
سکولوں کی سمارٹ سکولوں میں تبدیلی
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایجوکیشن سٹیک ہولڈرز کانفرنس کے انعقاد کا مقصد سکولوں اور کالجوں میں معیار تعلیم کو بڑھانے سمیت نتائج پہ مبنی نظام تعلیم کے فروغ تھا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ابرار احمد نے کہاکہ گلگت بلتستان کے چار سو سکولوں کو سمارٹ سکول بنانے جا رہے ہیں اور سکولوں کو خود مختار بناتے رہے ہیں تاکہ سکولوں کی کارکردگی مزید بہتر ہوسکے۔علم اخلاق اور اچھے اقدار سمیت احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے۔لہذا ہمیں ان اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ نظام تعلیم میں مزید بہتری آسکے۔ نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اپنے بساط کے مطابق جو ہوسکے کریں گے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائم مقام وائس چانسلر کے آئی یو پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق نے تعلیمی معیار کو بڑھانے اور نتائج پہ مبنی تعلیم کے لیے محکمہ تعلیم کی جانب سے کانفرنس کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ کانفرنس کو ثانوی اور اعلی ثانوی تعلیم میں معیار بڑھانے کے لیے معاون قرار دیا۔ جامعہ قراقرم محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کو خطے میں تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔سکولز کی سمارٹ سکولوں میں تبدیلی ایک اہم قدم ہے کچھ عرصہ قبل گوگل نے پاکستان میں پچاس کے قریب سمارٹ سکول قائم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اِن سکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کو آن لائن تعلیم کی خصوصی تربیت دی جانی تھی۔سمارٹ سکولوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان بہتر روابط قائم کرنے اور ان کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل ٹولز کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ سمارٹ سکول کے حوالے سے اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے خصوصی ورک شاپس کا انعقاد کیا جائے گا۔ گوگل فار ایجوکیشن ٹیم وزارت تعلیم کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر عمل درآمد کروائے گی۔اس منصوبے میں ایک پبلک گوگل ریفرنس سکول کا قیام، دو ہزار نوجوانوں کو گوگل کیریئر سرٹیفکیٹس کے ذریعے ملازمت کے لیے ہنر کی تربیت اور ہوسٹنگ پر ممکنہ تعاون فراہم کیا جائے گا۔ مذکورہ سکول میں طالبات کو آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے طریقوں سے روشناس کرایا جائے گا۔اساتذہ کو آن لائن طلبہ کے ساتھ بہتر روابط قائم کرنے کے لیے تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس ضمن میں اساتذہ کو ماہرین کی جانب سے آن لائن کلاسز کا اجرا اور طلبہ کو لیکچرز دینے کے تجربات کے بارے میں بتایا جائے گا۔ آن لائن طریقہ کار کے تحت طلبہ کی دلچسپی اور ان کے سیکھنے کے عمل کو بھی جانا جا سکے گا۔ماہرین تعلیم سمجھتے ہیں کہ سمارٹ سکول جیسے منصوبے تعلیمی شعبے کو جدید تقاضوں سے آراستہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ تاہم ایسے منصوبوں کا دائرہ کار بڑھا کر محروم علاقوں کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی سمارٹ سکول شروع کرنے سے قبل تکنیکی پہلو، انٹرنیٹ سہولیات اور اساتذہ کی آن لائن تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سمارٹ سکول کے منصوبے میں ایسے افراد کو ترجیحی بنیادی طور پر شامل کرنا چاہیے جن کو تعلیم حاصل کرنے کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے سے نوازے ہوئے طبقے کو ہی مزید سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں تعلیم اور دیگر سہولیات سے تمام لوگ مستفید نہیں ہو پاتے۔ ترقی یافتہ شہروں میں طلبہ اور اساتذہ دونوں کو تعلیم کی تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں اس لیے محرومیوں کا شکار شہروں میں جو بچے سکول جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا کم عمری میں مزدوری کرتے ہیں، انہیں ایسے منصوبوں کے تحت آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے طریقے سکھائے جائیں۔ تعلیم میں جدت لانا ہمیشہ خوش آئند ہوتا ہے مگر ساتھ میں تعلیم سے محروم بچوں کو بھی چھتری کے نیچے لانا ہو گا۔ جب دونوں اطراف ایک ساتھ ترقی ہو گی تبھی ملک میں تعلیم کے فروغ کو ممکن بنایا جا سکے گا۔سمارٹ سکول پروجیکٹ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بہتر روابط قائم کرنے اور ان کے اعتماد کو بڑھانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ موجودہ دور کے طلبہ تو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں لیکن اساتذہ اس طرح سے جدید تقاضوں سے آشنا نہیں ہوتے۔ اس لیے اساتذہ کی ایسی تربیت کی جائے تا کہ وہ پراعتماد انداز میں لیکچر دے سکیں۔ سمارٹ سکولوں کے قیام سے قبل تمام تکنیکی پہلوئوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ملک کے مخلتف علاقوں میں معیاری انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی آن لائن سکول کے اقدام کو دیرپا بنیادوں پر چلا سکتی ہے۔ٹیکنالوجی تمام طلبا کے لیے دستیاب ہونی چاہیے، اور اسے کلاس روم میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال نہ صرف تفریح کے لیے بلکہ سیکھنے کے مقاصد کے لیے بھی کیا جائے، جیسے کہ انٹرایکٹو اسباق، نقالی اور ورچوئل ماحول۔تعلیم کے نتائج کو بہتر بنانا ٹیکنالوجی کا ایک اور طریقہ ہے۔ طالب علم کی کامیابی کو بہتر بنائیں سکولوں میں انٹرایکٹو وائٹ بورڈز کے استعمال سے اسباق کے دوران طلبا کی مشغولیت کی سطح میں اوسطا تیس فیصد اضافہ ہوتا ہے، جبکہ سیکھنے کے نتائج میں اوسطا تین فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ اس قسم کی ٹیکنالوجی کے لیے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ اسے کس طرح بہترین طریقے سے استعمال کرنا ہے ایسی چیز جس کے لیے اضافی تربیت یا مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔بہت سے اساتذہ اور اسکول کے رہنما اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے عادی ہیں جو یا تو بہت زیادہ موثر نہیں ہے یا ان کے تدریسی طریقوں کو اچھی طرح سے سپورٹ نہیں کرتی ہے، اس لیے ان کے خیال میں تمام ٹیکنالوجی بذریعہ ڈیفالٹ خراب ہے۔ دوسرے لوگ کسی ایسی چیز پر پیسہ خرچ نہیں کرنا چاہتے جو وہ صرف ایک بار استعمال کر سکتے ہیں لہذا وہ اس چیز پر قائم رہتے ہیں جو وہ جانتے ہیں کہ کام کرے گا اور کبھی بھی کسی اور چیز کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔آئی کیو تعلیمی حل طلبا کے لیے سیکھنے کے زیادہ متعامل تجربات، زیادہ بامعنی تاثرات اور بہتر نتائج کو قابل بناتے ہیں۔ تعلیم کا مشن طلبا کو سیکھنے کا طریقہ سکھا رہا ہے، نہ کہ انہیں کیا سیکھنا چاہیے۔ توجہ طلبا پر ہونی چاہیے، اساتذہ پر نہیں۔ توجہ ان کی تنقیدی سوچ اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت پر ہونی چاہیے، نہ کہ ان کے ٹیسٹ سکور پر۔اسکول کا مقصد بڑے کاروبار کے لیے وفادار ملازمین پیدا کرنا نہیں ہے۔ یہ لوگوں کو اچھے شہری بنانے میں مدد کرنا ہے جو خود کفیل بن کر اور ٹیم ورک یا کمیونٹی سروس پروجیکٹس کے ذریعے دوسرے لوگوں کے ساتھ بامعنی طور پر تعاون کر کے معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں یا جو کچھ بھی مزہ آتا ہے۔جب ہم اپنی توجہ اس طرف منتقل کر دیتے ہیں کہ ٹیکنالوجی ہمارے لیے کیا کر سکتی ہے ہمیں پہلے اس کی ضرورت کیوں ہے مختلف پس منظر کے لوگوں کے لیے جو مختلف مہارتوں کے حامل ہو سکتے ہیں جو مختلف جگہوں سے آئے ہوں ۔اساتذہ کو پڑھانے میں مدد کرنے کے لیے، ہمیں انہیں صحیح ٹولز اور وسائل دینے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو اپنے مضمون کے لیے جو بھی ٹیکنالوجی ضروری ہے استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہیے، چاہے وہ اوور ہیڈ پروجیکٹر ہو یا لیپ ٹاپ۔ بہترین طریقوں پر اپ ٹو ڈیٹ رہنے کے لیے انہیں آن لائن پروفیشنل ڈویلپمنٹ کورسز تک بھی رسائی حاصل ہونی چاہیے، نیز تعلیمی سافٹ ویئر جو انہیں اپنے طلبہ کی ضروریات کے لیے اسباق کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے دیتا ہے۔جب تک ہم ان چیزوں کو کرنے کے بارے میں واضح فیصلے نہیں کرتے، ہم اپنے بچوں کو وہ تعلیم نہیں دے پائیں گے جس کے وہ مستحق ہیں۔ تعلیم کو بہتر بنانا اتنا آسان نہیں جتنا صرف یہ کہنا کہ آپ اسے کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیم کو بہتر بنانے کے بہت سے طریقے ہیں، اور جب تک ہم ان چیزوں کو کرنے کے بارے میں واضح فیصلے نہیں کرتے، ہم اپنے بچوں کو وہ تعلیم نہیں دے پائیں گے جس کے وہ مستحق ہیں۔ہم تعلیم کے ایک دوراہے پر ہیں، اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں۔ کیا ہم لامتناہی جانچ اور اعلی دائو پر لگا کر احتساب کے اس راستے کو جاری رکھیں گے، یہاں تک کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام ہو چکی ہے؟ یا کیا ہم جرات مندانہ تبدیلیاں کریں گے تاکہ ہمارے بچے وہ تعلیم حاصل کر سکیں جس کے وہ مستحق ہیں؟ضروری ہے کہ سرکاری سکولوں میں اب بلیک بورڈ کے بجائے سماٹ ڈیجیٹل بورڈ ہوں جس پر چاک کے بجائے مصنوعی قلم سے لکھا جائے اور یہ انٹرنیٹ سے جڑا رہے ۔ سرکاری سکولوں میں ٹیچنگ اینڈ لرننگ کے عمل کو بہتر بنایا جائے جس کے تحت اساتذہ کو ٹیبلٹ فراہم کیے جائیں ۔سرکاری سکولوں کے چھوٹے بچے بھی بلیک بورڈ استعمال کرنے کے بجائے ڈیجیٹل طریقے سے تعلیم حاصل کریں تاکہ متعلقہ مضامین کے اساتذہ سرچ انجن کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کر سکیں ۔اس طرح بجلی کی خرابی کی صورت میں بھی پڑھائی متاثر نہیں ہوگی۔یہ جاننا ضروری ہے کہ صرف بچوں کو ہی نہیں بلکہ اساتذہ کو بھی تعلیم میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔