اسرائےل کے خلاف مزاحمتی تنظےم حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ سید حسن نصر اللہ جمعہ کی شام بیروت کے ضاحیہ جنوب میں ایک مجرمانہ حملے میں شہید ہو گئے ہےں۔حزب اللہ نے اپنے بیان میں سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ ہماری قیادت دشمن کے خلاف جہاد جاری رکھنے اور غزہ کی حمایت اور لبنان اور اس کی ثابت قدم قوم کے دفاع کےلئے پرعزم ہے۔جمعہ کی شام اسرائیلی طیاروں نے بیروت کے ضاحیہ کے حارہ حریک محلے پر شدید بمباری کی تھی۔ بظاہر اس حملے میں استعمال ہونے والے بموں میں سے ایک بم پہلی بار اسرائیلی فضائیہ نے استعمال کیا تھا۔اس دہشت گردانہ حملے کے بعد لبنان کی وزارت صحت نے اپنے ابتدائی اعدادوشمار کی بنیاد پر اعلان کیا تھا کہ عمارت کے ملبے تلے سے چھے شہدا کی لاشیں اور اکےانوے زخمیوں کو نکالا گیا ۔لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملوں میں شہادت پر فلسطینی مزاحتمی تنظیم حماس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کی شہادت سے ہماری مزاحمت کو مزید تقویت ملے گی۔حماس نے اسرائیلی فضائی حملے میں حسن نصراللہ کی شہادت پر سوگ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت اسرائیل کے خلاف ہمارے جنگ کو مزید ہوا دے گی۔قاض فوج کے جرائم اور قتل و غارت صرف فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کے عزم میں اضافہ کرے گی کہ وہ اپنی پوری طاقت، بہادری اور فخر کے ساتھ شہدا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آگے بڑھیں اور فتح تک مزاحمت کی راہ پر گامزن رہیں۔حماس نے مزید کہا کہ ہم اپنی مکمل یکجہتی اور لبنان میں حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت کرنے والے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعادہ کرتے ہیں جو مسجد اقصی کے دفاع کیلئے جنگ میں ہماری مزاحمت کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔دوسری جانب فلسطینی گروپ اسلامی جہاد نے ایک اپنے ایک بیان میں کہا کہ جلد یا بدیر لبنان، فلسطین اور خطے میں مزاحمتی قوتیں دشمن کو اس کے جرائم کی قیمت چکانے پر مجبور کر دیں گی اور اسے اپنے جرائم کی وجہ سے شکست کا مزہ چکھنا پڑے گا۔غزہ کی آبادی 2.3 ملین افراد پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر جنگ کی وجہ سے بے گھر اور 41500 شہید ہو چکے ہیں۔حماس نے سید حسن نصر اللہ پر اسرائیلی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بزدلانہ دہشت گردانہ کارروائی اور گھناﺅنا جرم قرار دیا۔حماس نے سید حسن نصراللہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصراللہ معرکہ طوفان الاقصی کے شہید ہیں۔ انہوں نے بیت المقدس اور فلسطین کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ قابض دشمن کے ہاتھوں ہونے والی شہادتیں صرف اور صرف فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ ہم اپنی پوری طاقت، بہادری اور فخر کے ساتھ شہدا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فتح تک مزاحمت کی راہ پر گامزن رہیں گے۔ لبنان اورغزہ میں جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ نہتے لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اس پر عالمی برادری، مسلم اور عرب ممالک کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے۔حسن نصراللہ 1960 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مشرقی علاقے برج حمود میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبد الکریم نصراللہ ایک چھوٹے سبزی فروش تھے اور حسن نصراللہ اپنے والدین کے نو بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ایک عام سے خاندان سے تعلق رکھنے والے حسن نصراللہ کا بچپن سادگی میں گزرا، مگر ان کے دل میں بچپن ہی سے اپنے مذہب اور قوم کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ موجود تھی۔حسن نصراللہ نے ابتدائی تعلیم بیروت میں حاصل کی، لیکن لبنان میں جاری خانہ جنگی کے دوران وہ مسلح گروپ امل تحریک میں شامل ہوگئے۔ 1975 کی خانہ جنگی نے لبنان کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور حسن نصراللہ نے اس وقت محسوس کیا کہ انہیں اپنی قوم کی حفاظت کے لیے کچھ بڑا کرنا ہوگا۔تعلیم کے سلسلے میں حسن نصراللہ کچھ عرصے کے لیے عراق کے مقدس شہر نجف چلے گئے، جہاں انہوں نے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ نجف میں قیام کے دوران حسن نصر اللہ نے اسلامی تعلیمات اور سیاست میں گہری دلچسپی لینا شروع کی اور یہیں سے ان کے اندر سیاسی شعور پیدا ہوا ۔نجف سے واپس آ کر وہ دوبارہ امل تحریک میں شامل ہوگئے مگر 1982 میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے بعد حسن نصراللہ اور ان کے چند ساتھیوں نے امل سے علیحدگی اختیار کی اور ایک نئی تنظیم بنائی جس کا نام اسلامی امل رکھا گیا۔اسلامی امل کو ایران کے انقلابی گارڈز کی جانب سے بڑی حمایت ملی اور جلد ہی یہ تنظیم نمایاں حیثیت اختیار کرگئی۔ اسی تنظیم نے آگے چل کر 1985 میں حزب اللہ کے نام سے اپنی پہچان بنائی اور حسن نصراللہ نے تنظیم کے اندر اہم عہدے حاصل کیے۔حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے نہ صرف عسکری محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں بلکہ لبنانی سیاست میں بھی قدم جمائے۔1992 میں حزب اللہ کے رہنما عباس الموسوی اسرائیلی ہیلی کاپٹر حملے میں شہید ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد حسن نصراللہ صرف بتےس سال کی عمر میں حزب اللہ کے رہنما منتخب ہوئے۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو لبنان کی سب سے مضبوط عسکری اور سیاسی تنظیم میں تبدیل کر دیا۔حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو ایک ملیشیا سے بڑھا کر ایک مکمل سیاسی، سماجی اور عسکری تنظیم میں تبدیل کیا۔ ان کے دور میں حزب اللہ نے نہ صرف اسرائیل کے خلاف کامیاب جنگیں لڑیں، بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو لبنانی عوام کے لیے ایک بڑی سوشل ویلفیئر تنظیم میں بدل دیا، جو صحت، تعلیم اور سماجی خدمات فراہم کرتی ہے۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے اسپتال، اسکول اور فلاحی ادارے قائم کیے، جس سے انہیں غریب اور پسماندہ طبقوں میں وسیع حمایت ملی۔حسن نصراللہ کی ایک اور منفرد خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کو ہمیشہ عوام کی نظروں سے دور رکھا۔ ان کی بیوی اور چار بچے زیادہ تر ان کی عسکری اور سیاسی مصروفیات سے الگ تھلگ رہے۔ 1997 میں ان کے بڑے بیٹے ہادی نصراللہ اسرائیل کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہید ہوگئے، لیکن حسن نصراللہ نے اس واقعے کے بعد بھی اپنے حوصلے کو برقرار رکھا اور عوام کے سامنے اپنے ذاتی نقصان کو حزب اللہ کی جدوجہد کا حصہ قرار دیا۔حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف تنظیم کے طور پر ابھری، حسن نصر اللہ کا اصرار رہا کہ اسرائیل بدستور ایک حقیقی خطرہ ہے۔حماس کے سات اکتوبرکو اسرائیل پر حملے کے بعد سے حزب اللہ لبنان، اسرائیل سرحد کے ساتھ تقریبا روزانہ اسرائیلی فوجیوں سے لڑتی رہی ہے۔حزب اللہ کے لبنانی چینل المنار پرحسن نصراللہ کی شہادت کا اعلان کیا گیا۔ اسرائیل نے بیروت حملے میں حزب اللہ سربراہ کی بیٹی زینب نصراللہ کی بھی شہادت کا دعوی کیا ہے۔ایران کے نائب صدر اول محمد رضا عارف نے کہا ہے کہ حسن نصر اللہ کی شہادت کا نتیجہ اسرائیل کی تباہی کی صورت نکلے گا۔ہم قابض اسرائیل کو خبردار کرتے ہیں کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت اسرائیل کی تباہی کا باعث بنے گی۔ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت مزید مضبوطی سے جاری رہے گی۔خطے اور دنیا میں افراتفری پھیلانے کا اسرائیلی منصوبہ ناکام ہو گا، انہوں نے حسن نصر اللہ کو ظلم کے خلاف جنگ کی علامت قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے آزادی پسندوں کو انکی شہادت پر تعزیت پیش کی۔ روسی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں حسن نصراللہ کی شہادت کی شدید مذمت کی اور اسے ایک سیاسی قتل قرار دیا۔روس نے کہا کہ یہ زبردستی کی کارروائی لبنان اور پورے مشرق وسطی کیلئے زیادہ ڈرامائی نتائج سے بھرپور ہے، اسرائیل اس خطرے کو تسلیم کرنے میں ناکام نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود لبنانی شہریوں کو قتل کرنے کا قدم اٹھایا جس سے لامحالہ تشدد کی ایک لہر جنم لے گی۔وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں اسرائیل سے لبنان میں دشمنی پر مبنی کارروائیاں فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔اسرائےل کی دہشت گردی کا سلسلہ روز بروز دراز ہوتا چلا جا رہا ہے لےکن عالم اسلام خاموش تماشائی ہے حالےہ دنوں میں اس نے حزب اللہ اور حماس کی قےادت کو چن چن کر نشانہ بناےا ہے‘ حماس کے سربراہ اسماعےل ہانےہ کو بھی اےران میں نشانہ بناےا گےا‘ اےرانی صدر ابراہےم رئےسی کے حوالے سے بھی ےہ کہا جاتا ہے کہ انہےں اسرائےل نے نشانہ بناےا‘لبنان پر حملوں کے بعد سے متعدد حزب اللہ رہنماﺅں کو نشانہ بناےا گےا‘افسوسناک امرےہ ہے کہ امرےکہ کھل کر اسرائےل کو مالی امداد کے علاوہ اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے لےکن نہ مسلمان ممالک اس پر احتجاج کرتے ہےں نہ ہی غزہ اور لبنان کی مدد کرتے ہےں جو ان کی بزدلی کو ظاہر کرتا ہے۔اسرائےل اب اےران پر حملے کی چتاونی دے رہا ہے مگر چھپن اسلامی ملک خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہےں۔
