نفرتوں کی سیا ست کا چلن

وزیر اعلی گلگت  بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ جس شاندار انداز میں دشکن کے عوام نے میرا استقبال کیا اور مجھے عزت دی اس پر میں عمائدین اور عوام دشکن کا مشکور ہوں۔دشکن میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ استور اور دیامر کی روایات، ثقافت مشترک ہیں، ہم استور کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ وزیر اعلی گلگت  بلتستان نے کہا کہ چند لوگ مسلکی بنیادوں پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ گلگت  بلتستان میں نفرت کی سیاست کو ختم کریں۔ گزشتہ حکومتیں کوششوں کے باوجود جو کام نہیں کرسکے وہ ہماری حکومت نے ایک سال کی مختصر مدت میں کردکھایا۔ لینڈر یفارمز، گندم کی فراہمی اور سبسڈی کا مسئلہ ،گلگت  بلتستان میں مستقل قیام امن سمیت تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو مکمل کیا۔سیاست خدمت کا نام ہے، مگر منافقت،نفرت،بدتمیزی کی وجہ سے گالی بن گئی ہے،مخالفین کو برے ناموں سے پکارنا،نام اور شکلیں بگاڑنا ہماری سیاسی روایات کبھی نہیں رہیں، میں۔پہلے کہا جاتا تھا اپنی کسی سیاسی، نظریاتی مخالف حماعت کے متعلق کبھی منفی گفتگو نہ کریں اور انکی برائیوں کو نہ اچھالیں، مگر اب جماعتوں میں تہذیب، روادای اور مثبت سیاسی اقدار کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے  نفرت، انتقام اور حسد کی سیاست ملک اور قوم کیلئے نقصان دہ اور نوجوان نسل کیلئے زہر قاتل ہے ،بدقسمتی سے نفرت اور تقسیم کی سیاست نے اس ملک پر جس طرح راج کیا ہے اس کے اثرات ہر شعبہ زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس ڈھب کی سیاست سے یہی ممکن ہے اور امید بھی یہی کی جاسکتی تھی۔ تاہم ماضی کے ناموافق ورثے سے جان چھڑائے بغیر ہم قومی سطح پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔پاکستان کے مسائل آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ ملکی آبادی کی غالب اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے  جنہیں تعلیم و تربیت اور روزگار کے بہتر مواقع کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں یہ مہیا کر دیا جائے تو یہ نسل ملک کیلئے غیر معمولی سرمایہ ثابت ہو سکتی ہے  دوسری صورت میں نوجوان آبادی کا بوجھ ناقابلِ تصور مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب معیشت مستحکم ہو۔ آج صورتحال یہ ہے کہ افراطِ زر کی شرح کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے سیاسی استحکام بنیادی طور پر ضروری ہے۔ اگرچہ سرمایہ کار کی توجہ اور کشش کیلئے دیگر کئی عوامل بھی اہم ہیں جیسا کہ خام مال کی دستیابی ہنر مند افرادی قوت توانائی کی فراہمی اور مقامی مارکیٹ یا بیرونی مارکیٹ کے ساتھ رابطے اور نقل و حرکت کی آسانی تاہم کسی ملک میں سیاسی استحکام سرمایہ کاری کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے ملک ِعزیز میں دیگر سبھی عوامل موجود ہیں۔ نوجوان آبادی کی صورت میں افرادی قوت بھی وافر دستیاب ہے خام مال کے مسائل بھی آسانی سے حل ہو سکتے ہیں کیونکہ بنیادی پیداواری وسائل دستیاب ہیں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچوں بڑا ملک ہونے کے ناتے پاکستان اس پوزیشن میں بھی ہے کہ صنعتی شعبے کیلئے خاطر خواہ کنزیومر مارکیٹ بن سکے جبکہ محل وقوع کے لحاظ سے ہم جنوبی ایشیا  وسط ایشیا  مشرقِ وسطی اور یورپ تک کی مارکیٹوں کیساتھ بہتر زمینی راہداری مہیا کر سکتے ہیں جبکہ بحری اڈوں کیساتھ دنیا بھر سے۔ یہ سبھی امکانات بڑے خوش آئند ہیں اور ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں مگر ان سے استفادہ کرنے کیلئے ملک میں سیاسی رواداری کا ہونا ناگزیر ہے۔ ترقی کا یہ خواب کب کا شرمندہ  تعبیر ہو چکا ہوتا اس سلسلے میں جو رکاوٹ تھی  سیاسی استحکام کے فقدان کا نتیجہ تھی۔ اس دوران ہمارے ہمسائے میں کئی ممالک دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے آگے نکل گئے۔ ہماری نظر میں یہ چیلنج صرف اسی تناظر میں اہم نہیں کہ ہم وسائل ہونے کے باوجود خطے کے مد مقابل ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں  بلکہ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس پسماندگی کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔معاشی کمزوریوں کے باعث ریاست فرد کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے وہ کچھ نہیں کر پار ہی جو پاکستانی شہریوں کے آئینی حقوق میں شامل ہے۔ رہی بات دنیا کی تو گلا کاٹ دینے والے مقابلے کی فضا میں ہمارے شہریوں کیلئے جگہ بنانے کے مواقع کم سے کم تر ہو رہے ہیں۔ ترقی کے اس ماحول میں اپنا مقام پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شہریوں کی تعلیم و تربیت  صحت اور ترقی پر کافی سرمایہ کاری کی جائے۔تاہم ایسا ماحول صرف اسی صورت میں بن سکتا ہے جب ملک میں سیاسی تقسیم و تعصب کی فضا قائم نہ ہو۔ صرف یہی ماحول سیاستدانوں کو ملک اور عوام کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔ نفرت اور تقسیم کی فضا میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا لہذا تمام سیاسی قیادت کو اس نکتے پر سوچنا اور اتفاقِ رائے کی گنجائش پیداکرنی چاہیے۔سیاست جو عبادت و خدمت کا نام ہے اس میں بھی نفرت کے افسوس ناک شواہد نظر آنے لگے ہیں جنہیں دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر ہر حوالے سے زوال پذیر ہوچکا ہے منتخب نمائندوں کا رویہ جب انتہا پسندانہ ہو تو کارکنوں کے رویوں کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔سیاسی نفرتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ان فرینڈ کرنا شروع کر دیا ہے پاکستان کے سیاستدان اگر پاکستانی قوم پر رحم کریں تو یہ صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے سیاسی لیڈر جب ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہیں اور گالم گلوچ سے بھی گریز نہیں کرتے تو اس کے اثرات ان کے پیروکاروں پر پڑتے ہیں جس کی وجہ سے ہر گھر متاثر ہو رہا ہے قریبی رشتے داروں میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر دوریاں پیدا ہو رہی ہی۔سیاسی کارکن غصے کی حالت میں اپنے ہوش و حواس ہی کھو بیٹھتے ہیں اور اپنے لیڈر کی محبت میں ریاست کے ان اداروں عدلیہ اور پاک فوج پر شدید تنقید کرنے لگتے ہیں جو ہماری آزادی اور سلامتی کے ضامن ہیں اور جن کے بغیر آزاد ریاست کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔لیڈروں کی اندھی تقلید نے سیاسی کارکنوں اور حامیوں کو قومی مفادات سے ہی لاپروا کردیا ہے ان کو یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان کا دشمن بھارت پاکستان کو مختلف حوالوں سے اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی یہ منصوبہ بندی خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ ہے جس کا برملا اظہار بھارت کے لیڈر کئی بار کر چکے ہیں۔پاکستان کی فوج جو پاکستان کی آزادی سلامتی اور یک جہتی کی ضامن ہے اسرائیل امریکہ برطانیہ اور بھارت کے نشانے پر ہے۔پاکستان دشمن طاقتوں کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کی فوج اور عوام کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا جائے اور ان کے درمیان جو اعتماد ہے اس کو مجروح کر دیا جائے دنیا کی عسکری تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی ملک کی فوج اپنے ہی عوام کا اعتماد کھو بیٹھے تو وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہتی سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ہم یہ المیہ اور سانحہ دیکھ چکے ہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے بنگالیوں کے دلوں میں پاک فوج کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کیے جب یہ جذبات شدت اختیار کر گئے تو وہ مکتی باہنی بن کر اپنی ہی فوج کے خلاف کھڑے ہو گئے اور پاکستان دو لخت ہو گیا ۔سیاسی لیڈروں کے اندھے مقلدین کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔اس آزادی کے لئے ہمارے آبائو اجداد نے کس قدر جانی اور مالی قربانیاں دی تھیں۔ پاک فوج اور عوام کا اعتماد کسی صورت مجروح نہیں ہونا چاہیے نفرت اور تعصب کی وجہ سے پاکستانی سماج برباد ہو رہا ہے  یہ نفرت ہر گھر میں پہنچ چکی ہے کیا پاکستان کے مذہبی سیاسی لیڈر حب الوطنی کا عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو تحمل اور برداشت کی ہدایت کریں گے اور خود بھی اپنے خطبات اور بیانات میں تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے لیے بہتر اور موزوں الفاظ استعمال کریں گے۔نفسیات کے ماہرین کے مطابق معاشی محرومیاں اور انصاف کی عدم فراہمی نفرت تعصب اور عدم برداشت کو جنم دیتی ہیں۔ ریاست پاکستان کے عوام مطمئن کرنے کے لیے معاشی انصاف کو یقینی بنائے تاکہ محرومیوں اور مایوسیوں کو ختم کیا جا سکے ۔پاکستان کے سماج کو نفرت اور تعصب کے مہلک اثرات سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ  پاکستان کے پڑھے لکھے افراد والدین اور اساتذہ صحافی وکلا ڈاکٹر انجینئر وقت کے چیلنج کو قبول کریں اور نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔نفرتوں کا چیلنج پاکستان کی آزادی سلامتی یکجہتی اور امن و امان کے لیے سنگین خطرہ بنتا چلا جا رہا ہے۔پاکستان میں خدا نہ کرے سول وار کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں ان حالات میں خاموش رہنا ہر گز پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اپنے اور پارٹی کے مفادات کی بجائے ملکی کی بہتری و ترقی کا سوچیں'یاد رکھیں یہ ملک ہے تو ان کی سیاست ہے اس لیے ملک کی بقا ہرشے اور ہر پارٹی کے مفادات پر مقدم ہے۔