صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا نے کہا ہے کہ گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج سکردو گلگت بلتستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے یہاں پورے جی بی کے طلبا زیر تعلیم ہیں اس کالج میں بہت جلد بڑا آڈیٹوریم قائم کیا جائے گا تاکہ تقریبات کے وقت طلبا کو بیٹھنے میں کسی قسم کی دقت نہ ہو ۔انہوں نے کہاکہ ہمیں احساس ہے کہ داخلوں کے حوالے سے بوائز ڈگری کالج سکردو پر بہت بڑا بوجھ ہے اسی مسئلے کے پیش نظر ہم نے سکردو میں ایک نیا ڈگری کالج قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کالج کی فزیبلٹی رپورٹ جلد تیار ہوگی۔ ڈگری کالج سکردو میں اساتذہ کی کمی کو جلد پورا کیا جائے گا جن مضامین کے اساتذہ اس کالج میں موجود نہیں ہیں ان کی تعیناتی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا۔ سفارشی کلچر ختم ہوچکا ہے اب لوگوں کو محنت کرنا پڑے گی وہ شخص آگے بڑھ سکے گا جو محنت کرے گا محنت نہ کرنے والے آگے نہیں بڑھ پائیں گے میرٹ پر تقرریاں ہونگی اور تبادلے سفارشی بنیاد پر نہیں ہونگے۔ پروفیسر میر عالم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا دوسرے اساتذہ کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے ۔معیاری تعلیم کے فروغ کیلئے ہم جامع منصوبہ بندی کے تحت کام کررہے ہیں سکولوں اور کالجوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔بلاشبہ ہمارے ہاں سفارشی کلچر نے صورتحال کو تباہ کن بنا دیا ہے' میرٹ کی پامالی معمول بن چکی ہے'ظفر سجاد نے درست ہی کہا ہے کہ مفاد پرستی اور بے حِسی کے اس رویے نے عوام کو خاصا دل برداشتہ کر رکھا ہے۔کچھ عرصہ سے وطن عزیز میں مفاد پرستی کا ایک نیاکلچر پیدا ہوا ہے کہ چاہے قوم بھوکی مر جائے ہمیں تو سونے کا نوالہ ہی چاہیے اس وقت ہمارا ملک اور کئی ملکی ادارے خسارے سے دوچار ہیں ۔ عوام کی حالت ناگفتہ بِہ ہے، ہر سال کھربوں روپے تجارتی خسارہ ہو رہا ہے مگر تمام سیاستدانوں کو شاہانہ مراعات چاہئیں، پیشہ ور اور مفاد پرست سیاستدان تو اپنی جگہ مگر جب حکومتی سرپرستی میں چلنے والے خسارہ زدہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے سابقہ اور موجودہ افسران اور ملازمین بھی شاہانہ مراعات طلب کرنے کیلئے احتجاج کا سلسلہ اپناتے ہیں؟قومی ائیرلائن پی آئی اے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کسی زمانے میں یہ ایک مثالی ادارہ تھا ۔ اس کا سلوگن تھا بلکہ اب بھی ہے بے مثال لوگ لاجواب سروس ۔ پی آئی اے کا شمار چند اچھی ساکھ والی فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا، یہ ایک منافع بخش ادارہ تھا، پی آئی ے کے ملازمین کو پرکشش پیکیج دیا جاتا تھا بلکہ اب بھی دیا جاتا ہے، تنخواہ کے علاوہ رہائش، میڈیکل اور سفری سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ بیرون ممالک فلائیٹس کرنے والے فضائی عملے کو بیرون ممالک میں فائیوسٹار ہوٹلوں میں قیام وطعام کی سہولت کے علاوہ اخراجات کیلئے ڈالرز کی شکل میں معقول رقم بھی ادا کی جاتی ہے۔ پندرہ روزہ انٹرنیشنل فلائیٹس کرنے والے ملازمین کو سفری اخراجات کی مد میں تقربیا ایک ہزار ڈالر ادا کئے جاتے ہیں جو کہ عموما بچ ہی جاتے ہیں۔اس قدر منافع بخش نوکری ہو تو کِس کا دل نہیں للچائے گا ۔ پہلے پی آئی اے میں میرٹ کی بنیاد پر ملازمین بھرتی کیئے جاتے تھے پھر حکمرانوں نے اپنے منظور نظر افراد کو نواز نے کیلئے اس ادارے میں بھی سفارشی بھرتیاں شروع کردیں۔ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پی آئی اے ملازمین نے اپنی یونین قائم کر لیں ۔ پیپلزیونٹی اور ائیر لیگ کے ملازمین کے کارنامے سامنے آنے پر قوم اچھی خاصی اضطراب میں مبتلاہوئی، عوام میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں سفارشی اور نااہل افراد اس قومی ادارے کا ستیاناس ہی نہ کردیں۔پھر یہ تباہ ہو گیا'اربوں روپے کا خسارہ ہے جب بھی حکومت نے ملکی خسارہ کم کرنے کی غرض سے اس ادارے کی نجکاری کا فیصلہ کیا تو پی آئی اے کے تمام ملازمین نے احتجاج شروع کردیا۔ اس وقت یہ لاجواب سروس فضائی مسافروں کیلئے ایک سزا بن چکی ہے، محکمہ زبردست خسارے کا شکار ہے، سابقہ حکومتوں نے سفارشی افراد کی بھرتیوں سے ادارے پر خاصا بوجھ ڈال رکھا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی آئی اے کے ایک جہاز کیلئے 700 ملازمین کا بوجھ ہے جبکہ سعودی ائیرلائن میں ایک جہاز کیلئے 240 ملازمین اور ایمریٹس کے ایک جہازکیلئے 140 ملازمین ہیں۔ جبکہ یہ ممالک تیل کی دولت سے بھی مالا مال ہیں۔انہیں اپنی ائیرلائن کیلئے بھاری زرمبادلہ خرچ کرکے تیل نہیں خریدنا پڑتا ۔ پی آئی اے کے ملازمین اپنی مراعات سے بھی دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہر فلائیٹ میں مفت سفر کرنے والے موجودہ اور ریٹائر ملازمین کی بھی مطلوبہ تعداد موجود ہوتی ہے اس کے علاوہ اب بھی ملازمین کے اہل خانہ کو بیرون ممالک سیروتفریح کیلئے مفت سفری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ مسافروں کو کئی کئی دن سیٹ کا انتظار کرنا پڑتا ہے مگر ان ملازمین کے اہل خانہ کیلئے باہمی تعاون کی بنیاد پر ہر وقت سیٹ میسر ہوتی ہے۔ خسارے کے باوجود قومی ائیرلائن کے ریٹائر ملازمین کو پنشن کی مد میں بڑی رقم ادا کی جا رہی ہے جس کا سارا بوجھ خزانے پر ہے۔ سابقہ حکومتوں نے اپنے ووٹ بنک اور مفادات کیلئے ہزاروں فالتوں ملازمین تو بھرتی کر لئے مگر اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ عوام کی جیبوں سے ان نااہل ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن دی جا رہی ہے کہ جو اس منافع بخش ادارے کو شدید خسارے میں لے گئے اور اب اپنی خدمات کا بہتر صلہ مانگ رہے ہیں۔دسمبر2018 تک پاکستان اسٹیل مِل کا خسارہ 480 ارب روپے تھا ۔ جون 2015 سے یہ ادارہ بند پڑا ہے مگر ہر ماہ ملازمین کو 37 کروڑ روپے تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ اس ادارے میں بھی سفارشی ادارے کا بوجھ ڈالا گیا اس ادارے کو تباہ کرنے میں سیاسی پارٹیوں کا خاص کردار رہا ہے۔ زیادہ تر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے خسارے میں ہی چل رہے ہیں ۔ ان اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں اور پینشن عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے ادا کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی بدحالی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر حکومت ان اداروں کی نجکاری یا اسے بند کرنے کا عندیہ دیتی ہے تو ان اداروں کی یونینیں ملازمین کو لے کر سڑکوں پر آ جاتی ہیں۔ مصروف سڑکوں پر ا حتجاج شروع کردیا جاتا ہے۔ حکومت بالآخر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور انہیں اپنا ارادہ موخر کرنا پڑتا ہے۔یوٹیلٹی سٹورز بھی حکومتی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ ناقص حکمت عملی اور ملازمین کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے عوام کو اب سستی اشیائے خورونوش کی سہولت میسر نہیںہے مگر جب بھی حکومت اِسے محدود کرنے یا بند کرنے کی کوشش کرتی ہے اس ادارے کے متعلقہ افراد بھی احتجاج شروع کردیتے ہیں، حکومت کواپنا ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔اگر سیاستدانوں کی کرپشن سامنے لائی جائے ان سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب مانگا جائے اور یہ دولت قومی خزانے میں واپس جمع کرنے کا کہا جائے تو یہ سیاستدان حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔جلسے ، جلوس اور ٹرین مارچ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا یہ احتجاج حکومت کے خلاف نہیں عوام کے خلاف ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کی دیکھا دیکھی اب عام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین نے بھی احتجاج کی روش اپنالی ہے۔کبھی ینگ ڈاکٹرز، کبھی نرسز، کبھی پیر ا میڈیکل سٹاف، کبھی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، کبھی اسپیشل پرسنز، کبھی کسی ادارے اور کبھی کسی محکمے کے لوگ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج شروع کردیتے ہیں اور اس وقت اٹھتے ہیں جب تک اپنے جائز و ناجائز مطالبات نہیں منوالیتے ، ان کی ان مراعات کا بوجھ ملکی خزانے پر پڑ تا ہے جو کہ عوام کے ٹیکسوں اور کمائی سے بھرا جاتا ہے۔جب پاکستان میںکمپنیوں کی نجکاری کی گئی تو وہ کمپنیاں جلد ہی خسارے سے نِکل گئیںاور منافع میں چلی گئیں۔ بجلی کے ترسیلی نظام کی ذمہ دار بعض کمپنیوں کی نجکاری کے بعد خسارہ ختم ہوا یا کم ہوگیا ۔جن الیکٹرک کمپنیوں کی نجکاری نہیں کی گئی اب بھی وہ بھاری خسارے میں ہیں۔اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست اور عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے ۔ جو افراد ملکی دولت واپس کرنے سے انکاری ہیں یا عوام کی دولت ہڑپ کرنے پر بضد ہیں انہیں عوامی عدالت میں پیش کیا جائے۔ عوام کو شعور دیا جائے کہ ان کا احتجاج حکومت کے خلاف نہیں ، ریاست اور عوام کے خلاف ہے۔ عوام ان کا آلہ کار بننے کی بجائے خود ان کے احتجاج کو ناکام بنائیں۔ حکومتیں آتی جاتی ہیں۔ ریاست اور عوام اصل اسٹیک ہولڈرہوتے ہیں ان کے مفادات کو ہمیشہ مقدم رہنا چاہیے ۔ سونے کا نوالہ عوام کو ملِنا چاہیے نہ کہ ملک اور ملکی اداروں کو نقصان پہنچانے والے افرادکو؟اگر ہم سفارشی کلچر کے تدارک میں کامیاب ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ترقی اور آگے بڑھنے سے نہیں روک سکے گی۔
