پاک آرمی اور جی بی گورنمنٹ کے تعاون سے چار روزہ نیشنل سےکیورٹی ورکشاپ جاری ہے۔ ورکشاپ میں پاکستان بھر سے ایکسپرٹ سپیکرز شرکاءکو اہم موضوعات پر آگاہی فراہم کررہے ہیں۔ خصوصا وہ موضو عات اور ایشوز جن کا تعلق جی بی سے ہے۔ورکشاپ میں نہ صرف اہم موضوعات پر بحث مباحثے ہوئے بلکہ شرکا نے جی بی کے اہم اداروں کے دورے بھی کیے۔قومی سلامتی کسی ملک کی حکومت کی اپنے شہریوں، معیشت اور دیگر اداروں کی حفاظت کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ قومی سلامتی کی کچھ غیر فوجی سطحوں میں اقتصادی سلامتی، سیاسی سلامتی، توانائی کی حفاظت، ہوم لینڈ سیکیورٹی، سائبر سیکیورٹی، انسانی سلامتی، اور ماحولیاتی تحفظ شامل ہیں۔قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتیں سفارت کاری کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور فوجی طاقت سمیت حکمت عملی پر انحصار کرتی ہیں۔اس ضمن میں ملک کے مختلف طبقات سے مشاورت کا اہتمام بھی کےا جاتا ہے تاکہ ان کے مشوروں کی روشنی میں سلامتی کو ےقےنی بنانے کے قدامات کےے جا سکےں۔قومی سلامتی دراصل ملک میں تمام انسانی عوامل کی حفاظت ہے جس میں قومی انفرا اسٹرکچر، مضبوط خارجہ پالیسی و معیشت، شہری حقوق، تجارت و روزگار اور قومی سلامتی سے متعلق ضروری اقدامات وغیرہ شامل ہوتے ہیں قومی سلامتی کی اس ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اسے سنگےن مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے جس میں دہشت گردی، عالمگیریت، غربت اور افرادی نقل و حمل یا غیر قانونی مقیم غیر ملکی وغیرہ شامل ہیں۔قومی سلامتی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے ایک اسٹیٹ سیکےورٹی جس کا کام سر زمین کی حفاظت کرناہے جبکہ دوسری سوسائٹل سیکےورٹی ہے جو ہماری قومی شناخت کی حفاظت کرتی ہے عالمگیر اثرات کے باعث جب سرحدی سیکورٹی کمزور پڑتی ہے تو ہماری قومی شناخت اور تشخص کو خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے اتحادی ہونے کے باعث پاکستان کو متعدد بیرونی خطرات کا سامنا ہے جس میں ہمارے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور فوجی عوام شامل ہیں شہریوں کی حفاظت ملک کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ریاست یہ ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی آج لوگ پہلے سے کہیں زیادہ عدم تحفظ و حملے کا شکار ہو رہے ہیں۔ریاست کی جانب سے فوجی کارروائی، نیشنل سیکےورٹی ایجنڈے کے تحت ہوتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے معاشرتی تحفظ کو فراہم کرنے میں انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے ۔نیشنل سیکورٹی کے اہم عناصر میں ملکی و غیر ملکی مفادات، قومی سلامتی کے لئے مقاصد و حصول۔خارجہ پالیسی جوملک کودرپیش کسی بھی قسم کی سیاسی، معاشی، فوجی یا کوئی اور جارجیت کے خلاف مضبوط دفاعی حکمت عملی کی حامل ہو۔قومی سلامتی کے لئے حکمت عملی اور تکمیل میں معاونت کی بھرپور صلاحیت کی حامل ہو وغیرہ شامل عناصر ہیں۔علاوہ ازےںتمام وفاق کے یونٹوں میں مفاہمت قائم کرنا‘تمام ذرائع و وسائل کی تقسیم جو مقرر ہو نیز دفاع اور دیگر حصول مقاصد کے لئے متعین کرنا‘تمام منتخب نمائندوں کی وساطت سے وسیع المیعاد منصوبہ بندی کرنا‘ اس طرح کی حکمت عملی تیار کرنا کہ کرائسس منیجمنٹ ملک میں کسی بھی بحرانی صورت حال سے نمٹنے میں عہدہ برا ہو سکے۔ طویل المیعاد پالیسی وضع کرنا جو ایک طرف نچلی سطح پر نہ صرف انتظامی قانون سازی کر سکے بلکہ اداروں کے مابین پائی جانے والے بے چینی کو بھی دور کرنے کی اہل ہو۔ مضبوط معاشی پالیسی بنانے میں حائل دشواریوں کو دور کرنا، چونکہ ہم زیادہ ترانحصار کرائسس مینجمنٹ پر کرتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم ایک آنے والے وقتوں کے لئے ہر بحرانی صورت حال سے نمٹنے کے لئے طویل المیعاد حکمت عملی پہلے سے تیار کریں ۔اس کا تعلق اندرونی و بیرونی سیکےورٹی سے ہے معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاروں میں اعتماد کی بحالی۔عسکریت پسندوں اور مذہبی انتہا پسندوں سے سختی سے نمٹنا،وفاق کو مضبوط کرنا اور صوبوں کے درمیان تنازعات کو دور کر کے قومی مفاہمت پیدا کرنا۔امن و عامہ کی صورت حال کو یقینی بنانا اور فوری انصاف کی فراہمی ،ریاست کے اداروں کو سیاست سے پاک کرنا ،اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ‘پورے ملک میں احتسابی عمل یقینی بنانا،غربت دور کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانا‘ بدعنوانی کا خاتمہ اور قومی تشخص اجاگر کرنا۔ہماری قومی سیکیورٹی پالیسی کا ایک اہم نقطہ اسی کو بنیاد بناتا ہے کہ ہمیں علاقائی ممالک بشمول بھارت سے کشیدگی کے مقابلے میں تعلقات کی بہتری کی طرف پیش رفت کرنا ہے ۔لیکن اب ہمارا مسئلہ محض بھارت تک محدود نہیں بلکہ پہلے ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کے تناظر میں افغانستان کے ساتھ بداعتمادی کے پہلو موجود ہیں ۔پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لینے کے لیے افغانستان سے مدد چاہتا ہے جب کہ افغانستان پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ طاقت کے بجائے مذاکرات کی مدد سے راستہ تلاش کیا جائے ۔جب کہ ایک بڑی تعداد میں افغانوں کے پاکستان سے انخلا کے معاملہ پر بھی افغان حکومت ناخوش نظر آتی ہے ۔افغان حکومت پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس میں ٹی ٹی پی ملوث ہے ۔بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں ابھی تک ہم نے جو بھی کوششیں کی ہیں۔اس کے مثبت نتائج بھارت کی جانب سے نہیں مل رہے اور جو بھی ڈیڈ لاک ہے وہ فی الحال بھارت کی جانب سے ہے ۔ بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت اور تعلقات کی بہتری اس کی سیاسی مجبوری ہے جو اس کے داخلی مسائل اور سیاسی تنہائی سے جڑی ہوئی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بنیادی نوعیت کا سوال سمجھنا ہوگا کہ کیا بھارت پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتا ہے یا وہ دباﺅ میں رکھ کر ہم پر مزید دباﺅ بڑھانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے واقعی دہشت گردی کو کچلنا ہے تو یہ بھارت سمیت دیگر علاقائی ممالک کے عملی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کی خرابی کا ایک نتیجہ افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے۔کیونکہ ایک خیال یہ ہے کہ بھارت ہماری داخلی سطح کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ ہمیں مزید دباﺅ میں لانا چاہتا ہے ۔ ہمیں مل جل کر ایسا محفوظ ماحول اور سازگار فضا تشکیل دینی ہے جہاں ہر صورت اور ہر لمحے ہر پاکستانی کی جان اور مال کا تحفظ بھی کسی مذہب ،فرقے ،زبان ،رنگ اور نسل کے امتیاز کے بغیر یقینی ہو شہری آزادیاں بھی ہر صوبے علاقے میں ہر فرد کو حاصل ہوں ۔ان کے ساتھ ساتھ سماجی اور اقتصادی حقوق بھی کسی رو رعایت کے بغیر میسر ہوں۔ مملکت اور حکومت اس کی ضمانت دیں ،ملک کی حدود میں گوشے گوشے میں آئین پاکستان میں مندرج تمام اصولوں اور معیارات کے مطابق ایسی ہم آہنگی ،عزت نفس،احترام کی فضا قائم کی جائے جس میں پاکستان کے عوام ترقی یافتہ اقوام کی سطح پر زندگی گزار سکیں اور خوشحالی خود کفالت کی منزل سے ہم کنار ہو سکیں ۔ بلا شبہ یہ عزائم ارفع اور مقدس ہیں ۔ان کی تکمیل ہی جمہوریت کی معراج ہو سکتی ہے ۔کسی بھی منتخب حکومت کا سب سے پہلا فرض منصبی یہ ہونا چاہیے کہ وہ شہریوں کو پر امن ماحول کی گارنٹی دے۔گزشتہ حکومتوں نے اگر ایسا نہیں کیا تو عوام نے انہیں اسی لئے دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیا ،اس ملک کے اصل مالک عوام ہی ہیں۔ ملک لوگوں سے ہوتے ہیں، دہشت گردوں کے رابطے ان کی معاونت کرنے والوں سے کاٹ دئے جائیں۔ پاکستان کی داخلی سلامتی کو درپیش خطرات کی شدت کم کرنے کے لئے سےکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی استعداد اہلیت میں بہتری پیدا کی جائے۔آج کی دنیا میں سائبرسیکیوریٹی ایک وسیع اور کثیر جہتی فیلڈ ہے جو سسٹمز، نیٹ ورکس اور ڈیٹا کو ڈیجیٹل حملوں، چوری اور نقصان سے بچانے کے لیے وقف ہے۔ زندگی کے تقریبا ہر پہلو میں ٹیکنالوجی پر بڑھتے ہوئے انحصار کو دیکھتے ہوئے، ذاتی اور تنظیمی معلومات دونوں کی حفاظت کے لیے سائبرسیکوریٹی بہت اہم بن گئی ہے۔جدید ڈیجیٹل دور میں، سائبر سیکیورٹی بہت اہم بن گئی ہے۔ ہماری زندگیاں، کاروبار اور معاشرے تیزی سے ٹیکنالوجی پر انحصار کر رہے ہیں اور یہ انحصار اپنے ساتھ بہت سی کمزوریاں لاتا ہے جن کا سائبر مجرم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ نےشنل سےکےورٹی کے حوالے سے عوام میں شعور بےدار کےا جائے‘ انہےں اس سلسلے میں اپنے فرائض و ذمہ دارےوں کی ادائےگی کے لےے تےار کےا جائے کےونکہ ےہ کسی اےک ادارے ےا حکومت کی ذمہ داری نہےں بلکہ بحےثےت مجموعی پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔
