فلسطین پر کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

مسئلہ فلسطین پر ایوان صدر میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کی بھرپور مذمت کی گئی ۔وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر مشرق وسطی کی صورتحال اور فلسطین کے موضوع پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں صدرمملکت اور وزیراعظم سمیت سیاسی جماعتوں کے سربراہان و رہنما شریک ہوئے۔کانفرنس میں مسلم لیگ نون کے صدر نواز شریف، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سمیت اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان، جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمان، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی ۔شیری رحمان نے کانفرنس کا ایجنڈا پیش کیا کہ سات اکتوبر ایک ایسا سیاہ دن ہے جس دن اسرائیل نے فلسطین کے عوام پر حملہ کیا۔آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسرائیل عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے، فلسطین کے عوام کوحق خودارادیت کے حصول کے لیے غیر متزلزل حمایت کا یقین دلاتے ہیں، فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کی بھرپورمذمت کرتے ہیں، غزہ میں فوری جنگ بندی اورجارحیت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی اورجنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے، اوآئی سی، عرب لیگ اور دیگر عالمی اداروں کی طرف سے امن و استحکام کیلئے سیاسی و سفارتی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، پاکستان نے فلسطین اور لبنان کے بھائیوں کیلئے امدادی سامان بھجوایا ہے۔پاکستان امداد پہنچانے کی کوششوں کو بڑھا کر دوگنا کرے گا، پاکستان آزاد فلسطینی ریاست جس کا القدس شریف دارالخلافہ ہو کی حمایت کرتا ہے۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا  کہ غزہ میں خونریزی بند کرانا اولین ترجیح ہے۔ آج کا اجتماع گواہی دیتا ہے جب بھی کسی چیلنج کا سامنا ہوا توسیاسی ومذہبی قیادت اکٹھی ہوئی، آج کا دن بھی ایک روشن مثال ہے۔ اے پی سی میں موجود شرکا کی تمام تجاویز کو غور سے سنا ہے، یہ اجتماعی سوچ اور فکر ہم سب کے لیے حوصلہ افزا ہے، دن رات مظلوم فلسطینیوں کا خون بہایا جارہا ہے، مقبوضہ کشمیرمیں بھی دن رات خون بہایا جاتا ہے، آج صرف فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کی بات ہوگی، وہ آزاد ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہو۔ہم ایک ورکنگ گروپ بنائیں گے جو دارالحکومتوں میں پیغام پہنچائے گا، ورکنگ گروپ میں ایکسپرٹس کو شامل کریں گے، ورکنگ گروپ میں سب جماعتیں ہوں گی، ورکنگ گروپ کے لیے فی الفور اقدامات اٹھائیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ نیتن یاہو کی جنرل اسمبلی آمد پر ہم نے واک آئوٹ کیا، مجھے پتا تھا جنرل اسمبلی میں میری تقریر سے کھلبلی مچے گی، اگر مجھے اس حوالے سے کوئی سزا دیتے ہیں تو سامنا کریں گے، اللہ کا شکر ہے میری تقریر کے باوجود آئی ایم ایف پروگرام منظور ہوا، بطور پاکستانی ہمیں اپنے فیصلے لینے میں جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ غزہ میں جنگ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے، فلسطین میں امدادی سامان پہنچانے میں ہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے، فلسطینی عوام کو بدترین اسرائیلی جارحیت کا سامنا ہے، ہم سب فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔  صدر مسلم لیگ نون و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جارحیت کیخلاف خاموشی اختیارکرنا انسانیت کی ناکامی ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر بیدردی کیساتھ ظلم ڈھایا جارہا ہے، یہ تاریخ کی ایک بدترین مثال ہے، بچوں کی خون آلودہ تصاویردیکھ کردل خون کے آنسو روتا ہے، غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے، مائوں کی گود سے بچے چھین کرشہید کیے جارہے ہیں۔ایسا ظلم زندگی میں نہیں دیکھا، اقوام عالم کی اس حوالے سے عجیب قسم کی خاموشی ہے، اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے، اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی ہے،شہبازشریف نے جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کا مقدمہ لڑا، سب نے شہبازشریف کی تقریرکوسراہا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ غزہ کی صورتحال بہت افسوس ناک ہے، اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں پرعملدرآمد کرانے میں ناکام ہے، ایسی یواین او کا کیا فائدہ جوظلم کونہ روک سکے، یاسرعرفات نے فلسطینی عوام کیلئے بڑی جدوجہد کی۔ فلسطینیوں کا خون رنگ لائیگا، شہبازشریف نے اس حوالے سے روڈ میپ دیا اس پر غورہونا چاہیے، عالم اسلام کوفیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں،اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے، اسلامی ممالک اپنی قوت کا استعمال آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ سب کواکٹھے ہو کر ایک پالیسی بنانی پڑے گی، اگرہم نے کچھ نہ کیا تو پھر اسی طرح مائوں، بہنوں کو شہید ہوتا دیکھتے رہیں گے، اسرائیل کے پیچھے عالمی طاقتوں کوبھی سوچنا چاہیے، صدرمملکت کی تجویز سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں، ہمیں اپنی سفارشات مرتب کرنے کے بعد اسلامی دنیا سے رابطہ کرنا چاہیے۔ہمیں عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے، اس حوالے سے جلدی اقدامات ہونے چاہئیں، اسرائیلی جارحیت کیخلاف خاموشی اختیار کرنا انسانیت کی ناکامی ہے۔ سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسئلہ فلسطین پر سعودی عرب یا پاکستان امت مسلمہ کو لیڈ کرے۔ قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ کہا تھا، اسرائیل کے ناسور کا فیصلہ1971میں برطانوی وزیرخارجہ بالفورڈ نے کیا، غزہ میں پچاس ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں، دس ہزار کے قریب فلسطینی تاحال ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔اسرائیل کوتسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث پرتعجب ہوتا ہے، سات اکتوبر کو حماس نے اس مسئلے کی نوعیت ہی بدل دی، اس خطے میں یہودیوں کی آبادی یا بستی کا کوئی جواز نہیں، کانفرنس یا قرارداد پاس کر کے ہم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا مصلحتوں کا شکار ہے، امت کی  بے حسی کے جرم میں پاکستان بھی برابر کا شریک ہے، کیا ہمیں اس کا احساس ہے؟ ہم سے جنوبی افریقہ اچھا جس نے عالمی عدالت میں کیس دائرکیا، اقوام متحدہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پاس کی، جنگ پھیل رہی ہے، جنگ لبنان، ایران اور یمن تک پھیل چکی ہے، ایک چھوٹے سے ملک نے عرب دنیا کواضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔آج کی میٹنگ بامعنی ہونی چاہیے، مسئلہ فلسطین پر سعودی عرب یا پاکستان امت مسلمہ کولیڈ کرے، بڑے اسلامی ممالک کا ایک گروپ بنے، مسلمان ایک مشترکہ حکمت عملی بنائیں، 1947والے موقف پرہمیں کلیئرہوجانا چاہیے۔چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کا کہنا تھاآل پارٹیز کانفرنس دنیا کو پیغام ہے کہ پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے۔ غزہ میں بربریت کو ایک سال ہوگیا ہے، پاکستان میں معاشی مسائل اور دہشت گردی کا سامنا ہے لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہم سب ایک پیج پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کے فورم سے واضح پیغام ہے ہم فلسطین کیساتھ کھڑے ہیں، وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی، وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر پرواک آئوٹ جرات مندانہ فیصلہ تھا، تمام سیاسی جماعتوں کا فلسطین کے حوالے سے وزیراعظم کو مکمل تعاون حاصل ہوگا۔ ہم نے فلسطین کے معاملے کو دنیا میں اٹھانا ہے، ہم عالمی سطح پر سفارتی جنگ لڑنے کو تیار ہیں، اگرباقاعدہ جنگ کی ضرورت ہوگی تو سب آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں فلسطینیوں کیساتھ ہیں، ہم فلسطینی بہن بھائیوں کونہیں بھولے۔مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اسرائیلی قیدی ایک بہانہ تھا ان کا مقصد پورے فلسطین پر قبضہ کرنا ہے، ہم نے دنیا میں صیہونیوں کی سازش کو بے نقاب کرنا ہے۔امریکا اور برطانیہ کے زیادہ ترعوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، سپین اور جنوبی افریقہ کو فلسطین کیلئے سٹینڈ لینے پر سلام پیش کرتا ہوں، اعلی سطح کی کمیٹی پوری دنیا میں اسرائیلی سازش کو بے نقاب کرے، فلسطینیوں کو حق دلوانے کے معاملے پر ہم سب وزیراعظم کے ساتھ ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر مسلم ممالک اکھٹے ہو کر فلسطین کے لیے اپنا کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسرائیلی بربریت کا خاتمہ نہ ہو سکے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا درست ہے کہ کانفرنسوں سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت ہے' جس طرح ایران نے فلسطین کا مقدمہ لرا ہے اور عملی طور پر بھی اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کی ہیں ۔تمام مسلم ممالک کو اپنے نقصان کی پروا کیے بغیر دامے ' درمے'قدمے' سخنے فلسطین کی مدد کرنا ہو گی۔ جب امریکہ کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ مسلم ممالک خوف کا شکار ہو کر اس معاملے پہ بولنے سے بھی گریزاں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی پروا کیے بغیر فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن عسکری و مالی مدد کی جائے۔