازی پر سو فیصد اتفاق ہوچکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے مسلسل رابطہ ہے، عدالتی اصلاحات پر مولانا فضل الرحمن سے بات چیت ہوئی، آئینی بینچز پر اتفاق ہوگیا ہے، بہت طویل مشاورتی عمل کے بعد آئین سازی کا عمل آگے بڑھتا جارہا ہے ۔ سیاسی اتفاق رائے کے لیے ہم نے دن رات کام کیا، آئین اور پارلیمنٹ کو مزید طاقتور بنا رہے ہیں، خواہش ہے کہ مولانا فضل الرحمن خود طے شدہ مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کریں، جس طریقے سے مولانا فضل الرحمن چاہتے تھے اس طرح مسودہ بنایا ہے، جو ڈرافٹ ہمارا ہے وہ مولانا فضل الرحمن نے خود لکھا ہے اس لیے چاہتا ہوں وہ خود پارلیمنٹ میں اسے پیش کریں۔ پی ٹی آئی ثابت کرے کہ وہ سوشل میڈیا کا لشکر نہیں ایک سیاسی جماعت ہے، پی ٹی آئی کم از کم مولانا فضل الرحمن کے مسودے پر تو ووٹ دے، امید ہے مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی کو قائل کرلیں گے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اگر پی ٹی آئی نے رونا دھونا شروع کیا تو یہ سراسر ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوگا۔جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم پر حکومت سے کوئی بڑا اختلاف نہیں رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے آئینی ترمیمی بل جو اتفاق رائے حاصل کیا تھا اور کراچی میں ہم نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اس کا اظہار کیا تھا اور پھر لاہور آکر مسلم لیگ نون کی قیادت کے ساتھ اسے شیئر کیا، اس پر طویل مشاورت اور بات چیت ہوئی، جو ابتدائی مسودہ تھا اور جسے ہم نے مسترد کردیا تھا حکومت اس سے پیچھے ہٹ گئی اور لاہور میں نون لیگی قیادت کے سامنے متفقہ مسودے کوپیش کیا۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم میں اب کوئی بڑا متنازع نکتہ موجود نہیں، ہمارے درمیان اس وقت کسی خاص نکتے پر کوئی اعتراض نہیں اور آئینی ترمیم پر حکومت سے کوئی بڑا اختلاف نہیں رہا ہے، تحریک انصاف کو بھی آئینی ترامیم پر اعتماد میں لیے رکھا اور حکومت سے ہونے والی پیشرفت سے بھی پی ٹی آئی کو آگاہ رکھا، ایک ماہ تک پی ٹی آئی سے بھی مشاورت جاری رہی، پی ٹی آئی قیادت نے خواہش ظاہر کی بانی عمران خان سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت کی بانی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے تفصیل فراہم کی، ملاقات کے بعد مجھ تک عمران خان کے مثبت لب و لہجے اور رویے کا پیغام پہنچایا گیا، انہوں نے آج مشاورت کے لیے کل تک کا وقت مانگا جس سے میں نے اتفاق کیا اور تحریک انصاف کے جواب کا کل تک انتظار کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا  دو مہینوں سے دونوں جماعتوں نے انتھک محنت کی، چاہتا ہوں سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئین سازی ہو، مولانا فضل الرحمن کل اپوزیشن کی جماعتوں کو جواب دیں گے، مجھے یقین ہے مولانا ان کو بھی قائل کر لیں گے اور امید ہے کہ پی ٹی آئی ترمیمی مسودے پر ساتھ دے گی۔ پارلیمان کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمن میری گزارش مانیں گے۔دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ بزور طاقت خفیہ طریقے سے لائی جانے والی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ایک ماہ سے ہنگامی صورتحال ہے، آئینی ترامیم خفیہ طریقے سے لائی جارہی ہیں، حکومت کی تمام تر توجہ آئینی ترمیم پر لگی ہے۔1973 کے آئین کو 51  سال ہوچکے ہیں لیکن ایسی کون سی مصیبت آگئی ہے جو راتوں رات، خفیہ طریقے سے اس میں ترمیم کی ضرورت پیش آگئی ہے، اور ایسی ترامیم جن کو پبلک کرنا بھی حکمران طبقے کے لیے باعث شرم بن رہا ہے۔ آئین کوئی خفیہ دستاویز نہیں ہے لیکن حکمران طبقے کو اس کو پبلک کرنے میں شرم آرہی ہے، جس ملک کے آئین میں ترامیم کی جارہی ہوں اس کے ہر شہری کو اس کے لیے جاننا ضروری ہیں، سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان کو اس بارے میں علم ہونا چاہیے۔عجیب سی بات ہے کہ آئینی ترامیم کو ایک خفیہ دستاویز کی طرح رکھا جارہا ہے اور وہ مختلف اقسام میں تقسیم ہورہا ہے، کبھی ایک طرف سے ڈرافٹ سامنے آتا ہے تو کبھی دوسری طرف سے آتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ترامیم کا خالق کون ہے، حکومت یا اس کے اتحادی، اپوزیشن یا پھر وہ قوتیں ہیں جن سے ہمیشہ آئین کو خطرہ رہا ہے، جنہوں نے ہمیشہ اس آئین کو ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے۔ جس انداز میں وہ ترامیم لانا چاہتے ہیں، مخلتف پارٹیوں کے ممبران کو ہراساں کرنا، اغوا کرنا، طاقت کے ذریعے آئینی ترامیم میں ان کا ووٹ کاسٹ کرنا، کیا یہ جمہوری عمل ہے، دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کی جمہوری نظیر نہیں ملتی۔ یہاں جتنے بھی آمر گزرے ہیں، انہوں نے بھی ریفرنڈم کروایا ہے، چاہے اس میں دھاندلی کی گئی ہو لیکن عوام سے ہاں یا ناں کا سوال تو کیا گیا لیکن یہاں تو اپنے ہی ساتھیوں کی ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو اغوا کرکے آئینی ترامیم کی جارہی ہیں۔ میں ملک سے باہر تھا مجھے آئینی ترمیم سے متعلق بتایا گیا لیکن ہمیں پتہ تو ہونا چاہیے کہ اس میں کون سی ترامیم لائی جارہی ہیں، آج تک نہ وزیراعظم اور نہ ہی نائب وزیراعظم نے مجھ سے آئینی ترمیم کا ڈرافٹ شیئر کیا۔ مذاکرات کے دوران ہی ہمارے دونوں سینیٹرز پر دبائو ڈالا جارہا تھا، ان کے بچوں کو فون کرکے ڈرایا گیا، ان کا روزگار چھیننے کی کوشش کی گئی۔میں نے واضح طور پر کہا کہ ہم نے پرویز مشرف سے گن پوائنٹ پر کوئی مذاکرات نہیں کیے اور اب بھی اگر کسی بھی شکل میں اس کا کوئی جانشین ہے تو ہم گن پوائنٹ پر مذاکرات نہ کبھی کیے ہیں اور نہ کریں گے۔اس وقت قومی، صوبائی اسمبلی یا پھر سینیٹ میں بیٹھے کسی بھی رکن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو اٹھانا، اغوا کرنا قانون سازی کے نام پر دھبہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اختر مینگل نے واضح کیا ہے کہ جب تک ان کے دو سینیٹرز واپس نہیں آتے، تب تک کوئی بات نہیں ہوگی۔گزشتہ روز ہونے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ کل اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اتفاق رائے ہو جائے گا۔ہمارا واضح موقف تھا کہ آئینی ترمیم پر ہمارا اتفاق رائے عمران خان کی جانب سے دی جانے والی ہدایات سے مشروط ہوگا۔پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم پر کئی گھنٹے سے بحث جاری رہی تاہم اس کے باوجود اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا۔ادھرسینیٹر فیصل واڈا نے کہا ہے کہ کسی کے آنے یا نہ آنے سے فرق نہیں پڑتا، 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہو کر رہے گی۔ اپنے بانی کو بیچنے والے بے نقاب ہوچکے ہیں، مولانا فضل الرحمن اور پاکستان تحریک انصاف آئیں گے تو عزت محفوظ رہے گی بصورتِ دیگر بھی ترمیم منظور ہوگی۔ ہیرو سے زیرو ہونے میں وقت نہیں لگتا، رونے دھونے سے کچھ نہیں ہو گا، کوئی وضاحت نہیں دیں گے۔اگر کوئی سمجھتا ہے پیسے دیے گئے ہیں تو وہ سمجھتا رہے، اگر کوئی کہتا ہے تشدد کیا گیا ہے اورکسی کو اٹھایا گیا ہے تو وہ سمجھتا رہے، اپوزیشن کو جو مرضی سمجھنا ہے وہ سمجھے، ان الزامات پر مزید وضاحت نہیں دی جائے گی۔ انہیں پتا ہے ترمیم اب منظور ہو گی، بکائو مال کی شکلیں آج آپ نے دیکھ لیں۔آرٹیکل 8 کو  ہم چھیڑیں گے اور سب کو چھیڑیں گے، بکائو مال پکڑا گیا ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ آج پی ٹی آئی کے رہنما اڈیالہ جیل کے بعد خیبرپختونخوا ہائوس کیوں گئے؟بانی پی ٹی آئی عمران خان کو یہاں تک پہنچانے والے یہ بکائو مال ہیں۔پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کے مابین کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم کا حتمی مسودہ دے دیا گیا۔ملاقاتوں میں تیزی کا اندامہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلاول بھٹو چوبیس گھنٹوں میں چوتھی بار مولانا کے گھر  گئے، اس کے علاوہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، محسن نقوی اور اعظم نذیر تارڑ بھی ان کے گھر گئے۔ حکومت کی طرف سے آئینی ترامیم پر مشاورت کی کوششیں جاری ہیں اور مولانا فضل الرحمان سے آئینی ترامیم پر حتمی مشاورت ہوگی۔ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پرموجود حکومتی قانونی ٹیم سے رابطہ کیا اور اہم سیاسی امور پر مشاورت کی۔ وزیراعظم نے آئینی ترامیم پر معاملات پر پیشرفت کا جائزہ لیا جبکہ حکومتی قانونی ٹیم نے مولانا فضل الرحمان سے بات چیت سے متعلق وزیراعظم کو آگاہ کیا۔وفاقی وزرا نے اب کہنا شروع کردیا کہ اتفاق رائے ہوجائے تو ٹھیک ورنہ حکومت آگے بڑھے گی۔