آج عالم اسلام سردار الانبیا'محسن انسانیت'رحمة اللعالمین'ساقی حوض کوثر'خاتم الانیبائۖ کی ولادت کا جشن نہایت ادب و احترام اور تزک و احتشام سے منا رہا ہے۔اللہ رب العزت نے انسانیت کی ہدایت کے لئے سوالاکھ پیغمبر دنیا میں بھیجے ،حضرت آدم علیہ السلام سے ابتدا فر مائی اور اس سلسلہ کا خاتمہ حضور نبی کریمۖ پر فر مایا ہے۔ آ پ کورب کائنات نے خاتم النبینۖ کے لقب سے نوازا ۔آپ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سفر معراج میں بیت المقدس میں تمام انبیا اور رسل نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی اس مناسبت سے آپ کو امام الانبیا کالقب ملا ۔ اللہ رب العزت نے اس مقام پر پہنچایا جہاں کوئی نہیں جاسکا بلکہ صدر المنتہی پر ملائکہ کے سردار حضرت جبرائیل بھی رک گئے لیکن رحمت دوعالم ۖ آگے عرش عظیم پر جا پہنچے ۔ سلسلہ نبوت کا آغاز حضرت آدم سے ہوا اور یہ سلسلہ چلتا رہا اکابرین فر ماتے ہیں بعض اوقات ایک وقت میں کئی انبیا کرام رب کائنات کا پیغام دینے کے لئے بھیجے گئے ہر آنے والے انبیا کرام اپنے بعد آنے والے پیغمبر وں اور رسولوں کی آمد کی خبر دیتے رہے لیکن جب باری آئی حضرت عیسی علیہ السلام کی تو قر آن مجید میں اللہ کریم سورت صف میں بیان فر ماتے ہیں کہ انہوں نے آکر بشارت سنائی کہ میرے بعد اب بہت پیغمبر یارسل نہیں آرہے ہیں بلکہ میرے بعد ایک رسول آرہے ہیں ان کا نام نامی اسم گرامی حضرت احمد ۖہو گا۔ حضور کے لاتعداد اسما ہیں ان میں دو نام زیادہ معروف ہیں ایک حضرت محمد دوسرا حضرت احمدۖ آپ تشریف لے آئے تو خود آپ کی زبان فیض تر جمان سے اعلان کروایا آپ فر مادیں اے انسانو میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہو ں۔ آپ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے رب کائنات نے فر مایا میرے محبوب کی عظمت اور شان یہ ہے کہ صرف نبی ہی نہیں بلکہ خاتم النبین ہیں یعنی آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا اسی پر رحمت دو عالمۖ نے فر مایا کہ یہ امت آخری امت اور میں اللہ کا آخری نبی ہوں اب نبوت کے دروازے ہمیشہ کے لیئے بند کر دیئے گئے ہیں ۔اللہ رب العزت نے حضور ۖ کو بے پناہ اوصاف حمیدہ سے اور عظمتوں سے نوازا ان میں ایک عظمت اور شان رحمت ہے آپ کے بارے میں اللہ قرآن میں فرماتے ہیں کہ آپ دونوں جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ رب العزت نے دونو ں جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا آپ نبی آخر الزمان ہیں آپ کے والد ماجد کا نام حضرت عبد اللہ ہے ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت آمنہ ہے، آمنہ کے لعل نے دنیا کو امن کا پیغام دیا یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی آمد سے قبل انسانیت جاں بلب تھی ، آپ کی بعثت کو رب کائنات نے انسانیت پر احسان قرار دیا انبیا کرام میں کسی بھی نبی کی بعثت کو احسان نہیں فرمایا آپ کی ذات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپۖ کو ہم نے بھیج کر تم پر احسان کیا ہے اللہ کریم نے زمینوں آسمانوں ساری مخلوق پر بے پناہ احسانات فرمائے سب کو وجود دیا زندگی روزی اور محبتیں دیں لیکن فر مایا ہم نے سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ حضرت محمد رسول اللہۖکو مبعوث فرمایا ۔آپ نے رب کائنات کا پیغام صفا پہاڑی پر کھڑے ہوکر دیا جس میں فرمایا کہ اللہ کو معبود اور مسجود حقیقی مانواور وہی سب کچھ کرنے والا ہے اور ساتھ ہی رسالت و نبوت کا اعلان فرمایا تو پیغام توحید دیا تو پھر کیا تھا کفر اکٹھا ہو گیا مخالفت پر سب کمر بستہ ہوگئے دین حق کے خلاف ہر سازش کی گئی آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ،پیغام توحید دیتے وقت چادر ڈال کر گلہ مبارک دبانے کی نعوذبااللہ کوشش کی گئی ،طائف میں تو پتھروں کی بارش کی گئی آپ کے جان نثاروں پر ظلم کی انتہاکردی گئی لیکن آپ نے پیغام حق مشن جاری رکھا ۔آپ کو رب نے رحمت دوعالم بنا کر بھیجایہی وجہ ہے کہ تمام تر ظلم کے باوجود اپنے بددعا نہیں فرمائی۔ ہر نبی امت پر محسن ہو تا ہے لیکن آپ کی ذات پوری دنیا کے لئے محسن اعظم ہے ،نبی کا امت پر محسن اور شفیق ہونا اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے تمام نبی اپنی امت پر مہربان اور شفیق تھے اس پر کوئی شک نہیں لیکن کامل رحمت اور کامل شفقت اللہ رب العزت نے جو نبی رحمتۖ میں جمع فرمائی اس کی نظیر کا ملنا محال اور ناممکن ہے۔جب نبی رحمت مکہ میں فاتح بن کر داخل ہو ئے تو آپ کے سامنے بڑ ے بڑے ظالم جابر،مغرورکھڑے تھے اس موقع پر جان نثاروں نے آواز بلند کی کہ آج تو انتقام کا دن ہے ،آج بدلہ لیا جائے گا ظلم کے جواب کا وقت آگیا ہے لیکن جب پیغمبر رحمت کو اطلاع ملی تو فرمایا آج تو رحمت کا دن ہے کیونکہ رحمت اللعالمینۖ آرہے ہیں۔ اس نازک موقع پر بھی نبی رحمت نے عام معافی کا اعلان فر مایا نبی رحمت باوجود فاتح اعظم ہو نے کے دنیا کے لئے ایسی نادر مثالیں پیش کر گئے جس کی نظیر کا ملنا محال ہے، ابو سفیان جو نبی رحمت کے قتل کے منصوبے بناتا تھا نئی نئی سازشیں تیار کر تا تھا مگر جب آپ کے سامنے لایا گیا تو نبی رحمت نے اس کے لئے بھی معافی کا اعلان فر ماتے ہو ئے کہا کہ جا ئو تم کو امن دیا گیا اور پھر فرمایا ابوسفیان کاگھر امن کا گھر بنایا جا رہا ہے۔رحمت دو عالم جب وادی طائف میں تشریف لے گئے تو آپ نے پیغام توحید دیا تو ظالموں نے آپ پر پتھر بر سانے شروع کر دیئے۔ فرشتے حاضر ہوئے عرض کر نے لگے یا رسول اللہۖ اگر آپ چاہیں تو دو نوں پہاڑوں کو ساتھ ملاکر ان کو ملیامیٹ کر دیں لیکن نبی رحمتۖ نے ارشاد فرمایاکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کس کو پتھر مار رہے ہیں میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی نسلوں سے آنے والے میرے مشن کے علمبردار ہوں گے اس نازک مو قع پر بھی آپ نے بد دعا کے بجائے ان کی ہدایت کی دعا فر مائی ۔انسان تو انسان آپ نے ارشاد فر مایا کہ اپنے جانوروں کی پیٹھ کو منبرنہ بنائو اور ان کو دانا پانی وقت پر دو اور زیا دہ بوجھ ان پر نہ لادو اور ان کو چراہ گاہوں میں آزاد چھوڑو تاکہ وہ اپنی مرضی سے کھا پی سکیں اسی طرح نبی رحمت نے چوپایوں کو باہم لڑانے اور انہیں نشانہ بنانے سے بھی منع فر مایاپھر خطبہ حج الوداع کے موقع پر انسانیت کے لئے عظم تر ین منشور پیش فرمایا یہ وہ خطبہ ہے جس میں رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے حقوق کو بیان کیا گیا۔ نبی رحمت نے جا ہلانہ طریق ختم کر کے بنی نوع انسان کو ایک پر وقار زندگی اپنانے کی تعلیم دی ۔لو گو ں کو خبر دار کیا کہ دور جاہلیت کا سارا ظالمانہ اور استحصا لی نظام میں نے اپنے قدموں تلے روندڈالا ہے۔آج اس معاشرے میں آپ کے پیغام رحمت کو عام کرنے کی ضرروت ہے ۔غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین ہوا، قبلہ ثقیف و ہوازن کے لوگ مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے۔ آپ کو اطلاع ملی تو بارہ ہزار کا لشکر ان کے مقابلہ میں لے کر نکلے، بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے مغلوب ہوسکتا ہے، مگر دشمن نے تیروں کی بارش شروع کی تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے، آنحضرت ۖاپنے چند صحابہ کے ساتھ جمے رہے، پھر مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا، دشمن کو شکست ہوئی، کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنے، تمام مال مویشی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، جو بھاگ نکلے تھے، وہ طائف جاکر قلعہ بند ہوگئے۔ آپ نے انیس دن تک طائف کا محاصرہ کیا، پھر آپ جعرانہ واپس ہوئے، جنگ حنین کے قیدی یہیں تھے، اتنے میں قبیلہ ہوازن مسلمان ہوکر حاضر خدمت ہوا، آپ نے ان کے قیدی واپس کردئیے۔ جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور راتوں رات عمرہ ادا کر کے مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔اس سال غزوہ تبوک ہوا، آپ کو رومیوں کی تیاری کی اطلاع ہوئی، آپ تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کی سرحد پر مقام تبوک پہنچ گئے، لیکن رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے، ائیلہ کے سردار اور دوسرے قبائل نے جزیہ پر صلح کرلی۔ اسی سال حضرت ابوبکر کو امیر حج بناکر بھیجا، یوم النحر میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا، نہ برہنہ طواف کرے گا۔ اسی سال مختلف علاقوں کے وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔ اس سال حضرت علی کی امارت میں ایک دستہ بنی مدلج کے مقابلہ میں بھیجا، ان کے بیس آدمی مارے گئے، باقی مسلمان ہوئے۔ اسی سال حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسی اشعری کو تعلیم و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ اس سال کا اہم ترین واقعہ آپ کا آخری حج ہے، جسے حجة الوداع کہا جاتا ہے۔ آپ نے عرفات اور منی کے خطبوں میں دین کے بنیادی اصولوں کی تعلیم فرمائی۔ بنیادی اصولوں کی تعلیم آپ کی زندگی حاکم وقت اور قاضی کے لیے نمونہ آپ کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اسوہ حسنہ ہے، کیوں کہ آپ ایک اسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔ آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے، کیوں کہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضا اور عدل و انصاف کے وہ اصول بیان فرمائے، جن سے انسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی۔
