چیف جسٹس گلگت بلتستان چیف کورٹ جسٹس علی بیگ نے چیف کورٹ انتظامی ریکارڈ ڈیجیٹلائز نظام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور ہم آہنگی ناگزیر ہے جدید ٹیکنالوجی سے ہی جدید چیلنجز پر قابو پایا جاسکتا ہے گلگت بلتستان چیف کورٹ میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں 1947 تا 2024 تک تمام مقدمات کا ریکارڈ سکین کر کے محفوظ بنایا گیا اور دوسرے مرحلے میں چیف کورٹ کے اندرونی انتظامی ریکارڈ کو کمپیوٹرائز اور سکیننگ کر کے مکمل محفوظ بنایا گیا اس کامیابی پر رجسٹرار غلام عباس چوپا اور آئی ئی ٹیم خراج تحسین کے مستحق ہیں مزید تمام ذیلی دفاتر سمیت ماتحت عدالتوں کے ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے لئے کام جاری ہے جلد اسکی تکمیل ہوگی تاکہ ریکارڈ کا خراب، گم اور ترمیم سے بچایا جا سکے۔ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہیں اور ٹیکنالوجی جدت کی ضرورت ہے اس سے ہم آہنگی اور استور جدید تقاضوں کی بنیادی ضرورت ہے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی عدالتی نظام جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہ ہونے کے باعث نظام عدل وانصاف کی فراہمی میں شدید دشواریاں ہیں جدیدیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان چیف کورٹ میں چیف جسٹس علی بیگ کی سربراہی میں جوڈیشل نظام کو جدیدیت کے تقاضوں سے نمٹنے کے لئے ریکارڈ کو محفوظ بنانے کا جو ہدف تھا اس سے حاصل کرلیا ہے اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو گھر کی دہلیز پر سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے اس موقع پر چیف جسٹس علی بیگ نے بٹن سے چیف کورٹ کے ڈیجٹلائز نظام کا باقاعدہ افتتاح کیا۔انصاف کی فراہمی کسی بھی معاشرے کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال خوش کن ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کو بروقت نمٹانے کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے جن میں ججوں اور عدالتی افسران کی مناسب تعداد کی دستیابی،معاون عدالتی عملہ اور فزیکل بنیادی ڈھانچہ ، حقائق کی پیچیدگی، شواہد کی نوعیت،متعلقہ فریقوں کا تعاون ،تفتیشی ایجنسیاں،گواہ اور قانونی چارہ جوئی اور قواعد و ضوابط کا مناسب اطلاق وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جو مقدمات کے نمٹانے میں تاخیر کا باعث ہو سکتے ہیں۔ ان میں،دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ، ججوں کی آسامیاں، بار بار التوا کی کارروائیوں اور نگرانی کے لیے مناسب انتظامات کا فقدان نیزمختلف مقدمات کی سماعت کے لیے نگرانی کرنے اور پتہ لگانے جیسے عوامل شامل ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 کے آخری چھ ماہ کے دوران زیر التوا مقدمات میں3.9 فیصد اضافہ ہوا ہے اگرچہ وقت کیساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے لیکن آج ہماری عدالتوں میں ججوں کی تعداد کم ہے اور مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ججز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے لوگ انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے عمر گنوا دیتے ہیں اگر عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھا دی جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ عدالت میں انصاف کیلئے آنے والوں کو جلد انصاف مل جائے گا تو اس کے یقینا اچھے نتائج برآمد ہونگے علاوہ ازیں وکلا بھی تاریخیں لینے کیلئے کئی طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں کبھی کسی دوسری عدالت میں پیشی یا کبھی بیرون شہر جانے یا بیماری کا عذر بنا کر تاریخ پر تاریخ لے لی جاتی ہے اس سے انصاف کی فراہمی میں یقینا تاخیر ہوتی ہے حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کا انصاف کی تیز تر فراہمی کیلئے آئینی عدالت کے قیام کو نسخہ کیمیا بتانا ایک سیاسی بحث ہے اور اس حوالے سے منتخب ایوان ہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام تضادات کا شکار ہے موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر کرپشن جانبداری غیر پیشہ وارانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے ملزمان کی مجرمان میں عدالتی ٹرائل کے ذریعے تبدیلی کی شرح انتہائی کم ہے جسکی وجہ غیر معیاری تفتیش اور پراسیکیوشن کا علیحدہ نہ ہونا ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ جج کے معیارات میں کمی اور جاری تربیت نچلی سطح پر عدالتی نظام کو زمانہ جدید کے خطوط پر آراستہ نہ کرنا ہے مقدمات سول جج کی عدالت میں سالوں چلتے ہیں ہم نے انہیں کسی وقت کا پابند نہیں کیا نظام پے در پے ایک متفقہ سمت کا متلاشی رہا اور آئین ہونے کے باوجود اسکا تحفظ قومی کاز اور مقصد نہ بن سکا 'معیاری ٹرائل ایک خواب بن گیا ہے اور اسں خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قومی سوچ اور قومی اقدامات درکار ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام بہت سست ہے جس میں ضلعی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک کیس کو پہنچنے میں بیس سال لگ جاتے ہیں۔اس وقت بھی چوبیس لاکھ سے زائد کیسز زیرالتوا ہیں جن میں ضلعی عدالتوں کی کارکردگی بہت ہی زیادہ بری ہے کیونکہ بیس لاکھ سے زائد کیسز تو صرف وہاں پر پڑے ہوئے ہیں۔اگر ضلعی عدالتوں سے رپورٹ مانگی جاتی ہے تو وہ ایکسل شیٹ پر کیسز کی تعداد اور نوعیت لکھ کر ارسال کردیتے ہیں جس میں سے کیسز کی موجودہ صورتحال اور التوا میں رہنے کے جواز کی ہی سمجھ نہیں آتی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہے۔کہا گیا تھا کہ ایک ایسی ایپ بنائی جا رہی ہے جس میں ہر ضلع میں درج کیسز کو تین رنگوں میں تقسیم کیا جائے گا اور واضح طور پر ان کیسز کی بابت جانا جاسکے گا کہ ان کی التوا کی وجہ کیا ہے اور یہ آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ ہر کیس کی لائف ہسٹری اس میں درج ہوگی اور یہ آسانی سے جانا جاسکے گا کہ یہ کیس درج کب ہوا اور اس کے بعد کی سماعتوں میں کیا کیا ہوتا آیا ہے اور اب نمٹانے میں تاخیر کی وجہ کیا آرہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ موجودہ اعلی عدلیہ کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جو جج کام نہیں کررہا اب اس کو اٹھا کر باہر پھینکا جائے گا اور کرپشن اور نااہلی پر زیرو ٹالرنس پالیسی ہوگی۔ انصاف معاشرے کا ایک ناگزیر ستون ہے۔ عدالتی اصلاحات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے،کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کیلیے ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ عدالتی نظام درحقیقت ناگزیر ہے۔ پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے عوام نے عدلیہ کی آزادی کے لیے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں عدالتی نظام آزاد ہے اور عوامی قبولیت کی سطح پسماندہ ملک کی نسبت زیادہ ہے، لیکن وہ شفافیت کو یقینی بنانے اور اپنے ججوں کیلئے سخت احتسابی طریقہ کار اپنانے پر یقین رکھتے ہیں۔یہ وقت کا تقاضا ہے کہ فوجداری اور دیوانی قوانین اور انتظامی نظام میں وسیع اصلاحات لائی جائیں تاکہ معاشرے کے تمام طبقات کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ قانون کی نظر میں تمام افراد برابر ہیں۔ ان اصلاحات و ترامیم کی اشدضرورت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں نظام عدل میں ایسے ڈھانچہ جاتی مسائل کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فوجداری اور دیوانی قوانین اورانتظامی نظام میں وسیع اصلاحات لائی جائیں تاکہ معاشرے کے تمام طبقات کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ قانون کی نظرمیں تمام افراد برابر ہیں۔فوجداری قوانین میں مجوزہ ترامیم کے مطابق ایف آئی آر کی ڈیجٹلائزیشن، ٹرائل کے طریق کار، اپیل، الیکٹرانک و ڈیجیٹل ذرائع سے شواہد اکٹھاکرنے، فوجداری نظام میں بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ جدید آلات کا استعمال، پلی بارگین اور ویڈیو کو شواہد کے طور پر استعمال کرنا شامل ہے۔نظام کی بہتری کے لیے یقینا کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن اس میں ایک بڑی رکاوٹ جوڈیشیل افسران، خاص طور سے اعلی عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا طریقہ کار ہے۔ جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی عدلیہ کی جواب دہی کاہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں اعلی عدالتوں کے ججوں کے دیے ہوئے فیصلوں کے آڈٹ کا نظام بھی ہونا چاہئیے، جس میں غیر جانبدار ماہرین اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا فیصلے قانونی میرٹ کے مطابق ہو رہے ہیں۔ اور کیا کسی جج کے فیصلے میں ایک ہی مسئلے پر دیے گئے اس کے ایک سے زیادہ فیصلوں میں عدم مطابقت تو نہیں ہے، اور اگر ہے تو کیا اس کا کوئی قانونی جواز موجود ہے۔عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے اور انکے نفاذ کے لیے جوڈیشیری سے زیادہ موثر ادارہ اور کوئی نہیں ہے جہاں ہر شخص اپنی شکایت لے کر بہ آسانی جاسکتا ہے جہاں آئین اور قانون کے مطابق اس کی شنوائی ہوتی ہے۔ آئین کے تحت بنیادی حقوق کے نفاذ کی اپنی ذمہ داری کو عدلیہ نے بخوبی نبھایا ہے اور عوام کو اس پر بھروسہ رکھنا چاہئیے کہ ان کے حقوق کا دفاع کرنے والا سب سے موثر ادارہ یہ ہی ہے۔ اس کے بعض افراد سے یا بعض فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بطور مجموعی یہ ادارہ انتہائی اہم اور عام آدمی کی ضرورت ہے۔فیصلوں میں تاخیر کے تدارک کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہے۔
