سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ہدایت

الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے چارمختلف سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشنز منعقد کروانے کی ہدایت کی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز خان کے حکم پر الیکشن کمشنر عابد رضا نے چار سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے نام لکھے گئے خطوط جاری کئے ہیں ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی صدر آغا علی رضوی ‘پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ ‘پاکستان مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمن اور پاکستان تحریک انصاف کے سنٹرل انفارمیشن سیکرٹری رﺅف حسین کے نام لکھے گئے الگ الگ خطوط میں الیکشن کمیشن کے خط نمبر کی یاد دہانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ الیکشن رولز 2017 کے رول 158 کے تحت سیاسی جماعت اپنے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی پابند ہے۔ جو کہ پہلے سے الاٹ شدہ انتخابی نشان کو برقرار رکھنے کے لیے قانون کے تحت ایک لازمی شرط ہے۔ مقررہ قانونی دفعات کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کی جانب سے سیاسی جماعت کو شوکاز نوٹس جاری کیے جائیں گے اور اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا جائے گا جس سے وہ پارٹی گلگت میں آئندہ انتخابات کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل ہو گی۔ متعدد خطوط کے باوجود مطلوبہ معلومات کا ابھی تک انتظار ہے۔ لہذا سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ سیاسی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات کے ساتھ متعلقہ دستاویزات اور گلگت بلتستان میں دفتری رکاوٹوں کی تفصیلات برائے مہربانی سیکشن 208 کی تعمیل کرتے ہوئے مختصر وقت کے اندر الیکشن کمیشن کو بھیجی جائیں۔ انٹرا پارٹی انتخابات سےاسی جماعتوں کےلئے انتہائی ضروری ہےں لےکن اکثر جماعتےں اس کا خےال نہےں رکھتےں اور بعد ازاں انتقامی کارروائی کا شوشہ چھوڑتی ہےں۔ہم گزشتہ انتخابات میں تحرےک انصاف کی جانب سے انٹرا پارٹی الےکش نہ کرانے کا نتےجہ دےکھ چکے ہےں۔بائےس دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا اور اس فیصلے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہو گئی۔اس فیصلے کے ردِعمل میں تحریکِ انصاف کے رہنما بیرسٹرگوہر علی نے اس کو پی ٹی آئی کے خلاف سازش قراردیا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ےوں تحرےک انصاف الیکشن میں انتخابی نشان سے محروم ہو گئی اور اس کے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے رہے ۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد چند حلقوں سے یہ بحث بھی سننے کو ملی کہ اگر پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی سے بھی ماضی میں تلوار کا نشان چھینا جا چکا ہے؟لیکن اس ساری صورتحال میں اہم ترین بات یہی ہے کہ کیا اب پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں رہی ۔پیپلز پارٹی کا اولین انتخابی نشان تلوار تھا لیکن بے نظیر بھٹو نے تمام الیکشن تیر کے انتخابی نشان پر لڑے تھے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات بھی پیپلزپارٹی نے تیر کے نشان پر لڑے ۔ پیپلز پارٹی کو تلوار کے نشان سے محروم کر کے جماعت کی سیاسی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب 1988 میں الیکشن ہوئے تو پیپلزپارٹی نے تیر کا نشان حاصل کیا کیونکہ اس وقت بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا نشان نہیں تھا لیکن بعد میں پیپلزپارٹی کے پاس تیر اور تلوار دونوں انتخابی نشان آ گئے۔ پیپلز پارٹی نے جب1988 کا الیکشن لڑا تو دستیاب انتخابی نشانوں میں تیر کا نشان موجود تھا، جو اس کو الاٹ ہوا اور تب سے یہ جماعت تیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ بہت بعد میں پھر اِس جماعت کو تلوار کا نشان بھی واپس مل گیا۔2017 میں جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو نا اہل کیا تو ان کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا کہ سزا یافتہ شخص پارٹی چیف نہیں ہو سکتا۔یوں نوازشریف پارٹی سربراہ نہیں رہے تھے اور نہ ان کے 2018 کے سینیٹ الیکشن میں جاری کردہ ٹکٹ رکھنے والے امیدوار آزاد تصور ہوئے تھے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کی شق 2002 میں آئی۔اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ پارٹی اکاﺅنٹس دیں اور الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹریشن کروائیں۔ یہ1962 کا قانون تھا۔ اس کو بے نظیر بھٹو نے چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے بے نظیر کے حق میں فیصلہ دیا۔2002 کا آرڈر اس بارے میں وضاحت کرتا ہے کہ آپ کیا کریں گے تو آپ کو پارٹی نشان ملے گا یعنی آپ کی پارٹی کا آئین ہو، نام ہو۔2017 کے ایکٹ میں اس کے لیے ممبر شپ کی شرط اور فیس بھی رکھ دی گئی۔ لہذا تاریخ میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا کہ کسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کیا گیا ہو۔ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن مسترد کر دینے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں کہا تھاکہ اگر پی ٹی آئی بےس روز میں انتخابات نہیں کرواتی تو وہ اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہو جائے گی اور ان کے امیدوار عام انتخابات میں اس نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔یہ تحریری فیصلہ الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ خان نے تحریر کیا تھا جس میں کہا گیا کہ جون 2022 میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق جو رپورٹ کمیشن میں جمع کروائی گئی تھی وہ تنازعات اور شکوک و شہبات سے بھرپور تھی۔ پی ٹی آئی کے پارٹی آئین2017 کے مطابق تمام پارٹی عہدیداران چار سال کے لیے منتخب ہوئے جن کی مدت 13 جون 2021 کو ختم ہو گئی تھی۔فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے چوبےس مئی 2021 کو انٹرا پارٹی انتخابات کی یاد دہانی کے لیے نوٹس بھیجا تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف صاف و شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کسی صورت قبول نہیں کیے جا سکتے۔ پاکستان تحریک انصاف مقررہ وقت میں ایک سال کی توسیع کے باوجود شفاف انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔تےرہ جون 2021 سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن التوا کا شکار تھے۔آٹھ جون 2022 کو پی ٹی آئی نے پارٹی آئین 2019 میں ترمیم کی اور دس جون 2022 کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے بعد منتخب ممبران کی لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے بعد 2022 میں ہی پی ٹی آئی کے پارٹی آئین میں ایک بار پھر ترمیم کی گئی اور پی ٹی آئی کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جمال انصاری نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ ہم نے آئین میں تبدیلی کی ہے۔تاہم بعد میں پارٹی کے وکیل بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن میں موقف اپنایا کہ پارٹی آئین میں ترامیم واپس لی جا چکی ہیں اور ایک نیا سرٹیفیکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروایا گیا۔پی ٹی آئی کے آئین میں ترمیم کے بعد اگر عہدیداروں کا انتخاب نیشنل کونسل نے کرنا تھا تو یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ کونسل کے ارکان کی تعداد دو سو سے تین سو کے درمیان ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی عہدے کے لیے کسی ایک امیدوار کے خلاف کوئی دوسرا امیدوار نہ ہو تو اس کو کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اعلی عدالتوں میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے جس کے بعد اس کے بھی امکانات ہوتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دے۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے ترازو کے انتخابی نشان کے لیے درخواستیں دائر کرائی تھےں۔تحریک انصاف نے اپنی پارٹی کے نام کی مناسبت سے ترازو کا مطالبہ کیا جبکہ جماعت اسلامی کا موقف یہ تھا کہ وہ 1970 کے انتخابات میں ترازو کے نشان پر حصہ لے چکی ہے۔الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کا موقف تسلیم کر لیا اور تحریک انصاف نے بلا الاٹ کرایا۔ جب تحریکِ انصاف بنی تو اس کے بعد 1997 کے الیکشن میں اس جماعت کا انتخابی نشان چراغ تھا۔ بعد میں بلے کا نشان، کرکٹ ورلڈ کپ کے ساتھ جوڑ کر لے لیا گیا کیونکہ یہ نشان دستیاب تھا۔الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر منظور شدہ انتخابی نشانات کی فہرست موجود ہے اور اسی میں سے سیاسی جماعتیں نشان لیتی ہیں اور جو نشان بچ جاتے ہیں وہ آزاد امیدوار لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی الیکشن کمیشن میں درج سیاسی جماعت کے دائرہ سے خارج ہو چکی ہے۔فیصلے کے بعد پی ٹی آئی ایک ایسی پارٹی ہے، جس کو الیکشن کمیشن پارٹی تصور نہیں کرتا۔ ایکٹ میں جو شرائط ہیں، اس کے مطابق پارٹی کا آئین ہو، نام ہو، مخصوص تعداد میں ممبر ہوں، فیس جمع کروائی ہو اور پارٹی کے انتخابات کروائے ہوں۔ اس سب کے بعد ہی آپ کو مجموعی طورپر انتخابی نشان الاٹ ہوتا ہے۔انتخابی نشان کے اپنے فائدے ہیں۔ ایک فائدہ یہ کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے نام دے سکتے ہیں۔ اگر انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑا جائے گا تو مخصوص نشستوں کے لیے نام نہیں دیے جا سکتے۔سےاسی جماعتوں کے لےے نشان بہت ضروری ہوتے ہےں کےونکہ ےہی ان کی پہچان اور اسی بل بوتے پر عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرتی ہے ۔اس لےے گلگت بلتستان میں بھی ےاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الےکشن کروانے کا اہتمام کرنا چاہےے تاکہ وہ پی ٹی آئی کی سی صورتحال سے دوچار نہ ہوں۔