گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں مختلف محکموں کی نگرانی اور کارکردگی کو جانچنے کے لئے پرفارمنس مینجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ کے تحت ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ یونٹس اور انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ قائم کر دیا گیا ہے۔ محکمہ سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کیبنٹ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق محکمہ تعلیم ،صحت سمیت دیگر محکموں اور لائن ڈیپارٹمنٹس کی ترقیاتی سکیموں کی موثر نگرانی سمیت کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے پی ایم آر یو پالیسی اور سفارشات فراہم کرے گا۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ یونٹس اور انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ بذریعہ پرفارمنس مینجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ گلگت بلتستان چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے دفتر کو براہ راست رپورٹ کریں گے۔ واضح رہے کہ پرفارمنس مینجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ کیلئے چیف سیکرٹری کے فورم سے 35کروڑ روپے منظور بھی ہوئے ہیں ، اس نئے انتظامی یونٹ کے حوالے سے صدر پاکستان پیپلزپارٹی و رکن اسمبلی امجد ایڈووکیٹ نے مالی سال کے بجٹ میں 35کروڑ روپے مختص کیے جانے کے خلاف بجٹ اجلاس کے دوران شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے بجٹ کا ضیاع قرار دے کر مسترد کیا تھا تاہم سولہ ستمبر کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے نئے یونٹ کا قیام عمل میں لا کر ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔سرکاری محکموں اور سرکاری اہلکاروں کی ناقص کارکردگی پر دو رائے نہیں ہیں'جب تک یہاں اصلاحات نہیں کی جاتیں صورتحال میں بہتری ممکن نہیں ہے۔ہم جانتے ہیںکہ جب بھی کوئی شہری اپنے جائز مسئلے کے حل کیلئے کسی بھی سرکاری دفتر میں جاتا ہے تو سرکاری ملازمین اپنے ہی لوگوں سے وہ سلوک کرتے ہیں، جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا ہر عزت دار بندہ سرکاری دفتر میں جانے سے اجتناب کرتا ہے، کسی ایک ادارے یا سرکاری دفتر میں عوام کو معمولی عزت نہیں دی جاتی۔ کوئی یہ بھی نہیں سوچتا کہ ایک سائل یا بے بس فرد کو ذلیل کرنا اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا کتنا بڑا گناہ اور غیر اخلاقی بات ہے۔ حتی کہ نائب قاصد اور گارڈ تک ہر عزت دار شہری کو بے عزت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جس سے اس وقت وطن عزیز دوچار ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو میں تنزلی کا شکار ہیں، ملکی ترقی، نظام تعلیم، سائنسی ترقی اور کھیل سمیت ہم ہر جگہ نیچے سے نیچے جا رہے ہیں۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ عوام کی تکلیف یا مشکل کا باعث بننے والے کسی بھی سرکاری ملازم کو غلط رویے کی وجہ سے نوکری سے نکالا گیا ہو یا اسے ایسی سزا دی گئی ہو کہ دوسروںکو عبرت حاصل ہو،نااہل، نکمے اور سازشی سرکاری ملازمین نے ریاست کو جس نہج پر پہنچایا ہے سب کے سامنے ہے مگر ان افراد نے عوام کو بھی ریاست سے ہی بد دل کر دیا ہے۔دراصل سیا ستدانوں نے میرٹ کی پروا کی نہ اہلیت کی، نااہل اور نکمے ترین افراد کو سرکاری محکموں میں کھپا دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اپنا ووٹ بنک بنانے اور بڑھانے کیلئے بے روز گار نوجوانوں کو اپنے اداروںمیں نوکریاں نہیں دیں بلکہ انہیں سرکاری محکموں میں نوکریاں دے کر قوم کو ذلیل کروانے کیلئے ان پر مسلط کردیا۔شائد دنیا کے کسی اور ملک میں شہر یوں کی اتنی تذلیل نہ ہوتی ہوگی، جس قدرہمارے وطن عزیز میں ہوتی ہے۔ بے بس شہریوں کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہے لمحے خطا کرتے ہیں اور صدیاں سزا پاتی ہیں مگر یہ سوچ ان ملکوں میں ہوتی ہے کہ جہاں صرف سیاستدان نہیں بلکہ راہنما بھی ہوتے ہیں اور یہاں تو کوئی بھی راہنما نہیں ہے۔ایسے واقعات وطن عزیز میں ہر جگہ اور ہر لمحہ رونما ہوتے رہتے ہیں، عوام کی بیزاری، بددلی اور لاتعلقی کے جذبات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے مگر کسی کے پاس یہ سب کچھ سوچنے یا سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہے، چند ہزار مفاد پرست ، لالچی اور بے ضمیر افراد نے پورے ملک کی عوام کو ایک خاص نہج تک پہنچا دیا ہے، اب حالات و واقعات وہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ واپسی کا راستہ بھی نظر نہیںآتا۔تمام سرکاری افسران اپنے آپ کو حاکم اعلی سمجھتے ہیں'دنیا کے تمام مہذب ممالک میں شہریوں کو عزت، سکون اور بہترین زندگی دینے کیلئے حکمت عملی طے کی جاتی ہے، سرکاری ملازمین کو سول سرونٹ سمجھا جاتا ہے مگر یہاںہر سرکاری ملازم حاکم اعلی اور فرعوں بنا ہوا ہے، سرکاری محکمے شہریوں کو سہولت دینے کیلئے بنائے جاتے ہیں مگر یہاں تمام محکمے اذیت دینے کیلئے قائم کئے گئے ہیں، دنیا کے تمام ممالک میں شہریوں کو ریاست سے بددل کرنے والے عناصر کو کسی معافی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں سرکاری افسران و اہلکار عوام کو انتہائی حقیر اور غلام سمجھتے ہیں۔کسی بھی ریاست کے اصل اسٹیک ہولڈرعوام ہوتے ہیں ان کے تحفظ ، آسائشوں اور پرسکون زندگی کیلئے تمام محکمے قائم کئے جاتے ہیں، عوام اس کے عوض ٹیکسوں کے ذریعے ان تمام سہولیات کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ عوام کی زندگی میں بہتری لانے اور انہیں مزید سہولتیں دینے کیلئے سرکاری، حکومتی مشینری کام کرتی ہے، ریاست چلانے کیلئے عوام میں سے بہتر افراد کو چنا جاتا ہے، عوام کے جذبات اور احساسات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ہر اس کام سے اجتناب کیا جاتا ہے کہ جس سے فرد واحد کی دل آزاری ہو یا اس میں ریاست سے بددلی کے جذبات پیدا ہوں ۔ ریاستیں مضبوط ہوتی ہیں افراد سے، سرکاری محکموں یا اداروں سے نہیں مگر سرکاری افسران کی گردن کا سریا مزید سخت ہوچکا ہے۔یہ نقطہ بھی نہایت اہم ہے کہ اگر ظلم و استحصال کی شکار قوم کی زندگی میں انقلاب آجائے اور وہ استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، نااہل سازشی، نالائق اور لالچی افراد سے ریاستی معاملات چھین کر خود اختیارات سنبھال کر بہتری لے آئے تو بعض اوقات ریاست اور عوام کے حق میں اچھا ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی قوم اس حد تک مایوس، بددل اور لا تعلق ہوجائے کہ وہ اپنی ہی بہتری کیلئے بھی نہ سوچیں تو یہ وہ مقام ِ فکر ہے کہ جہاں سب کو سوچنا پڑے گا کہ کیا قوم مردہ تو نہیں ہوگی احساس زیاں بھی تو ختم نہیں ہوگیا۔ جبر کے اس نظام نے کیا گل کھلائے ہیں؟ سب کو سوچنا پڑے گا مگر سب سے بڑی ذمہ داری، حکومت، عدلیہ، طاقتور اداروں اور اہل دانش طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ فلاحی ریاست بنانے کیلئے سب سے پہلے فرد کے جذبات، احساسات ، محسوسات ، سہولیات اور ہر قسم کے تحفظ کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ حکومت نے ہر فرد کی خوشیوں کا حساب دینا ہے، اپنے اختیارات کا بھی حساب دینا ہے ۔ جب سرکاری افسران و ملازمین عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا بازار گرم کرتے ہیں ، تو بوتا کوئی ہے اور کاٹتاکوئی اور ہے۔ بیدار مغز حکمران اس نقطے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ سرکاری عمال کو حدود میں رکھا جائے۔ ملکی اور ریاستی قوانین ہی ایسے بنائے جاتے ہیں کہ سرکاری افسران و ملازمین کو بے مہار ہونے کا موقع نہ ملے۔ہمارے ہاں ریاستی استحکام کبھی بھی نہیں رہا جس کی وجہ سے یہاں دیرپا عوام دوست پالیسوں کا مفاد مکمل طور پر نہیں ہو سکا۔ اب بیوروکریٹس بھی اپنی لا بنگ کرتے ہیں، ہر سرکاری محکمے میں گروپ بندیاں ہو چکی ہیں، چالاک اور ہوشیار قسم کے بیوروکریٹس ریاست کی بجائے سیاسی افراد کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، سرکاری ملازمین کی سیاسی وابستگی کسی بھی ریاست میں مناسب نہیں سمجھی جاتی۔ ہر حکومت بیوروکریسی میں مداخلت کرتی ہے، نااہل ترین بندوں کی تعیناتیوں کیلئے سفارش کرتی ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کاعذر سننا نہیں چاہتی، اگر کوئی بھی سفارشی اہلکار نااہلی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے متعلقہ افسران اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتے۔اگر حکومتیں اس بات کا اعلان کردیں کہ وہ سرکاری مشینری کو نہ ذاتی مفاد کیلئے استعمال کریں گی اور نہ ہی بیوروکریسی میں کسی قسم کی مداخلت کریں گی ، تمام افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی اے سی آر پوری دیانتداری کے ساتھ تیار کرے، تاکہ اہل اور قابل افسران کو اوپر آنے کا موقع ملے، دفاتر میں سائلین کے ساتھ برا سلوک کرنے والے افسران کو کسی بھی قسم کی اہم پوسٹنگ نہ دی جائے، سرکاری دفاتر میں بگاڑ بہت زیادہ پیدا ہو چکا ہے مگر ایک خاص حکمت عملی اور تدبیر سے آہستہ آہستہ یہ بگاڑ ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔سرکاری ملازمین کو یہ احساس دلانا اشد ضروری ہے کہ آپ کو عوام کی خدمت کیلئے سرکاری ملازمت پر رکھا گیا ہے ان پر حاکمیت کیلئے اور آپ کی خدمات کے عوض آپ کو عوام کے پیسے سے ہی تنخواہیں دی جا رہی ہیں، اگر کسی کوکوئی نجی ملازمت پر رکھتا ہے اور اس کا معاوضہ ادا کرتا ہے تو اس کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتا، اسی طرح سرکاری ملازمت کرنے والے افراد کا معاوضہ عوام اداکر رہی ہے مگر ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے؟گلگت بلتستان میں محکموں کی نگرانی کیلئے مانیٹرنگ یونٹس کا قیام ایک اچھا قدم ہے یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
