بائولے کتوں کے کاٹنے سے تشویشناک اموات



وزیر اعلی گلگت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران گلگت میں بائولے کتوں کے کاٹنے سے دس افراد جاں بحق ہوگئے۔ صوبائی حکومت نے فوری نوٹس لے کر ڈاگ شوٹر ٹیموں کو متحرک کردیا ہے کتا مار مہم کے دوران ہزارکتوں کو مار دیا گیا ہے۔ کتا مار مہم جاری ہے۔گلگت میونسپل حدود میں پندرہ ہزار آوارہ کتوں کی نشاندہی کی گئی کتا مار مہم کے دوران ایک ہزار کتے مارے گئے ہیں جنہیں محفوظ مقام پر تلف کر دیا گیا ہے۔ کتوں کو مارنے کے علاوہ انہیں زندہ پکڑ کر انسانی آبادی سے دور منتقل کرنے کے لیے غیر سرکاری اداروں کی معاونت سے اقدامات کا آغاز کیا جارہا ہے۔ آوارہ کتوں کے کاٹنے کے بعد بہترگھنٹے کے اند ویکسینیشن لازمی ہے کیوں کہ ریبینز کا جراثیم بہترگھنٹوں میں قابل علاج ہے اس کے بعد یہ مرض لا علاج ہوتا ہے۔ ایمان شاہ نے کہا کہ صوبائی ہیڈ کوارٹر ہسپتال گلگت اور شہید سیف الرحمن ہسپتال گلگت میں ویکسین موجود ہے جہاں پر متاثرہ افراد کی مفت ویکسینیشن کی جاتی ہے۔کسی بھی نوع کی صورتحال میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ادارے اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے لگتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں سرکاری محکموں میں کام نہ کرنے کی روش بہت پرانی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سرکاری نوکری صرف سرکار کے پیسوں پر عیاشی کرنے کا نام ہے۔کتے کا کاٹا اسلیے خطرناک ہوتا ہے کہ کتے کے کاٹنے کے بعد اس کے لعاب میں موجود ریبیز وائرس انسان کے لئے جان لیوا ہوسکتا ہے، اس لئے سگ گزیدگی یعنی کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش آنے کے بعد اینٹی ریبیز ویکسین لگانا ضروری ہوتا ہے۔ہمارے پورے جسم میں نروز کا جال پھیلا ہوا ہے، جو کہ ہمارے جسم اور دماغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے اور ریبیز کو دماغ تک جانے کے لیے ان نروز کا راستہ لینا پڑتا ہے۔کتے ایک وائرس ریبیز کی وجہ سے پاگل ہوتے ہیں۔ جب ریبیز کا وائرس کتے پر حملہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں کتا پاگل ہو جاتا ہے اورکتے کے لعاب میں بھی ریبیز وائرس موجودرہتا ہے، جب یہی پاگل کتا کسی انسان کو کاٹتا ہے تو وہ اپنے لعاب کے ذریعے متاثرہ شخص کے خون میں اپنے جراثیم ان میں منتقل کردیتا ہے۔یہ وائرس جب انسانی وجود میں عروج پر پہنچ جاتے ہے تو پھر اس کا علاج ناممکن ہوجاتا ہے اور انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ ریبیز وائرس نروس سسٹم کے ذریعے انسانی دماغ پر حملہ اور ہوتا ہے۔پاگل کتے کے کاٹنے کے بعد انسان میں جب یہ وائرس منتقل ہوتا ہے تو اس وائرس کے نتیجے میں انسان میں کچھ علامات پائی جاتی ہیں جیسا کہ پانی سے ڈرنا۔غصہ ہونا ،کنفیوز ہونا، دہشت ، رویے میں تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔کتا اگر کسی حلال جانور کو کاٹ لے اور جانور پاگل ہو جائے تو اس کو ذبح کرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے سے انسان پاگل کیوں نہیں ہوتا؟ اس کے بارے میں میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ اگر ہم ریبیز سے متاثرہ جانور کا گوشت کا استعمال کریں تو ریبیز کا وائرس تقریبا پچاس ڈگری سینٹی گریڈ پر ختم ہوجاتا ہے۔اس لیے کھانے کو اچھے سے پکایا جائے تو ریبیز وائرس ختم ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد ریبیز کو معدے کا تیزاب بھی ختم کرتا ہے اور نظام انہضام کے اینزیمز بھی اور پھر نرو میں داخل ہونے کا چانس بھی نہیں رہتا اور اس بات کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے کہ گوشت کھانے سے ریبیز ہوگا مگر پھر بھی احتیاط ضرور کرنی چاہیے۔ریبیز کا وائرس دماغ اور حرام مغز میں جاکر وہاں جلن پیدا کرتا اور اپنی تعداد بڑھتا ہے جس سے مختلف قسم کے مسائل سامنے آتے ہیں جیسے کہ فالج وغیرہ جو کہ ریبیز کی علامات بھی ہیں۔ ریبیز کو دماغ تک جانے کے لیے ان نروز کا راستہ لینا پڑتا ہے یعنی کہ ریبیز کا وائرس ان نروز کے اندر سے دماغ اور حرام مغز تک جاتا ہے یعنی کہ جب ایک جانور یا انسان کے جسم میں ریبیز کا وائرس داخل ہوگیا اور وہ وہاں پر اپنی تعداد بھی بڑھانے لگ گیا مگر تب تک ریبیز کا اثر یا علامات نہیں ہونگی جب تکہ یہ ریبیز کسی نروز میں داخل ہوکر دماغ تک نہیں پہنچ جاتا۔ اس کام کے لیے ریبیز کا وائرس کسی موٹر نروز جو دماغ کا سگنل جسم تک لے کے آتی ہے میں داخل ہوتا ہے۔گرمیوں کے موسم میں عموما کتے کے کاٹنے کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں، کتے کے کاٹنے سے ریبیز نامی وائرس انسان کے جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس صرف کتوں میں نہیں بلکہ گدھے، بلی، لومڑی اور دیگر جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ گرمیوں میں یہ واقعات زیادہ ہو جاتے ہیں اور ایسے واقعات کو کم کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کتوں اور دیگر جانوروں کو ویکسین لگانی چاہیے تاکہ ایسے واقعات کم ہو سکیں۔ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو سب سے پہلے پندرہ منٹ کے اندر اندر زخم کو پایوڈین یا صابن کی مدد سے صاف کرنا چاہیے۔  ہمارے ہاں زخم پر نمک چھڑکا جاتا ہے جو زخم کو مزید خراب کر دیتا ہے کیونکہ وائرس زخم کے مزید اندر چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے روایتی طریقوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ متاثرہ شخص کو بارہ گھنٹے سے ایک دن کے اندر ہسپتال پہنچا دیں اور اینٹی ریبیز کی ویکسین لگائیں ۔ اگر وائرس کے پھیلنے کے اثرات مریض میں نمایاں ہو گئے ہیں تو بدقسمتی سے ایسے مریض کا بچنا پھر مشکل ہو جاتا ہے اور اسے پھر اینٹی ریبیز ویکسین لگانے سے بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ امریکہ کے کلیولینڈ نامی مرکز صحت کے مطابق کتے کے کاٹنے کے پہلے آٹھ گھنٹوں میں مریض کو ہسپتال پہنچانا چاہیے اور اگر متاثرہ شخص ذیابیطس کا مریض ہے، تو انفیکشن کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے، لہذا ایسی صورت میں جتنا جلدی ہو سکے مریض کو ہسپتال پہنچانا چاہیے۔ اگر بروقت متاثرہ شخص کو ہسپتال پہنچایا جائے تو اینٹی ریبیز ویکسین لگانے سے متاثرہ شخص نارمل ہو جائے گا، لیکن زخم کو صاف کرنا نہایت اہم ہے اور ہسپتال میں بھی دوبارہ اس زخم کو صاف کرنا چاہیے۔اگر وقت زیادہ گزر گیا ہے اور مریض میں علامات شروع ہو گئی ہوں تو اس حالت میں پھر مریض کو کسی وارڈ میں رکھا جاتا ہے۔ یہ وائرس ایک سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتا، تاہم بہتر یہی ہے کہ مریض کو ہاتھ لگانے سے پہلے دستانے پہنے جائیں۔امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق کتے یا کسی دوسرے جانور کے کاٹنے کے بعد ریبیز وائرس شریانوں کے ذریعے ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کو منتقل ہوتا ہے، جس کے بعد علامات شروع ہو جاتی ہیں اور دماغ تک وائرس پہنچنے میں دو، تین سے بارہ ہفتے لگتے ہیں۔ ابتدائی علامات دو سے تین مہینوں تک بھی شروع ہو سکتی ہیں اور علامات کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق اس بات سے ہے کہ کتے نے انسانی جسم کے کون سے حصے پر کاٹا ہے اور یہ حصہ دماغ سے کتنا دور ہے، کیونکہ جتنا دور حصہ ہو، اتنا ہی وائرس دماغ تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔علامات میں زکام، کمزوری، بے چینی، بخار اور سر درد شامل ہیں۔ اس کے بعد جب وائرس دماغ تک پہنچ جائے تو خوف، دماغی کمزوری، کنفیوژن، ابنارمل عادات، ہالوسینیشن ایسی چیزوں کو دیکھنا اور یا آوازوں کو سننا جو حقیقت میں موجود نہ ہوںاور پانی سے ڈرنے ہائیڈروفوبیا کی علامات شامل ہیں۔دماغ میں ریبیز وائرس پہنچنے کے بعد یہ وائرس انسان کے منہ میں تھوک میں شامل ہو جاتا ہے اور جب ایسا مریض پانی پیتا ہے، تو پانی کی وجہ سے اس کے گلے میں شدید قسم کا درد محسوس ہوتا ہے اور اس کے لیے پانی پینا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب یہ علامات شروع ہو جاتی ہیں تو اس کے بعد مریض کا بچنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں اب تک ریبیز وائرس کے بیس سے بھی کم واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں متاثرہ اشخاص صحت یاب ہوئے ہیں۔ اگر کتے، بلی اور ریبیز وائرس والے جانوروں کو ویکسین لگائی جائے تو ایسے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے اور یہ ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کی ہے کہ وہ جانوروں کی ویکسنیشن کا بندوبست کرے۔کچھ لوگوں کو بائولے پن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جیسے کہ وہ لوگ جو ممکنہ طور پر متاثرہ جانوروں کے ساتھ کام کرتے ہیں،ان کو بائولے پن سے بچائو میں مدد کے لیے ویکسین لگوانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگر آپ کو بائولے پن کے وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہو تو:آپ کو بائولے پن کی ویکسین کی دوخوراکیں سات دنوں پر ملنی چاہئیں۔کچھ عرصہ قبل کراچی میں آوارہ کتوں کی صورتحال بہت شدید تھی۔کراچی کے مختلف علاقوں میں آوارہ کتوں نے شہریوں کو پریشان کر رکھا تھا ، کتے رہائشی بالکونی میں گھومنے سے شہری خوف کا شکار ہوگئے تھے بالکونیوں میں آوارہ کتوں کی موجودگی سے والدین بچوں کو گھروں میں رکھنے پر مجبور ہوگئے۔آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کا منصوبہ بین الاقوامی طور پر مستند مانا جاتا ہے۔ بائولا پن سے پاک پنجاب کیلئے حکومت پنجاب نے سنجیدہ اقدامات اٹھائے تھے۔اس منصوبہ کے آغاز میں حکومت پنجاب نے 74 ملین روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی۔ گلگت بلتستان میں حکومت کو چاہیے کہ وہ کتوں کو مارنے کی بجائے انہیں ویکسین لگانے کا انتظام کرے کیونکہ مارنا واحد حل نہیں ہے یہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔