اےران نے متنبہ کیا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مدت میں مزید توسیع ممکن نہیں ہے۔ ایرانی سفیر نے بتایا کہ ایران گیس پائپ لائن پر کام مکمل کر چکا، آئل کمپنی پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتی ہے۔سات اگست 2023 کو پاکستان نے ایران کو اربوں ڈالر کے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل سے متعلق معاہدے کے تحت طے شدہ ذمہ داری کو معطل کرنے کے لیے فورس میجر اینڈ ایکسکیوزنگ ایونٹ نوٹس جاری کیا تھا جس میں پاکستان کے قابو سے باہر بیرونی عوامل کا حوالہ دیا گیا۔سادے الفاظ میں پاکستان نے اس وقت تک منصوبہ آگے بڑھانے سے اپنی معذوری ظاہر کی ہے جب تک کہ ایران پر امریکی پابندیاں برقرار ہیں یا امریکا کی جانب سے اسلام آباد کو منصوبے پر آگے بڑھنے کے لیے کوئی مثبت اشارہ دیا جائے۔یہ منصوبہ 24 کروڑ عوام کے جنوبی ایشیائی ملک میں توانائی کی شدید قلت کے باوجود تقریبا ایک دہائی سے سرد خانے میں پڑا ہے۔23 فروری 2024 کو کابینہ کی توانائی کمیٹی نے پاک ایران گیس پائپ منصوبے کے تحت 80 کلومیٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ برسوں سے التوا کا شکار ہے اور اس کے مستقبل پر کئی سوالات ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ منصوبے کے مخالف امریکہ کے دباﺅ پر پاکستان اس معاملے میں محتاط ہے جب کہ پاکستانی حکام منصوبے کی تکمیل کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔پاکستانی حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ گیس کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ضروری ہے۔ پاکستان نے ایران سے قدرتی گیس حاصل کرنے کا یہ معاہدہ پندرہ سال قبل کیا تھا۔یہ منصوبہ تقریبا گےارہ برس سے التوا کا شکار ہے۔ گو کہ ایران اپنے حصے کا بیش تر کام مکمل کر چکا ہے لیکن پاکستان اس کا انفراسٹرکچر نہیں بنا سکا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے چند ماہ قبل فیصلہ کیا تھا کہ زیرِ التوا پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کیا جائے گا۔ایران کے مرحوم صدر ابراہیم رئیسی اپریل کے آخری عشرے میں تین روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے۔ اس دوران بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی کوئی بات چیت یا اہم پیش رفت ہو گی۔ان کے دورے کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں توانائی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت کا تو ذکر کیا گیا مگر ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا نام نہیں لیا گیا۔ لیکن پاکستان میں اس پائپ لائن منصوبے پر خاصی بحث ہوئی جب نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے ایک پریس کانفرنس میں اس منصوبے پر بات کی۔انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر فیصلہ ملکی مفاد میں کیا جائے گا اور پاکستان اپنے معاملات پر کسی کو ویٹو کی اجازت نہیں دے گا۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکہ یا سعودی عرب کے تحفظات ہمارا مسئلہ نہیں اور اس ضمن میں کوئی دباﺅ قبول نہیں کیا جائے گا۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ایران سے گیس درآمد کرنا اس قدر آسان نہیں ہو گا۔ اگر پاکستان یہ منصوبہ مکمل نہیں کرتا تو اس صورت میں اسے اٹھارہ ارب ڈالر کے جرمانے اور ملک کے اندر بدستور توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ملک کے شہری علاقوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے لیکن اب یہ سلسلہ گرمیوں میں بھی جاری ہے اور شہری علاقوں میں گیس دن کے اوقات میں ہی دستیاب ہوتی ہے۔کئی شہری آبادیوں میں دن میں بھی گیس لوڈ شیڈنگ کی شکایات عام ہیں جس کی وجہ سے شہری سلینڈرز کے ذریعے گیس استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں اس وقت گھریلو صارفین گیس کی فراہمی کی ترجیحی فہرست میں شامل ہیں۔ لیکن گیس کے مسلسل کم ہوتے ہوئے ذخائر کے باعث شہریوں کو گیس کی فراہمی کم ہوتی جا رہی ہے۔ فرٹیلائزر کمپنیوں، بجلی بنانے والی کمپنیاں، جنرل انڈسٹری، کمرشل سیکٹر، ٹرانسپورٹ سیکٹر اور پھر سیمنٹ سیکٹر بھی گیس کی کمی کی شکایت کر رہے ہیں۔گیس ایک جانب دستیاب نہیں تو دوسری جانب اس کی قیمت میں صرف ایک سال میں 570 فی صد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ پھر بھی نہیں تھما اور جنوری 2024 میں فی ایم ایم بی ٹی یو چارجز بڑھ کر 1761 روپے ہو گئے اور پھر مارچ 2024 میں بھی فی ایم ایم بی ٹی یو چارجز مزید بڑھا کر 1976 روپے کر دیے گئے۔کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کے ریٹس اور بھی زیادہ ہیں جب کہ ملک کے شمالی علاقوں کو گیس سپلائی کرنے والی سوئی ناردرن گیس پائپ لائن اور جنوبی علاقوں میں گیس سپلائی کی ذمے دار سوئی سدرن گیس کمپنی کے نرخوں میں بھی فرق ہے۔جنوبی علاقوں میں گیس کی قیمت نسبتا کم جب کہ شمالی علاقوں میں زیادہ ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے جنرل انڈسٹری کے فی ایم ایم بی ٹی یو ریٹ 2200 روپے مقرر ہیں جب کہ برآمدی انڈسٹری کے لیے چارجز 2100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر ہیں۔انڈسٹری مالکان کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتوں کو چلانا مشکل ہو گیا ہے اور عالمی مارکیٹ میں مصنوعات، بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر کی مصنوعات کی مسابقت ناممکن ہو گئی ہے۔ گیس دنیا بھر میں استعمال ہونے والی توانائی کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جب کہ دنیا بھر کی کھپت میں پاکستان میں گیس کی کھپت کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔اس وقت پاکستان اپنی ضرورت کی چوالےس فی صد گیس درآمد کر رہا ہے جب کہ چھپن فی صد مقامی وسائل سے حاصل کی جا رہی ہے۔ لیکن آبادی میں تیزی سے اضافے اور بجلی کی پیداوار میں گیس کا استعمال زیادہ ہونے کی وجہ سے گیس کی طلب مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔گیس کی کمی سے صنعتیں اور دیہات میں رہنے والی آبادی زیادہ متاثر ہو رہی ہے جو مقامی گیس کے مقابلے میں درآمد کی گئی مہنگے داموں گیس خریدنے پر مجبور ہیں۔پاکستان نے توانائی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ماضی میں دو ملکوں سے گیس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس مقصد کے لیے پاکستان، ترکمانستان سے افغانستان اور بھارت جانے والی گیس پائپ لائن معاہدے میں شامل ہوا جسے تاپی بھی کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تقریبا 1800 کلومیٹر لمبی مجوزہ پائپ لائن کے ذریعے سالانہ 33 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور بھارت تک پہنچائی جانی ہے جس کا تخمینہ آٹھ ارب امریکی ڈالر ہے۔لیکن افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال اور وہاں سیاسی حکومت کی عدم موجودگی کے باعث یہ منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق فی الحال اس کے جلد مکمل ہونے کی کوئی امید بھی دکھائی نہیں دیتی۔پاکستان نے گیس درآمد کرنے کے لیے دوسرا معاہدہ ایران سے کیا تھا جس کے پاس روس کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ گیس کے دریافت شدہ ذخائر ہیں۔اس معاہدے پر سب سے پہلے 1994 میں بات ہوئی تھی جس میں ایران سے پاکستان اور پھر بھارت تک گیس پائپ لائن بچھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن 2008 میں مبینہ امریکی دباﺅ کے بعد بھارت کے اس منصوبے سے نکل جانے کے بعد یہ پاکستان اور ایران کے درمیان دو طرفہ منصوبہ رہ گیا ہے۔ایران نے اپنے پارس انرجی اکنامک زون سے پاکستانی سرحد تک کوئی 1100 کلو میٹر طویل پائپ لائن کا کام مکمل کر لیا ہے۔ اس پائپ لائن پر ایرانی حکومت نے دو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ تاہم پاکستان نے اب تک اس پائپ لائن پر کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔ابتدائی طور پر پاکستان کے اندر 780 کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جانی تھی۔ لیکن 2019 میں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں سرحد سے گوادر تک 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ لیکن اس پر بھی کام برسوں سے تاخیر کا شکار ہے۔اس منصوبے کی تکمیل کو پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے پر اربوں روپے لاگت آنی ہے اور پاکستان کو درپیش معاشی مسائل کے باعث اس پروجیکٹ کی فنڈنگ بھی حکومت کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ایران پاکستان گیس پائپ لائن سے پاکستان کو 70 کروڑ کیوبک فٹ سے ایک ارب کیوبک فٹ تک اگلے 25 سال تک گیس ملنی ہے۔ اس پائپ لائن کی بدولت گیس کی طلب پوری کرنے میں آسانی ہو گی جب کہ ایران سے ملنے والی گیس درآمد شدہ آر ایل این جی کے مقابلے میں بھی کافی سستی پڑے گی۔پاکستان کی سفارتی کوششوں سے ایران اب تک عالمی ثالثی ٹربیونل میں جانے سے گریزاں رہا ہے لیکن اگر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو ایران ٹربیونل سے رجوع کر سکتا ہے۔
