نوجوان نسل اور منفی پروپیگنڈا

گلگت میں شاعر و ادیب، سیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ظفر وقار تاج کے دو شعری مجموعوں کی تقریب رونمائی سے خطاب میں شرکاءکا کہنا تھا کہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں انہیں جدید چیلنجز سے نمٹنے کےلئے تیار کرنا ہوگا،نوجوان بھی منفی پروپیگنڈے سے دور رہیں اور مثبت سرگرمیوں پر توجہ دیں ،دشمن کی کوشش ہے کہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں منفی پروپیگنڈے کے ذریعے ایسے جذبات پیدا کئے جائیں جن سے ملکی استحکام کو ٹھیس پہنچائی جاسکے۔ تقریب سے خطاب میں میجر جنرل احسان محمود نے کہا گلگت بلتستان کے نوجوان ہماراآج، کل اور پرسوں ہیں۔ یہی ہمارا مستقبل ہیں۔کسی بھی زبان کی ترویج کے لیے اس زبان کے ادیبوں اور استادوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ میجر جنرل احسان محمود نے کہا کہ شینا زبان کی ترویج کا سہرا جن کے سر ہے، ان میں ظفر وقار تاج سر فہرست ہیں۔ ےہ درست ہے کہ ہمارا دشمن منفی پروپےگنڈے کے ذرےعے ہمارے نوجوانوں کے اذہان کو متاثر کر رہا ہے‘نوجوان نسل کےونکہ پختگی کی حامل نہےں ہوتی‘ اس لےے ان کے ناپختہ اذہان صورتحال کی نزاکت کو سمجھے بغےر پروپےگنڈے کا شکار ہو جاتے ہےں اور تحقےق کرنے کی زحمت گوارا نہےں کرتے۔ہم جانتے ہےں کہ کسی بھی قوم کامستقبل اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ یہ نوجوان قوم کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،دنیا میں برپا ہونے والے ہرانقلاب اور بڑی تبدیلی کے پیچھے نوجوان نظرآئیں گے۔ہمارے باصلاحیت نوجوان نہ صرف وطن عزیز بلکہ دنیا کی قیادت کرسکتے ہیں ۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان آبادی کے اعتبارسے دنیا کاپانچواں بڑا اورجمہوری نظام کے حوالے سے چوتھابڑا جمہوری ملک ہے،جہاں کروڑوں باصلاحیت نوجوان ہیں۔پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی بوجوہ بہت سے سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی مسائل کے حوالے سے گہری کھائی میں جا گرا تھا۔ اب یہ مسائل عوام کے لیے چیلنج کا روپ دھارچکے ہیں۔ کچھ عناصر نے ان مسائل کو مزید اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ ملک کی خوش حالی کو برباد کرنے والے یہ لوگ دیمک زدہ نظام کے ڈھانچے سے کچھ اس طرح چمٹے ہوئے ہیں کہ ان عفریتوں سے انقلاب کے بغیر چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔ کمزور معاشی حالات، خراب تعلیم، غربت، روزگار اور ترقی کے کم ہوتے مواقع، منفی مذہبی اور سیاسی اثر و رسوخ، امن و امان کی خراب صورتِ حال اور ناانصافیوں نے نوجوان نسل کو بنیاد پرستی، انتہا پسندی، جرائم، جہالت اور نفرت کی طرف ایسا مائل کردیا ہے کہ جو طبقہ عوام کی امنگوں کا ترجمان بن سکتا تھا، وہ خود بس سمت ہوتا چلا جارہا ہے۔پاکستان کے قیام کے بعد نوجوانوں کو یہاں کے نظام نے خصوصی طور پر اپنا ہدف بنایا اور انہیں نہ صرف سیاسی اور سماجی ترقی کے شعور سے محروم رکھا گیا ہے، انہیں مذہبی عسکریت پسندوں کی جھولی میں ڈال دیا گےا، جنہوں نے ان کے سماجی، معاشی، شہری، سیاسی اور ثقافتی حقوق اور شناخت کو پامال کرکے رکھ دیا۔ہمارے نوجوان کا سیاسی شعور بہت اہمیت کا حامل ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ خراب سیاسی نظام کے نتیجے میں ہر روز ہزاروں لوگ اپنی جان اور ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ نوجوانوں کو آگاہ رہناچاہیے کہ آج ماحول میں کیا ہو رہا ہے؟ کیوں کہ اگر آپ اپنی ریاست میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے خود کو اپ ڈیٹ نہیں رکھیں گے کہ اس نظام میں کون سے نئے قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائی گئی ہیں اور اس نظام کی خرابی کی حقیقی نوعیت کیا ہے؟ تو آپ کبھی بھی اپنی سیاسی جد وجہد کی صحیح سمت کا انتخاب نہیں کرسکیں گے۔ نوجوانوں کو اندھا دھند سیاسی تقلید سے بچنا چاہیے۔ اسے اپنے شعور کو صیقل کرنا چاہیے اور سیاسی جد وجہد کا درست فیصلہ کرنے کے لیے معاشرے میں موجود تمام بیانیوں اور نظریات کے بارے میں درست معلومات بہم پہنچانی چاہئیں۔پاکستان چوبےس کروڑ لوگوں کا ملک ہے جس کاپےنتےس فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کا مستقبل روشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پربنا لیکن ہمارے نوجوان اس سے دور ہورہے ہیں۔ہم خواہ مخواہ مغرب سے مرعوب ہیں جبکہ ہمارا اپنا کلچر اورروایات بہت مضبوط اورخوبصورت ہیں جن پرہمیں فخرکرناچاہیے۔سوشل میڈیا پر تحقیق کے بغےر خبر آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ عام سی بات کو کئی گنا بڑھا چڑھا کرپیش کرنا،حقائق کومسخ کرنا اورمختلف افراد کی جانب سے اپنے ذاتی خیالات اورخواہشات کو خفیہ رپورٹس قراردینا عام سی بات ہے۔ اتنا جھوٹ کہ انسان چکرا کررہ جاتاہے۔سوشل میڈیا پرجھوٹ اس یقین کے ساتھ بولاجاتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولوکہ سچ لگنے لگے۔ مختلف گروپوں کی جانب سے ٹرینڈز بنانا، ویڈیوزاورمیمز کے ذریعے پروپیگنڈا عام سی بات ہے۔ سوشل میڈیا کی اس مادر پدر آزادی کی وجہ سے اچھے بھلے انسان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتاہے کہ کسی بھی معاملے کے پیچھے سچائی کیا ہے۔ہم جانتے ہےں کہ پاکستان کامستقبل نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے،ہمیں اپنی نوجوان نسل پراعتماد اورفخر ہے۔یہ یقین بھی ہے کہ ہمارے نوجوان پاکستان کوان بلندیوں تک لے جائیں گے جن کاخواب آزادی کے وقت دیکھا تھا۔ہمارے نوجوان زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کررہے ہیں۔حکومت اوربڑے اداروں کی رہنمائی سے قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔یہ نوجوان اپنی صلاحیتوں سے جہاں اربوں ڈالر کازرمبادلہ پاکستان لاسکتے ہیں وہیں پاکستان سے قرضوں کابوجھ اتارکرملک کومعاشی طورپراپنے پیروں پرکھڑا کرسکتے ہیں۔ نوجوان کئی طرح سے ملک کی ترقی میں اپناکردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کرکے ملک کی خدمت کرسکتے ہیں ،اپنابزنس کرسکتے ہیں۔یہ نوجوانوں پرمنحصر ہے کہ وہ کون ساراستہ پسند کرتے ہیں ۔باہنرنوجوانوں کاملازمت کرنا ،اپناکاروبارشرو ع کرکے دوسرے نوجوانوں کونوکریاں دینا،ٹیکس ادا کرنااورایکسپورٹ بڑھانا،یہ ملک کی ترقی ہی ہے۔ اگرآپ آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں تو دنیا کواس کی ضرورت ہے۔ آپ ڈاکٹر،انجینئر،زرعی یااقتصادی ماہر یا کوئی بھی ہنر سیکھ کر اپناکردار ادا کرسکتے ہیں۔ نوجوانوں کے اندر زیادہ پوٹینشل اورنئے خیالات ہوتے ہیں۔ وہ مسائل کے حل اوردنیا کوایک نئے اوراپنے زاویے سے دیکھتے ہیں اسی لیے دنیا آگے جارہی ہے ،ترقی کررہی ہے۔ہمارے نوجوان ماضی کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اورباصلاحیت ہیں۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس مصنوعی ذہانت مستقبل کے لیے ایک اوربڑا چیلنج ہے۔ہمارے نوجوانوں کواس پربھی خصوصی طورپرتوجہ دینی چاہیے۔ بہت سے پاکستانی نوجوان مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں میں کام کررہے ہیں،تاہم یہ تناسب ابھی بہت کم ہے ۔ ہمارے نوجوانوں کواس شعبے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا ہوگا۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس جیسی شخصیت نے بھی نوجوانوں کولیکچر دیتے ہوئے اس خطرے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس مستقبل میں انسانوں پرحملہ کرسکتی ہے،یہ انسانیت کے لیے خطرناک ہے،مصنوعی ذہانت کے روبوٹ یا مصنوعی انسانوں کے ذریعے ایک طرف ہسپتالوں میں پیچیدہ آپریشن کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف آرٹیفشل انٹیلی جنس کوفوجی مقاصد کے لیے دوسرے ممالک کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔اگر مصنوعی ذہانت کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ تعلیم، صحتِ عامہ، کاروبار اور طرز زندگی کو بہتر کرسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدم مساوات اور غربت کو بھی کم کر سکتی ہے۔ظاہر ہے سوشل میڈیا کی طرح مصنوعی ذہانت کے بھی منفی اورمثبت دونوں پہلو ہیں۔ افسوسناک امر ےہ ہے کہ ہمارے نوجوان ڈاکٹرز،انجینئرز ،آئی ٹی ماہرین تیزی سے بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں۔ کئی ممالک نے اپنے امیگریشن کے قوانین نرم کردیے ہیں تاکہ دنیا بھرسے باصلاحیت نوجوانوں کواکٹھا کرکے اپنے ملک کوترقی دیں ۔پاکستان سے بھی ہرسال لاکھوں نوجوان بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں۔اگرنوجوانوں سے پوچھیں تووہ کہتے ہیں کہ یہاں مواقع نہیں ہیں، نوکری نہیں ملتی ہمےں اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کرنا ہوں گے تاکہ نوجوان کسی دوسرے ملک کے بجائے پاکستان میں رہ کر کام کریں اور برین ڈرین کا یہ سلسلہ رکے۔ہمارے نوجوان بڑی تعداد میں گھر بیٹھے امریکی اوریورپی کمپنیوں کے لیے آن لائن کام کررہے ہیں۔اگرحکومتی سطح پر انہیں مزید سہولتیں اورترغیبات فراہم کی جائیں توکوئی بھی اپناگھرچھوڑ کربیرون ملک جانے کوترجیح نہیں دے گا۔ نوجوانوں کی سیرو تفریح کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے غربت، جہالت، بے روز گاری اور امن و امان کی ابتر صورتِ حال کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کی عدمِ دستیابی نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ اس لےے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام بالا ملک کے اس سرمائے کی طرف توجہ دےں اور نوجوانوں کی صلاحےتوں کو بروئے کار لانے کےلئے ترجےحی بنےادوں اقدامات کرےں۔