سوشل میڈیا کا غلط استعمال

 وزیراعلی حاجی گلبرخان نے کہاہے کہ بلتستان کے لوگ امن پسند، ملنسار ہیں یہاں کے ملازمین ایمانداری دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں مگر دیامر اور دیگر اضلاع میں ایسا نہیں ہے سیاسی طالبعلم کی حیثیت سے پورے گلگت بلتستان کو دیکھا ہے لیکن بلتستان کا امن مثالی رہا ہے، اس علاقے کے لوگ ہر حوالے دوسرے اضلاع سے برتر ہیں۔ سکردو میں منعقدہ استحکام پاکستان کانفرنس بعنوان پیغام انسانیت سے خطاب کرتے ہوئے حاجی گلبرخان نے کہاکہ سوشل میڈیا ہمارے لئے عذاب بنا ہوا ہے ہماری دعا ہے کہ سوشل میڈیا کے شر سے بلتستان کو محفوظ رہے، انہوں نے کہاکہ اللہ کے نبیﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں گے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا دو سال کیلئے وزیراعلی بنا ہوں میں کسی ایک جماعت کا نمائندہ نہیں ہوں یہاں مخلوط حکومت ہے میں تمام جماعتوں کا وزیراعلی ہوں سب کو ساتھ لیکر چل رہا ہوں، یہاں کسی ایک جماعت کی نہیں سب کی حکومت ہے بہت سارے حلقے ایسے ہیں جہاں لوگ مسلکی بنیادوں پر الیکشن لڑتے ہیں علما کرام کو بھی بتایا یوتھ کو بھی بتایا ہے کہ وہ علاقے میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے کام کریں علمائے کرام عمائدین اور نوجوان ٹھیک ہونگے تو مستحکم گلگت بلتستان بن سکتا ہے۔وزےر اعلی کا ےہ کہنا درست ہے سوشل مےڈےا معاشرتی بگاڑ کا موجب بن رہا ہے۔عدےلہ خالد کے مطابق ایسے بیانیے اور بے بنیاد جھوٹی خبروں کی تشہیر میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا کا خاصا بن چکے ہیں۔یہ سب ایسے منظم طریقے سے انجام پا رہا ہے کہ اب روایتی جنگ لڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کر کے متعلقہ اہداف مکمل کیے جا رہے ہیں۔ جھوٹی خبروں کی تشہیر ہو یا پھر ایکو چیمبرز جیسے منظم گروہ، یہ سب ریاست مخالف کارروائیوں کے ذریعے ملکی وقار، نظریاتی اساس، اعلی اداروں اور قیادت کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایکو چیمبرز قدرے نئی اصطلاح ہے جس سے بہت سارے لوگ واقف نہیں ہیں ۔ اس سے مراد سوشل میڈیا پر موجود افراد کا ایک ایسا منظم گروہ ہے جن کا مقصد جھوٹی خبروں کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو پراگندہ کرنا ہوتا ہے۔بظاہر یہ لوگ قابل ، پڑھے لکھے ، منجھے اور سلجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن در پردہ ایسی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں کہ جن سے بڑی بڑی ریاستوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ عموما ان گروہوں کا ہدف نوجوان ہوتے ہیںجو کچے ذہن اور کم عمری کی بدولت بڑی آسانی کے ساتھ ان کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ان گروہوں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں عموما ایک یا ایک سے زیادہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہاں ایک ایسی پروفائل یا پیج بنایا جاتا ہے جس پر کسی خاص موضوع کے متعلق منفی مواد کا اشتراک کیا جاتا ہے۔ پھر کسی بیانیے کو فروغ دے کر ایک ٹرینڈ چلایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کواس کا حامی بنا کر انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ اس ٹرینڈ کی بدولت ان کی قسمت بدلی جا سکتی ہے یا انہیں سیاسی نظام سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ ایسے رجحانات میںاکثر ملک کے اعلی سول و عسکری اداروں اور اعلی قیادت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلا کر اشتعال انگیزی کا بیج بویا جاتا ہے جس کا لا محالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک بد امنی کی طرف چلا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا پرانہی ایکو چیمبرز اور پروپیگنڈا عناصرنے ایک منظم مہم چلا کر عوامی بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی جس میں جھوٹی خبروں کی تشہیر ، ہائبرڈ وار اور دیگر طریقوں کی مدد سے وطن کی سالمیت پر کڑے وار کیے گئے۔ایسے وقت میں ہماری عسکری قیادت نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ اس ساری صورت حال میں سوشل میڈیا کے بے لگام جِن کو قابو کرنے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ دنیابھر میں ایسے قوانین موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر جدید ترقی یافتہ ممالک نے سوشل میڈیا ، جھوٹی خبروں کے پھیلاﺅ اور ففتھ جنریشن وار کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود نفرت اور اشتعال انگیز مواد پر قابو پانے میں جرمنی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا اور جھوٹی خبروں پر قابو پانے کے لیے برطانیہ میں بھی قانون موجود ہے اس کا مقصد برطانوی شہریوں بالخصوص بچوں کو انٹرنیٹ کی دنیا میں مکمل تحفظ فراہم کرنااور برطانیہ جیسے ملک کو آن لائن دنیا میں محفوظ ترین جگہ بنانا ہے۔اس بل کے تحت شہریوں کی حفاظت کی خاطر برطانوی حکومت تمام سوشل میڈیا اورپیغام رسانی پلیٹ فارمز پر صارفین کی طرف سے اپلوڈ کیے جانے والے مواد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ سےکیورٹی خدشات کے پیش نظر سرکاری فون پر ٹک ٹاک چلانے پر پابندی عائد کرنے کی سفارشات بھی زیر غورہیں۔ کچھ عرصہ قبل فیس بک کے حوالے سے سرکاری سطح پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا کہ فیس بک نے کروڑوں صارفین کے ڈیٹا تک ، ان کی اجازت کے بغیر دیگر کمپنیوں کو رسائی دے کر غلط استعمال کیا۔بعد ازاں جرم ثابت ہونے پر فیس بک پر جرمانہ بھی عائدکیا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے دھوکہ دہی کے طریقوں کا استعمال، نفرت انگیز مواد کی تشہےر اور غلط معلومات کی ترسیل پر بے شمار قوانین موجود ہیں جن پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔ چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ چین میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مکمل پابندی عائد ہے۔ حکومتی سطح پر گوگل اور فیس بک کی طرز پر کئی ایپلی کیشنز ایجاد کی گئی ہیں تاکہ عوام کو آن لائن مواصلات کی سہولتیں فراہم کی جا سکیں تاہم ان پر کڑا چیک اینڈ بیلنس بھی رکھا گیا ہے۔ چین میں جعلی معلومات آن لائن پھیلانابہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے جس پر قرار واقعی سزائیں دی جاتی ہیں۔ غلط معلومات پھیلانے کے خلاف قوانین نہایت سخت ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے امن عامہ میں بگاڑ پیدا کرنے کی سزا سات سال تک مقرر کی گئی ہے۔مزید برآں ٹیلی کام اور آن لائن فراڈ سے نمٹنے کے لیے ایک نیا قانون وضع کیاگیا ہے جس کا مقصدبڑھتے ہوئے آن لائن جرائم کا خاتمہ کرنا ہے ۔ ٹیلی کام آپریٹرز، مالیاتی اداروں اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے لیے بھی قوانین موجود ہیں جن پر عمل نہ کرنے پر انہیں بھاری جرمانے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی ، جاپان ، ملائےشیا سمیت دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے قوانین رائج ہیںجن کے ذریعے جھوٹی خبروں کی تشہیر اور ڈس انفارمیشن کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔سوشل میڈیا کے حوالے سے بھارت میں بھی قوانین موجود ہیں تاہم ان کی نوعیت باقی ممالک سے قدرے مختلف ہے۔زیادہ تر قوانین حکومتی ایما پر استعمال کیے جاتے ہیں جن کا مقصد مخالفوں کو جبرا قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ زیادہ تر میڈیا تنظیمیں بر سر اقتدار حکومتی پالیسیوں اور بیانیے کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں۔ آزادی صحافت پر بھی کئی قدغنیں لگائی گئی ہیں۔ وطن عزیز میں سوشل میڈیا کے استعمال کے متعلق قوانین موجود ہیں ۔ نومبر 2020 میں کچھ نئے ضوابط کا اطلاق کیا گیا جن کے مطابق سوشل میڈیا پرتوہین مذہب، مذہبی منافرت، پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی و صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیز، نظریاتی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں کو پابند کیا گیا ۔ساتھ ہی کہا گیا کہ ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی کی جانب سے متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی یا ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے گا۔ نئے قواعد کے تحت یقینی بنایا گیا کہ یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک، گوگل پلس، لنکڈان سمیت سوشل میڈیا یا کسی بھی ویب سائٹ پر ہتک آمیز، گستاخانہ مواد، نازیبا تصاویر شائع کرنے پر پی ٹی اے کو شکایت درج کرائی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح اسلام اور ملکی سلامتی کے خلاف مواد ، غیر اخلاقی مواد ، غلط مواد کی تشہیر پر بھی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔عظمت اسلام یا کسی بھی فرقے یا مذہب کے خلاف سوشل میڈیا پر آن لائن مواد پھیلانا سنگین جرم ہے اور تعزیرات پاکستان کے تحت اس کی سزا سزائے موت، عمرقید اور جرمانہ ہے۔سوشل میڈیا پر نسل، مذہب یافرقہ واریت پر کسی طبقے یا شخص کیخلاف آن لائن مواد پھیلانا جرم ہے۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال مذہب سے دوری اوراخلاقی بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے سدباب کیلئے میڈیا اور اس سے وابستہ لوگوں کو فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اطلاع فوری طور پر پی ٹی اے، ایف آئی اے یا وزارت مذہبی امور کو کی جائے۔انہوں نے کہا قرآن و سنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے سی ہم دنیا میں اپنی اقدار کھو چکے ہیں۔