سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ نوجوانوں کو سیاحت اور آئی ٹی کے شعبے میں بہترین مواقعے میسر آسکیں گے ۔ غذر کے نوجوانوں نے جس طرح جنگ کے میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے اسی طرح ہر میدان میں آگے بڑھیں ہم ریاست پاکستان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ غذر کی سرزمین کو شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کے عوض ہر میدان میں ترجیح دی جائے پاکستان کا ایسا کوئی ضلع نہیں جہاں غذر کے مقابلے میں شہید موجود ہوں انہوں نے مزید کہا کہ غذر کے سپوتوں کا یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے آج تک کسی جنگ میں پیٹھ پر گولی نہیں کھائی بلکہ سینے پر گولی کھا کر بہادری اور شجاعت کی مثال قائم کردی ہے ہمیں اپنے بہادر سپوتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف جنگ بلکہ ہر میدان میں اپنا نام تاریخ میں روشن کرنا ہے۔بلاشبہ آئی ٹی کا شعبہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کیلئے جدید آئی ٹی پارکس اور انکیوبیشن سینٹرز کے قیام کے ساتھ ساتھ ٹیلی کام سروسز کی خدمات میں بہتری اورانٹرنیٹ بینڈوتھ میں اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ غیر ملکی آئی ٹی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے جدید تقاضوں اور عالمی معیار کے مطابق ہنر مند افرادی قوت کی تیاری اور بنیادی ڈھانچے کی مسلسل ترقی اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی میں بہتری بھی ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں اس شعبے میں پائیدار ترقی کیلئے ضروری ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے والے اداروں کو بین الاقوامی سرٹیفیکیشن کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ پاکستان میں ٹیکنالوجی پر مبنی مضامین اور خصوصی آئی ٹی مہارت میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ طویل المدت بنیادوں پر آئی ٹی سیکٹر کو ترقی کے سفر پر گامزن رکھنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ سکولوں کی سطح پر طلبہ کو اس اہم شعبے سے روشناس کروایا جائے۔ اس طرح ہمارے پاس نئی نسل کی شکل میں کم عمری سے ہی مضبوط بنیادوں پر استوار افرادی قوت مستقبل کیلئے درکار ٹیلنٹ کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے تیار ہو گی۔پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2028 تک دس سے اٹھارہ بلین ڈالر تک بڑھنے کی پیش گوئی ہے جبکہ آئی ٹی صنعت کی سالانہ ترقی چھے بلین ڈالر تک بڑھ سکتی ہے۔آئی ٹی کے شعبے میں درپیش مسائل کے حل کے لیے مصنوعی ذہانت، سائبر سیکیورٹی، انفراسٹرکچر کی بہتری، اور مسلسل سرمایہ کاری و پالیسی معاونت کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص شعبوں میں مہارت کے فقدان کو کم کرنا ضروری قرار دیا گیا۔معاشی چیلنجزپرقابو پانے اورپاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی مکمل صلاحیتوں کے فروغ کے لیے حکومت ،نجی شعبے اور تعلیمی اداروں کے درمیان مسلسل تعاون کو اہمیت دی گئی۔پاکستان میں انٹرنیٹ اوراسمارٹ فون کے استعمال میں متاثر کن پیشرفت ہوئی ہے اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز نےملک کے آئی ٹی منظرنامے میں جدت اور بہترین طریقوں کو لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا عالمی سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان نہ صرف کاروباری مواقع فراہم کرتا ہے بلکہ جدت اور ترقی کے لیے بھی ایک سازگار ماحول بھی مہیا کرتا ہے۔ انڈیا آئی ٹی کی سالانہ ایکسپورٹ194 بلین ڈالرہے جبکہ پاکستان کی سالانہ آئی ٹی ایکسپورٹ کا حجم 1.9بلین ڈالر ہے ۔آئی ٹی کے شعبہ میں کتنا پوٹینشل ہے اور ملکی ترقی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی انتہائی اہم کرادار ادا کرسکتی ہے اگراس کے ترقی کے تمام پہلوﺅں کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی ممالک سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ آئی ٹی کے شعبے میں سب سے عوامل کارفرماہیں جسکی وجہ سے یہ شعبہ آگے نہیں بڑھ رہا اور نہ ہی ملکی ترقی میں کوئی خاطر خواہ حصہ ڈال رہا ہے ۔ اگر ہم انٹرنیٹ ربط سازی کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سب سے سست انٹرنیٹ کی سپیڈ رکھنے والا ملک ہے۔ اس کے باوجود آزادی اظہار رائے پر مختلف ادوار میں پابندیاں لگائی جاتی رہیں جو آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے ۔پاکستان میں گوگل اوراقتصادیاتی حکمت عملی کی مشترکہ کوششوں سے رپورٹ مرتب کی گئی جو یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں تقریبا چون فیصد لوگوں کے پاس اینڈرائیڈسیل فون ہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی استعداد کار کو اگر اسے رئیل ٹائم وسعت دے دی جائے یا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان کی سالانہ آمدن میں تقریباساٹھ بلین ڈالر تک سال دوہزار تیں تک اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح باہر کے ممالک سے آئی ٹی کے شعبے میں انویسٹ کرنے والی کمپنیوں یا دیگر لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر نافذ العمل پالیسی اورقوانین کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو آئی ٹی کے شعبے کو دوام بخشا جا سکتا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں فراہم کی جانے والی آئی ٹی کے شعبے میں انتہائی ناقص اور قابلِ افسوس صورتحال پر تبصرہ کریں اور یہ جانے کی کوشش کریں کہ ہم وہ نتائج کیوں نہیں دے سکے جسکی ملک کواس وقت اشد ضرورت ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کا موجودہ تعلیمی نظام ہمارا کارگر نہیں ہے ہم فرسودہ تعلیمی نصاب کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ دنیا کے کئی ممالک نئی جدتوں کو اپنا کر ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں شاید ہم ابھی بھی حالات سے سبق نہیں سیکھنا چاہتے ۔آئی ٹی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانیوالا نصاب فرسودہ ہو چکا ہے جو پاکستان کی صنعتوں کے موجودہ معیارات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔ اس گہرے خلا سے انڈسٹری اور جامعات کے درمیان کاروباری مفادات میں تعاون پر فروغ ہے نہ ہی کوئی مفاہمتی بورڈ تشکیل دیا گیا ہے جس سے باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ اس کیساتھ ساتھ جامعات میں نصاب سے متعلقہ پریکٹیکل سکلز سکھانے کی بجائے نصاب کو پڑھانے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ اسی طرح سوفٹ سکلزکی تربیت بغیر آئی ٹی انڈسڑی کی ضرورت کی مطابق ضروری سوفٹ وئیر کی مہارتیں سیکھنا بہت ضروری ہے۔ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کا واحد حل یہ ہے کہ برآمدات بڑھائی جائیں۔ اس کیلئے جہاں برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مشکلات ختم کرنے کی ضرورت ہے وہیں برآمدات میں فوری اضافے کیلئے دیگر شعبوں کی استعداد کار کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے آئی ٹی سیکٹر نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس شعبے میں برآمدات بڑھانے کے لامحدود مواقع موجود ہیں جبکہ اس کیلئے ٹیکسٹائل انڈسٹری یا دیگر پیداواری شعبوں کی طرح بہت زیادہ سرمایہ کاری کی بھی ضرورت نہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی آئی ٹی کمپنیاں اور فری لانسرز پہلے ہی بغیر کسی بہت بڑی حکومتی مدد یا تعاون کے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ تاہم اب یہ ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اس شعبے کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کا درجہ دے کر اس کیلئے درکار ایکو سسٹم کو بہتر بنایا جائے۔پاکستا ن میں آئی ٹی یونیورسٹیوں کو آئی ٹی گریجویٹس کے مستقبل کو روشن بنانے میںہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ملک میں صنعت کی ترقی کی رفتار کیساتھ ساتھ جامعات میں نصاب کو ہم آہنگ کرنے اور اس کا باقاعدہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ طلباکی عملی تربیت کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کیساتھ اس بات کو یقینی بناےا جائے کہ طلبا نے فیلڈ کے لئے درکار تجربہ حاصل کر لیا ہے ۔ تعلیمی تنائج کو مارکیٹ کی ضرورت سے ہم آہنگ کرنے کیلئے آئی ٹی انڈسٹری کیساتھ تعاون کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر ضرور دیا جانا چاہیے ۔ سوفٹ ائیر کی مہارتوں کو مزید نکھارنے کیلئے جامع پروگرام ترتیب دیئے جانے چاہیے ۔ کیرئیر کی خدمات کو بہتر بنانے اور مضبوط صنعتی نیٹ ورک قائم کیا جائے ۔ فیکلٹی کی استعداد کار کو بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری کی جائے اور صنعت کے تجربہ کار پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ سخت ایکریڈیشن اور کوالٹی انشورنس کے عمل کو لاگو کیا جائے ۔ ان اقدامات پر عمل پیرا ہو کرملک میںآئی ٹی گریجویٹس کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے اور گریجویٹس کو مارکیٹ میں جاب حاصل کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح میں بھی کمی لائی جا سکے ۔ہمےں جدےد دنےا کے تقاضوں کے مطابق اپنے نصاب تعلےم کو مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ترقی کی دوڑ میں دنےا کے ہم پلہ ہو سکےں۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ برسوں پرانے نصاب سے جان چھڑا کر جدےد نصاب کی تعلےم دی جائے اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدےلےوں کے مطابق اس میں تبدےلےاں کی جائےں۔اسی طرح ہم آئی ٹی کی مدد سے اپنی سےاحت کو بھی فروغ دے کر بھاری زرمبادلہ کما سکتے ہےں۔
